کبھی کبھی حادثے صرف جسم نہیں بہاتے، اجتماعی ضمیر کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ چند روز قبل سوات کے بہتے دریا نے 18 زندگیاں نگل لیں۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ یہ اُن لمحوں میں سے ایک لمحہ تھا جب پوری قوم کو جھنجھوڑ دینا چاہیے تھا۔ لیکن قوم کی رگوں میں بہنے والا ضمیر جیسے خاموش تھا، اور حکمران تو گویا بیدار ہونے کا تکلف بھی نہ کر سکے۔ وزیر اعلیٰ کی بےحسی تو ایک نیا ہی باب تھی۔ انہیں تو اس پر شرمندہ ہونا چاہیے تھا، متاثرہ خاندانوں کے پاس جا کر ہاتھ جوڑنے چاہیے تھے، مگر اُنہوں نے کمال بےفکری سے فرمایا: "کیا میں تمبو لے کر وہاں چلا جاتا؟" یہ جملہ صرف لفظ نہیں، پوری ریاستی سوچ کا نچوڑ ہے — کہ عوام اگر مر بھی جائیں تو بس اخبار کی ایک خبر بنیں، اُن کی موت پر ریاست کا درد جاگے یہ ضروری نہیں۔
اس بیان نے ہمیں بتا دیا کہ عوام کی حیثیت اس ملک میں کیا ہے: ایک عدد، ایک ووٹ، ایک بےآواز مخلوق۔ جن کے لیے وعدے بہت ہوتے ہیں، مگر رحم، ردعمل اور ریلیف کبھی نہیں ہوتا۔
اور پھر ابھی اس صدمے سے سنبھلنے نہ پائے تھے کہ پاکپتن سے ایک اور قیامت صغریٰ کی خبر آئی۔ بیس معصوم بچے صرف اس لیے مر گئے کہ اسپتالوں میں سہولتیں نہ تھیں۔ ان کی مائیں دعائیں مانگتی رہ گئیں، ان کے باپ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر چیختے رہے، اور وہ ننھے بدن جو کبھی ماں کی گود میں جھولتے تھے، اب خاموشی سے قبر کی آغوش میں جا سوئے۔
یہ سب یوں ہی نہیں ہو رہا۔ یہ حادثات، یہ اموات، یہ محرومیاں — سب ایک منظم غفلت اور ظالمانہ نظام کی پیداوار ہیں۔ وہ نظام جس میں دو طبقے ہوتے ہیں: ایک حاکم، ایک محکوم۔ فرق صرف اختیار کا نہیں، احساس کا بھی ہے۔ فرق صرف حیثیت کا نہیں، اہمیت کا بھی ہے۔
دنیا کے مہذب معاشروں میں اگر کوئی بچہ سڑک پر گر کر مر جائے تو پارلیمنٹ ہل جاتی ہے، اگر کسی علاقے میں پانی بند ہو جائے تو عدالت حرکت میں آتی ہے، اگر کوئی ماں بچے کو اسپتال میں علاج کے بغیر مرتا دیکھے تو وزرا مستعفی ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں — نہ کسی کی کرسی ہلتی ہے، نہ کسی کا ضمیر۔ یہاں موت معمول ہے، بے حسی روایت ہے، اور غم صرف ان کا مقدر ہے جن کے پاس رسائی نہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقتدار کی راہ میں سب سے کم قیمت اگر کسی چیز کی ہے تو وہ عوام ہے۔ یہاں اشرافیہ اقتدار کو خدمت نہیں، حق سمجھتی ہے۔ یہاں بجٹ عوام کی فلاح پر نہیں، وزیروں کے قافلوں پر خرچ ہوتا ہے۔ یہاں عدالتیں طاقتور کی سہولت کے لیے کھلتی ہیں، اور غریب کے لیے تاریخ پر تاریخ کا کھیل جاری رہتا ہے۔
یہاں اقتدار میں آنے والوں کا پہلا کام اپنے لیے گاڑیاں خریدنا ہوتا ہے، اپنے دفاتر کی تزئین کرنا ہوتا ہے، اپنے بیرونی دورے طے کرنا ہوتا ہے۔ عوام تو صرف ایک ہجوم ہے — جسے ہانکا جا سکتا ہے، جسے تقسیم کیا جا سکتا ہے، جسے وعدوں میں الجھایا جا سکتا ہے۔
اسی لیے تو مذہب اور مسلک کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عوام کو عقیدے کے نام پر لڑایا جاتا ہے تاکہ وہ پوچھ نہ سکیں کہ ان کے بچوں کو تعلیم کیوں نہیں ملی؟ انہیں علاج کیوں نہیں ملا؟ ان کے گاؤں میں سڑک کیوں نہیں بنی؟ ان کے علاقے میں پانی کیوں نہیں آتا؟
حقیقت یہ ہے کہ عوام کو سیاست کا ایندھن بنا دیا گیا ہے۔ وہ ہر الیکشن میں ایک نیا نعرہ سنتے ہیں، ایک نئی امید باندھتے ہیں، ایک نئے چہرے کو آزمانے نکلتے ہیں — اور پھر وہی پرانا دھوکہ، وہی لوٹ کھسوٹ، وہی وعدے، وہی بدحالی۔
یہاں وسائل کی بندر بانٹ کھلے عام ہو رہی ہے۔ اشرافیہ کے لیے سستی زمینیں، سبسڈیز، پلاٹ، بیرونِ ملک علاج، اور بچوں کی غیر ملکی تعلیم — اور عوام کے لیے مہنگی روٹی، بند اسپتال، بوسیدہ اسکول، اور قرضوں کا بوجھ۔
اشرافیہ کو ملکی خزانہ وراثت میں ملا ہے۔ وہ جو چاہیں کریں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عوام اگر کسی ریلیف کی درخواست کرے تو ہزار مراحل، کاغذی کارروائیاں، سفارشیں، اور آخر میں مایوسی۔ جیسے ریاست عوام کو بتا رہی ہو: تم ہماری ترجیح نہیں ہو۔
آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نیا نہیں۔ پاکستان جب بنا تھا، تب بھی بیوروکریسی نے اپنی جڑیں مضبوط کیں، جاگیرداروں نے اپنے اثر و رسوخ بڑھائے، اور سرمایہ داروں نے ملک کے اقتصادی نظام پر قبضہ کیا۔ آزادی کا خواب جنہوں نے دیکھا، وہ تو خالی ہاتھ رہ گئے — اور اقتدار اُن کے حصے میں آیا جو پہلے سے طاقتور تھے۔
یہ سب کچھ مسلسل دہائیوں سے ہو رہا ہے۔ اور عوام کو مسلسل نئے نئے خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ کبھی ایک منشور، کبھی ایک جماعت، کبھی ایک تبدیلی کا نعرہ۔ ہر بار ایک نیا چہرہ، پرانا نظام، نئی امید، پرانی مایوسی۔
سوال یہ ہے کہ یہ کھیل کب تک جاری رہے گا؟ کب عوام خوابوں کے جال سے نکل کر حقیقت کو دیکھے گی؟ کب وہ سمجھے گی کہ ان کے دکھوں کا علاج کسی سیاسی یا مذہبی شخصیت کے ساتھ جُڑے رہنے میں نہیں، بلکہ خود اپنے حق کے لیے اٹھنے میں ہے؟
کب وہ لمحہ آئے گا جب عوام، سیاسی جھنڈوں کے رنگوں میں نہیں، اپنے خون کے رنگ کو پہچانیں گے؟ جب وہ کہہ سکیں گے کہ یہ ملک ہمارا ہے، یہ خزانہ ہمارا ہے، یہ اقتدار ہمارا حق ہے۔
اگر آج بھی ہم چپ رہے، اگر ہم نے یہ نہ سمجھا کہ ریاست کا فرض صرف دفاع یا قانون سازی نہیں، بلکہ ہر شہری کی جان، مال، عزت اور مستقبل کا تحفظ ہے — تو کل تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
اور اگر ہم نے اب بھی نہ بدلا، تو ہم صرف زندہ لاشیں ہوں گے — وہ لاشیں جو سانس تو لیتی ہیں، مگر جیتی نہیں۔
تخت والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ تازیانہ ہمیشہ دوسروں پر نہیں برستا، کبھی لوٹ کر تخت پر بھی آ گرتا ہے۔
--
تبصرہ لکھیے