سیف علی خان کی سلطنتِ بھوپال سے جڑی خاندانی تاریخ اور اس پر اٹھنے والا موجودہ قانونی تنازع، برصغیر کی تقسیم کے بعد قائم ہونے والی شناختوں، شہریت، اور وراثتی قوانین کے گہرے تضادات کو ظاہر کرتا ہے۔ اس قضیے کی جڑیں بیگم ساجدہ سلطان اور ان کی بہن عابدہ سلطان کی متضاد راہوں سے جڑی ہوئی ہیں، جہاں ایک نے بھارت میں قیام کو ترجیح دی اور دوسری نے پاکستان ہجرت کی۔
آج انہی فیصلوں کی قانونی بازگشت پندرہ ہزار کروڑ روپے مالیت کی جائیدادوں کے مستقبل پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ بیگم ساجدہ سلطان، نواب حامد اللہ خان کی بیٹی اور سابق نواب پٹودی افتخار علی خان کی اہلیہ تھیں۔ 1961 میں حکومت ہند نے انہیں باضابطہ طور پر ریاست بھوپال کی جانشین تسلیم کیا اور نجی جائیدادوں کی وارث مقرر کیا۔ انہوں نے بھارت میں رہ کر اپنی شہریت برقرار رکھی، اور یہی قدم ان کے خاندان کے مستقبل کی وراثت کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوا۔ ساجدہ سلطان کا قیام بھارت میں اُن املاک کو تحفظ دیتا رہا جو اگر اُن کی بڑی بہن کے قبضے میں ہوتیں، تو فوری طور پر دشمن کی جائیداد قرار پاتیں۔
عابدہ سلطان، نواب حامد اللہ خان کی بڑی بیٹی اور ریاست بھوپال کی ولی عہد رہ چکی تھیں۔ انہوں نے 1950 میں پاکستان ہجرت کی اور بھارتی شہریت ترک کر دی۔ وہ بعد میں پاکستان کے سفارتی محکمے سے منسلک ہوئیں اور ان کے بیٹے شہریار خان نے بھی پاکستان میں نمایاں حیثیت حاصل کی۔ وہ پاکستان کے وزیر خارجہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی رہے۔ عابدہ سلطان کی نقل مکانی ایک ذاتی فیصلہ تھا، مگر قانونی طور پر اسے دشمن ملک کی طرف ہجرت تصور کیا گیا، جس کا اثر وراثتی حقوق پر آج بھی جاری ہے۔
یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت نے 1968 میں دشمن جائیداد ایکٹ متعارف کروایا، جس کے تحت ایسے افراد کی جائیدادیں ضبط کی جانے لگیں جنہوں نے تقسیم کے بعد پاکستان یا کسی دیگر دشمن قرار دیے گئے ملک کا رخ کیا۔ یہ مسئلہ آج بھی جاری ہے، حالانکہ اس وقت واضح ہونا چاہیے تھا کہ جو جس طرف جانا چاہے، چلا جائے، مگر اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ان کی آنے والی نسلیں بھی وہ سب کچھ جھیل رہی ہیں جو خود انہوں نے نہیں چُنا تھا۔
سیف علی خان، جو ساجدہ سلطان کے نواسے ہیں، اُنہیں ان جائیدادوں پر مکمل حق وراثت حاصل تھا جو ان کی نانی کے نام پر تھیں۔ ان میں بھوپال کا تاریخی فلیگ اسٹاف ہاؤس، نور الصباح پیلس، دارالسلام، کوہِ فضا، احمد آباد پیلس اور دیگر املاک شامل ہیں۔ ان املاک کی مجموعی مالیت اندازاً پندرہ ہزار کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔ مگر جب حکومت ہند نے 2015 میں ان املاک کو دشمن کی جائیداد قرار دیا، تو قانونی پیچیدگیاں مزید سنگین ہو گئیں۔ 2017 میں دشمن جائیداد ایکٹ میں ترمیم کی گئی، جس کے بعد دشمن شہری کے وارث بھی ان جائیدادوں پر کوئی دعویٰ نہیں کر سکتے۔
چونکہ عابدہ سلطان نے پاکستان ہجرت کی، اس لیے ان کی وراثت کا حصہ اور متعلقہ جائیدادیں دشمن جائیداد قرار دے دی گئیں۔ نتیجتاً، ساجدہ سلطان کے خاندان کو بھی وراثت کے مکمل حقوق سے محرومی کا خطرہ لاحق ہوا، حالانکہ وہ بھارت میں قیام پذیر تھیں اور بھارتی شہری تھیں۔جون 2025 میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے 2000 کا وہ فیصلہ منسوخ کر دیا جس میں ساجدہ سلطان کے وارثوں کو جائیداد کا مکمل حق دار تسلیم کیا گیا تھا۔ عدالت نے معاملے کو دوبارہ ماتحت عدالت کو بھیجتے ہوئے ایک سال میں فیصلے کی ہدایت دی۔ اب عدالت کو یہ طے کرنا ہے کہ نواب حامد اللہ خان کی جائیداد اسلامی وراثتی قانون کے مطابق تقسیم ہونی چاہیے یا نہیں۔
اگر اسلامی قانون کے تحت تقسیم ہوتی ہے، تو سیف علی خان اور ان کے خاندان کا حصہ خاصا محدود ہو سکتا ہے۔ مزید برآں، عدالت نے یہ بھی کہا کہ سیف علی خان اور ان کے خاندان کو حکومت کے اُس فیصلے کے خلاف اپیل کرنی چاہیے تھی جس میں جائیداد کو دشمن کی ملکیت قرار دیا گیا تھا۔ مگر وہ مقررہ تیس دن کی مدت میں اپیل داخل نہ کر سکے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اب انتظامیہ ان املاک پر قانونی قبضہ جما سکتی ہے۔
اس پورے معاملے میں ایک اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ انگریز نے اس خطے کو اس انداز میں تقسیم کیا کہ اس کی گونج آج تک خاندانوں میں سنائی دیتی ہے۔ نفرت اس حد تک پھیلائی گئی کہ علیحدگی کے بعد بھی دونوں اطراف ایک دوسرے کے دشمن بنے رہے۔ اب ذرا اس بات سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیا برطانوی راج سے پہلے مسلمان اور ہندو اکٹھے نہیں رہ رہے تھے جو بعد میں الگ ہو کر ایک دوسرے کے مخالف بن گئے۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک تھما نہیں، پہلے یہ مہمات مخصوص علاقوں تک محدود تھیں، اب ڈیجیٹل دور ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے وہی تفریق مزید پھیلائی جا رہی ہے۔ پاکستان کے اندر ہی دیکھ لیں، بلوچ، پنجابی، سندھی اور دیگر قومیتوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دی جا رہی ہے۔
یہ معاملہ خالصتاً قانونی اور تاریخی نوعیت کا ہے، جس میں بھارت اور پاکستان کی تقسیم کے اثرات، شہریت کے فیصلے، خاندانی سیاست، اور قانون کی تشریحات آپس میں الجھ چکی ہیں۔ شہریار خان، جو سیف علی خان کے بزرگ رشتہ دار تھے، اس پورے تنازع پر خاموش رہے۔ ان کی وفات 2024 میں ہوئی اور وہ اپنی والدہ کے فیصلے پر کبھی بھی بھارت کے اندر کوئی تبصرہ نہیں کرتے نظر آئے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ریاست بھوپال کی یہ جائیدادیں اب صرف وراثتی نہیں بلکہ سیاسی، تاریخی اور قانونی علامت بن چکی ہیں۔ جہاں ایک طرف سیف علی خان کا تعلق فلمی دنیا سے ہے، وہیں ان کے خاندانی پس منظر میں ایک ریاست، ایک نظام اور ایک تاریخ دفن ہے۔
اس تنازعے کا فیصلہ صرف عدالت ہی کرے گی، مگر یہ واقعہ اس بات کی زندہ علامت ہے کہ برصغیر کی تقسیم صرف زمینی سرحدوں تک محدود نہ تھی بلکہ اس نے خاندانوں، شناختوں اور وراثتوں کے درمیان بھی ایک ایسی لکیر کھینچ دی ہے جس کے اثرات آج بھی مٹنے کا نام نہیں لیتے۔
تبصرہ لکھیے