عقل ایک بنیادی پیدائشی انسانی وصف ہے جو بنی نوع انسان کے علاؤہ اور کسی ذی روح میں نہیں پائی جاتی، اس کا پیمانہ کسی بھی انسان کے اندر کم، متوازن یا بیش ہوسکتا ہے، کسی بھی انسان کے اندر عقلی استعداد کا کثرت سے ہونا اسے معاشرے میں دوسرے افراد سے ممتاز کرتا ہے اور اس انسان کی دور اندیشی کو چار چاند لگا دیتا ہےـ
علم وہ خزانہ پے جو ایک انسان اس دُنیا میں مختلف ذرائع سے حاصل کرتاہے، علم وعقل رکھنے والا کوئی بھی شخص ایک سنجیدہ, ساکت و عمیق شخصیت کا مالک ہوتا ہے، اور علم ہی وہ طاقت ہے جو ایک انسان کو شعور کی شمع سے روشناس کراتا ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ شعور انسانی شخصیت کے دو پہلوؤں میں منقسم نظر آتا ہے، جو کہ مثبت اور منفی شعور ہیں، منفی شعور حاصل کر کے ایک انسان انا پرستی، خود غرضی، خودپسندی، رقابت، حسد، عداوت، شخصیت پرستی، غرور، تکبر، منافقت جیسی خصلتوں میں مبتلا ہو جاتا ہےـ
علم کا دوسرا حاصل اور پہلو مثبت شعور ہے، یعنی مثبت شعور حاصل کر کے ایک انسان، تخلیق، حق گوئی، حق پرستی، بے باکیت، دانش، اخوت، اتفاق، جذبہ خدمت، محبت، خدمتِ انسانیت، جیسی عظیم خصلتیں پا لیتا ہےـ
کچھ خصلتیں انسان کو موروثی طور پر بھی مل جاتی ہیں اور وہ اس کے خمیر میں ہوتی ہیں، لیکن علم و شعور حاصل کرنے کے بعد انسان اپنی مثبت و منفی خصلتوں سے آگاہی حاصل کر سکتا ہے، اور یہی سفر خود آگہی ہے، جب انسان اپنی ذات میں گم ہو کر باریک بینی سے مشاہدہ کرتاہے اور اپنے اندر موجود اچھے اور برے کی حیثیت اس کے سامنے آشکار ہو جاتی ہے.
ذات بشری کا ایک پہلو اور بھی ہے، وہ یہ کہ ہر بشر فطرتاً اچھائی اور برائی کا پیکر ہوتا ہے، کوئی اچھا بولتا ہے لیکن اچھا لکھ نہیں سکتا، کوئی آچھا لکھتا ہے تو اچھا بول نہیں سکتا، کسی کے لہجے میں مٹھاس ہے تو دل میں خفی کدورت، کسی کا لہجہ سخت لیکن دل خوبصورت اور آئینے جیسا شفاف، اور اگر کسی میں دونوں خوبیاں ہیں تو اس میں اس برابر کوئی اور خامی لازماً موجود ہوتی ہےـ
مقصد کوئی انسان کامل نہیں ہوتا، انسان کی تخلیق ضعف و کمزوری کے ساتھ کی گئی ہے، اگر سامنے کوئی اچھائی نظر آ رہی ہے تو مخفی طور پر وہ ہزاروں برائیوں کا پیکر ہے، اگر سامنے کوئی برائی نظر آ رہی ہے، تو اس میں ہزاروں مخفی اچھائیاں بھی ہوتی ہےـ
ہر انسان سفر خود آگہی سے اپنا محاسبہ کرنے کی بھرپور قدرت رکھتا ہے، اور یہی بشری قوت انسان کو قدرت کی جانب سے عطا کردہ ایک نایاب تحفہ ہے، بری خصلتیں اپنا کر ایک انسان بدی کا پیکر اور شیطان کا آلہ کار بن جاتا ہے، ایسے میں بری صحبت کا بھی کردار ہوتا ہے، جہاں سے وہ منفی توانائی حاصل کرتاہے، لیکن وہ سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے اور مثبت شعور کا سفر کر کے ہی وہ اس راز کو پا لیتا ہے لیکن وقت گزر چکا ہوتا ہےـ
سفر خود آگہی کے ذریعے ایک انسان اپنا بہترین محاسبہ بھی کر سکتا ہے، وہ اپنی تمام تر منفی خصلتوں کو حاصل شدہ شعور کے ذریعے خیرباد کہہ کر تمام مثبت خصلتوں کو اپنا بھی سکتا ہے، اس منزل کی جانب بہت کم لیکن خوشبخت لوگ سفر کرتے ہیں، اور یہی وہ منزل مقصود ہے جو انسانیت کی معراج ہے، یہی وہ مقام ہے جو بشر کو ملائک سے افضل کر دیتا ہےـ
فرشتہ مجھ کو کہنے سے میری توہین ہوتی ہے
میں مسجودِ ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو
تبصرہ لکھیے