ہوم << پاکستانی قوم کی غلط فہمیاں - ڈاکٹر محمد شافع صابر

پاکستانی قوم کی غلط فہمیاں - ڈاکٹر محمد شافع صابر

ایک غلط فہمی دور کر لیں وہ یہ کہ پروٹوکول کی بیماری صرف حکمرانوں اور افسر شاہی ہے۔ یہ بیماری ہر پاکستانی کو لاحق ہے۔ اس کا علمی مظاہرہ ہم روزانہ دیکھتے ہیں ۔ بینکوں میں لائن بننانے کی بجائے ہم کوئی "ریفرنس " ڈھونڈتے ہیں کہ ہماری باری جلد آ جائے ۔

ہسپتالوں میں او پی ڈی میں پرچی بنانے کی لائن بنانا بھی ہمیں اچھا نہیں لگتا،وہاں " پروٹوکول " لینے کے لئے ہسپتال کے عملہ کو پیسے دیکر جلدی کام کروانے کی کوششیں کی جاتی ہیں ۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں ۔پروٹوکول حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف لوگ ہم ہر جگہ دیکھتے ہیں ۔ایک صاحب کی کال آئی، کہنے لگے ڈاکٹر صاحب ہم پسیانوالہ سے نکل پڑے ہیں ،الائیڈ ہسپتال میں اپنے کسی جاننے والے سے کہہ دیں کہ ایک بیڈ خالی رکھیں، ہم مریض کو لا رہے ہیں، اور پروٹوکول بھی دلوا دیں، میں نے جل کر جواب دیا، اگر آپ کہتے ہیں کہ وینٹلیٹر بھی رکھ لوں؟ ہنس کر جواب دیا نہیں نہیں اسکی ضرورت نہیں ۔

ایسی ٹاپک پر گفتگو چل رہی تھی کہ ایک ڈاکٹر صاحب بولے! یار شافع، یہ جو لوگ پروٹوکول کے خلاف بولتے ہیں، اگر انکو کل اتھارٹی مل جائے تو یہی لوگ یہی پروٹوکول فل دھوم دھام سے لیں گے۔ کچھ چیزیں ہم میں رچ بس گئی ہیں اور ان میں پروٹوکول کی بیماری بھی شامل ہے۔ مسئلہ پروٹوکول نہیں، مسئلہ ان مسائل کا ہے،جو اس پروٹوکول کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ جیسے کوئی صاحب بہادر کا گزر کسی شاہراہ سے ہو اور اسکے لیے جو روٹ لگتا ہے،نتیجے میں جو کوفت عوام الناس کو اٹھانی پڑتی ہے،ہمیں اس سے مسئلہ ہے۔ بلکل ایسے ہی لیٹ سے آیا مریض،اگر کسی ہسپتال کے ملازم کو " سو پچاس دیکر " پروٹوکول لیکر پہلے پرچی بنوا کر چیک کروا اور دوائی لے لیتا ہے تو اس بیچارے کا کیا قصور جو لائن میں صبح سے کھڑا ہے؟

خود پروٹوکول حاصل کرنے کے لئے ہر زریعہ استعمال کرنے والی عوام حکمرانوں اور اشرفیہ کے پروٹوکول لینے پر ناک چڑھاتی ہے اور یہی وہ اصل منافقت ہے،جسکا شکار ہماری پوری قوم بن چکی ہے۔بات سے بات نکلتی ہے، ایک اور سخت غلط فہمی میں ہم سب پاکستانی مبتلا ہیں کہ ہمارے ملک کے حکمرانوں، افسر شاہی اور ایلیٹ کلاس ہی کرپشن کرتی ہے جبکہ عام آدمی اور مڈل کلاس کا کرپشن سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں ۔ پاکستان میں ہر بندا اپنے لیول تک کا کرپٹ ہے، جیسے جیسے عہدہ بڑھتا جاتا ہے،کرپشن بڑھتی جاتی ہے لیکن ایک فرق یہ واضح نظر آتا ہے کہ بڑوں کی بڑی کرپشن نظروں میں آ کر بھی اوجھل ہو جاتی ہے جبکہ چھوٹی کرپشن پر قانون اندھا ہو جاتا ہے۔

عام آدمی اور مڈل کلاس، اشرافیہ کی بانسبت زیادہ کرپٹ اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہے۔ مثال کے طور پر، ہر سرکاری محکمہ کا عام آدمی جو کہ کلرک ہے،وہ انتہا درجے کا کرپٹ ہو گا،چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے آپ کی ناک کی لکیریں نکلوا دے گا،ہر کام پر رکاوٹ کھڑی کرے گا جب تک آپ اسکو راضی نا کر لیں۔ ہر درجہ چہارم کا ملازم،ہر غلط طریقہ کار سے پیسے کمائے گا، سیکورٹی گارڈ پیسے لیکر گاڑیوں کی غلط پارکنگ کروائے گا، آپا پیسے پکڑ کر ہسپتال کے کام کروائے گی، آپریشن تھیٹر سٹاف جھوٹ بول کر ڈریسنگ کرنے کے پیسے لیں گے اور چل سوچل ۔

آپ کو زندگی کے ہر شعبے میں عام آدمی کرپشن کرتا نظر آئے گا، اگر آپ اسے ٹوکیں گے تو اسکا یہ جواب ہو گا،مہنگائی بہت ہے،تنخواہ کم ہے، گزارہ نہیں ہوتا۔ حکمران بھی تو کرپشن کرتے ہیں،ہم نے تھوڑی بہت کر لی تو کیا قیامت آ گئی وغیرہ وغیرہ ۔اخلاقی انحطاط اس قدر زیادہ ہے کہ مہنگائی اور کم تنخواہ کو اپنی ناجائز آمدنی کو جائز قرار دینے کا جواز بتایا جاتا ہے۔ ایک عام مشاہدہ یہ بھی ہے کہ جب ایک عام آدمی کسی بڑے عہدے پر پہنچ جاتا ہے تو وہ باقیوں کی نسبت زیادہ کرپشن کرتا ہے اور اسکی گردن میں زیادہ سڑیا آتا ہے۔

اشرافیہ اپنے مقاصد کے لئے ایک دوسرے کا تحفظ کرتی ہے، جبکہ ایک عام آدمی دوسرے عام آدمی کو آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتا،اسی لیے وہ اسکی ناکامی کا منتظر ہوتا ہے۔ پاکستان میں شریف وہی ہے جسکو موقع نہیں ملتا اور کرپشن بس وہی نہیں کرتا جسکے پاس کوئی عہدہ نہیں ہوتا اور یہی تلخ حقیقت ہے۔