یاسر اشرافِ عرب کی صباحی مجلس میں اپنے نظرانداز کیئے جانے پر دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہے تھے اور اس لمحے کے منتظر تھے،جب یہ لوگ یاسر کی طرف متوجہ ہوں اور اسے شامل گفتگو کریں ۔یاسر بدلہ لینے کے لیئے ذو معنیین جملے اور باتیں سوچ رہے تھے،اور خواب سنانے سے پہلے کچھ دلچسپ و عجیب باتیں ذہن میں مستحضر کر ہی رہے تھے کہ۔۔۔ مکہ ہی نہیں عرب کے سب سے بڑے جاہل اور جہالت کے شجر بے ثمر ۔۔...
عمرو بن ہشام نے اپنی گرجدار آواز اور شعلہ بار نظروں سے اور زہر بھرے لہجے میں یاسر کو ان کی سوچوں سے باہر نکالا اور گرجا۔۔
"ہاں یاسر۔۔یہ تو بتاؤ آج اتنی تآخیر سے کیوں آئے۔"
یاسر کو اس لمحے کا ہی انتظار تھا،مگر انہیں نہیں معلوم تھا کہ اس جملے اور سوال میں ایک طوفان پوشیدہ ہے۔ یاسر نے دل لگی کے انداز میں جواب دیا۔۔۔
"فقد کنتُ فی حاجۃ الی اِنًیً یا ابا الحکم" ابوالحکم۔۔۔کوئی تو کام اور وجہ ہوگی میرے تأخیر سے آنے کی۔۔!
(جہالت کا بڑا نشان اور جاہلوں کا بڑا سردار۔۔ابو جہل۔۔جو خود کو خود کو ابو الحکم ۔۔یعنی حکمت و دانش کا مینار ۔۔کہلاتا
یہ وہی شخص ہے جس کی ھدایت کے لیئے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی گئی تھی،مگر اس کے نصیب میں نہ تھی ، ھدایت، سلامتی اور مغفرت ،اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت،صحبت اور شفاعت۔ اسی لیئے یہ بدر کے میدان میں دو مجاہد بچوں معوّذ اور معاذ کے ہاتھوں یوں مارا گیا کہ اپنے تکبر،نخوت اور جہالت کا عبرتناک نشان بن گیا)
اس کی جہالت آمیز حماقتوں اور اسلام دشمنی کی تمام حدوں کو عبور کرنے کی پاداش میں سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں اسے "ابو جہل "کا خطاب دیا،اور یہی اس کی پہچان بن گیا۔ اس نے اُس روز غصے میں بل کھاتے ہوئے یاسر سے پوچھا۔۔
"آج مجھے بھی تمہاری ضرورت تھی ،تاکہ وہ بات جان سکوں جو تم نے ہم سے اب تک چھپا رکھی ہے۔۔"
وہ کیا۔؟۔۔یاسر نے پوچھا۔
ابو جہل گویا ہوا۔۔۔"یہ بتاؤ ۔۔تم ہمارے معبودوں کو نہ مانتے ہو،نہ ان کی عبادت کرتے ہو،نہ ان کے سامنے دعا و مناجات کرتے ہو،نہ چڑھاوے ،نذرانے چڑھاتے ہو،اور کبھی تم سے ان کے بارے میں کوئی کلمۂ خیر و احترام بھی نہیں سُنا گیا ۔۔۔"
یاسر کچھ مسکرائے اور بولے ۔
"تو کبھی تم نے یا کسی نے ان کی برائی کرتے یا ان کے ساتھ کچھ ناروا اور توہین آمیز سلوک بھی تو نہیں دیکھا یا سنا مجھ سے!"
ابوجہل پُھنکارا۔۔
"اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ صرف ہمارے ہی معبود ہیں،تمہارا تو نہ ان سے کوئی تعلق ہے ،نہ لینا دینا۔۔"
یاسر کہنے لگے۔۔"کیا مطلب ہے تمہارا،اس بات سے۔۔؟ "
ابو جھل کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ،اور وہ غصے میں بے قابو ہوکر بولا۔۔
"اب وقت آگیا ہے کہ مکہ کا ہر باسی یہ فیصلہ کرلے اور واضح کردے کہ اسے کس کا ساتھ دینا ہے۔۔ہمارا یا نئے دین کے داعی اور وحدتِ الہ کے علمبردار ۔۔محمد۔۔ کا۔۔؟
(صلی اللہ علیہ وسلم)
مجھے پتا ہونا چاہئے کہ
"مَن ھو معنا و مَن علَینا۔"
کون ہمارے ساتھ ہے اور کون ہمارے خلاف ۔۔یعنی ہمارا دشمن ہے۔۔ہم نے اپنے حلیفوں کو بہت ڈھیل اور رعایت دے رکھی تھی،اور ان کی حرکتوں کو نظرانداز بھی کر رکھا تھا۔مگر اب ہر کسی کو اپنے اندر کو کھولنا اور وضاحت و صراحت کے ساتھ اپنا مقام اور کردار متعین کرنا پڑے گا۔ہم۔اب انہیں مذید ڈھیل اور رعایت دینے کے لیئے ہرگز تیار نہیں۔"
یاسر نے گھبرائے بغیر ،مگر قدرے سخت لہجے میں ترکی بہ ترکی جواب دیا۔۔
"امسِک علیک یا ابا الحکم۔۔۔
ابو الحکم ۔۔خود پر، اپنی زبان ،لہجے اور غصے پر قابو رکھو۔۔
کیا تم نے یا کسی قریشی نے یا مکہ والوں نے کبھی یہ دیکھا کہ میں نے جب سے تمہارے بزرگ سردار ابوحذیفہ کے ساتھ حلیف کا رشتہ باندھا تو میں نے اس کی معمولی سی بھی خلاف ورزی کی ہو۔۔میں نے دوستی بھی نبھائی اور دشمنی بھی۔اپنوں کے لیئے ہمیشہ سلامتی اور پرایوں کے لیئے بربادی و تباہی کی علامت ہی بنا رہا۔۔
وانی لاسمع الآن منک حدیثاً لم اسمع مثلہ منذ أویتُ الی حرَمِکم ھذا۔۔۔۔
آج تم سے یہ عجیب باتیں،سوالات ،اعتراضات اور طنز و طعنے سننے کو مل رہے ہیں،جو پچاس سالوں میں جب سے میں یہاں تمہارے اس حرم میں مقیم۔ہوا ہوں،کبھی نہیں ملے اور نہ میں نے سُنے ۔"
خود ساختہ ۔۔ابو الحکم۔۔ یعنی۔۔ ابوجہل ۔۔نے زور کا قہقہہ لگایا ،جس میں شگفتگی اور ٹھنڈک کی بجائے غیظ و غضب کی شدت نمایاں تھی اور بولا۔۔
تو پھر تو تم معاہدے کے مطابق آج سے اپنے بیٹے عمار کے بھی دشمن ہوئے نا، کیونکہ وہ اب ہمارا دشمن بن چکا ہے۔۔؟
"فانتَ حَربُّ علی ابنک عمار اذن منذ الیوم؟"
یاسر کے چہرے پر تشویش کی پرچھائیاں اور ماتھے پر تیوریاں اور دل میں وسوسے اور آنکھوں میں استعجاب و استفسار کے عکس دکھائی دینے لگے۔۔انہوں نےکچھ نہ سمجھتے ہوئے ابو جہل سے کُھل کر بات کرنے اور معاملہ واضح کرنے اور طعنے کا مقصد بتانے کو کہا۔۔
ابو جہل ۔۔ اس سے بھی سخت لہجے اور گرجدار آواز میں بولا۔۔
"اچھا تو تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے بیٹے عمار نے کیا گُل کھلایا ہے؟
تو سنو۔۔کل شام وہ "بے دین" ہوگیا ہے۔۔
الم تعلم ان ابنک قد صبا أمس۔۔و آمنَ لمحمد۔۔صلوات اللہ و سلامہ علیہ۔۔۔و أصحابہ۔۔"
وہ تو کل شام کو محمد ص کی دعوت اور دین پر ایمان لاچکا ہے اور ان کے ساتھیوں میں شامل ہوگیا ہے۔۔
ھُنالک صَعِق یاسر،فانعقد لسانہ واصفَرّ وجھہ،وجعل جبینُہ یتفصّد عَرَقاً۔۔
یہ سنتے ہی یاسر بے ہوکر گر پڑے،ان کی زبان بند ہوگئی،ان کا چہرہ پیلا پڑگیا اور ان کی پیشانی سے پسینے پھوٹنے لگے۔
یاسر کی یہ حالت دیکھ کر مجلس میں موجود اشرافِ عرب بالخصوص بنو مخزوم کے سردار حیرت،اور تعجب سے سوالیہ انداز میں یاسر کو گھورنے لگے۔۔بات تو ان پر واضح ہوچکی تھی، بس یاسر کا اس معاملے پر اظہار خیال اور ردّ عمل باقی تھا۔۔تائید یا تردید۔۔اور مستقبل میں اپنے گھرانے کا لائحہ عمل، کہ بنو مخزوم کا حلیف ہوتے ہوئے انہیں کس کا ساتھ دینا ہے!
عمرو بن ہشام ۔۔۔ابو جہل۔۔۔ابھی کچھ مذید بم پھوڑنا چاہتا تھا کہ مجلس میں موجود ولید بن مغیرہ کہنے لگا۔بھتیجے۔۔بابا جی پر کچھ رحم کھاؤ اور ذرا ہاتھ ہلکا رکھو،اور زبان بھی نرم کرو ۔دیکھتے نہیں اس کی کیا حالت ہو رہی ہے !
اس نے مذید کہا ۔
اس بیچارے پر بیٹے کے جرائم اور گناہوں کا بوجھ کیوں لادتے ہو۔۔!
فقد جاوَز ابنہ سِنّ الأربعین۔۔
اس کا بیٹا چالیس سال کی عمر سے آگے نکل چکا ہے ۔
(عرب کے مروّجہ دستو ر کے مطابق ماں ،باپ کسی شخص کے معاملات کے اُس وقت تک ذمے دار قرار دیئے جاتے تھے،جب تک وہ چالیس سال کی عمر کو نہ پہنچ جاتا۔اس کے بعد وہ اپنے معاملات کے خود ذمے دار ہوتے ۔)
مجلس میں موجود سردارانِ قریش کا یہی خیال تھا کہ یاسر کو اس کے بیٹے عمّار کے معاملات کا ذمے دار قراردینا،اس سے جواب طلبی اور لعن طعن مناسب نہیں۔اسی لیئے بنو مخزوم کے سب ہی سرداروں نے عمرو بن ہشام کو یہی کہا کہ وہ ہمارے حلیف یاسر کے ساتھ یہ سلوک نہ کرے ۔
اتنی دیر میں یاسر کو بھی ہوش آچکا تھا،اور اس کا دماغ بھی کام کرنے لگ گیا تھا،اس نے سرداران و اشرافِ عرب کی باتیں بھی سن لی تھیں۔
وہ کہنے لگے ۔۔
تم نے اپنے حلیف کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔۔اے ابوالحکم۔۔میرے ساتھ اس سختی اور لہجے اور طعن و ملامت کی کوئی وجہ تھی،نہ جواز۔تمہیں جہاں یہ سختی کرنی چاہیئے تھی،وہاں تو تم نے کی نہیں اور مجھ عمر رسیدہ اور پردیسی بے گناہ پر اپناسارا غصہ نکال لیا،اور نزلہ گرا ڈالا۔۔
واللہ میں نے کل سے نہ تو عمار کو دیکھا،نہ ملا،نہ ہی مجھے خبر ہے کہ وہ کہاں گیا اور اس نے کیا کیا ۔
تمہیں کسی بات کی اتنی ہی تکلیف ہو رہی ہے،اور غیرت کھا رہی ہے، تو اپنے ہم پلّہ عرب سردار "ارقم بن ابی الارقم "کا محاکمہ کرتے ،اس کے گھر میں جمع ہونے والوں اور ان کی سرگرمیوں کا جواب طلب کرتے۔۔وہاں تو تمہارا زور چلا نہیں ،اس خفّت اور بے بسی کا غصہ مجھ پر نکال دیا،اور وہ بھی اس قدر شدت کے ساتھ۔۔!!
(دراصل مکہ کی ایک گلی میں ایک بڑے قریشی سردار..ارقم بن ابی الارقم نے اپنے گھر کا ایک حصہ ابتدائی دور کے اہل ایمان کی سرگرمیوں کے لیئے مخصوص کر دیا تھا۔نبوت و رسالت کے مشن کا آغاز ہو چکا تھا،مگر کھلے عام نہیں،چھپ چُھپا کر اور ڈر تے ڈرتے،چُپکے چُپکے ۔روزانہ اِکا دُکا شخص بچ بچا کر وہاں پہنچتا،سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور پیغامِ حق سنتا،اور مستقبل کے ہر قسم کے اندیشوں اور خطروں سے بے پرواہ ہوکر ایمان قبول کرلیتا۔ ایسے ہی کسی روز،بلکہ۔ابو جہل کے بھڑکنے والے اس دن سے ایک روز قبل ہی یاسر کے بیٹے ۔۔عمّار۔۔ حلقہ بگوشِ اسلام ہوچکے تھے، انہوں نے اس راز میں صرف اپنی والدہ سمیّہ کو ہی شریک کیا تھا،جنہوں نے گذشتہ روز ہی بیٹے عمار کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا تھا۔ جب یاسر صبح کو اپنا خواب سنا رہے تھے،تو سمیہ کچھ سوچ کر اسی لیئے مطمئن ہوگئیں کہ وہ اس راز سے واقف اور اسے راز رکھنے پر مجبور تھیں ۔)
یاسر نے کہا: اگر آج ابو حذیفہ زندہ اور یہاں موجود ہوتے، تو میں دیکھتا،وہ تمہیں ایک بے گناہ حلیف کے ساتھ اس سلوک کی کیسے اجازت دیتے؟
اور میں بھی اس تعلق پر سوچنے پر مجبور ہوتا،اور آج کی اس خوفناک و شرمناک ملاقات کا کچھ جواب دینے کی کوشش کرتا۔
یہ کہتے ہوئے یاسر بوجھل دل اور غم کے غلبے اور اندیشوں،وسوسںوں کے ہجوم کے ساتھ اٹھے اور اشراف عرب کی معذرت و حمایت یا ملامت وصول کرنے یا ابو جہل کی مذید سختی کا سامنا کرنے کی بجائے محفل سے نکل گئے۔ بلاشبہ آج ان کی شخصیت کو بہت بڑا دھچکا لگا تھا،وہ رات کے خواب اور صبح کے اس لفظی عذاب سے ٹوٹ اور بکھر چکے تھے۔ان کا رخ اپنے ہی گھر کی جانب تھا،جہاں کا بدلا ماحول ،بدلے انسان اور بدلا دین و ایمان یاسر کو بدلنے کا منتظر تھا۔
ابھی سورج نصف النہار تک نہیں پہنچا تھا،کہ یاسر کو اپنے خواب کی نصف تعبیر تو مل گئی۔ باقی نصف تعبیر بھی سورج ڈھلنے تک سامنے مجسم بن کر آگئی۔ اس دن کی شام بہت خونیں اور رات بڑی تلخ تھی ،مگر اگلی صبح بے پناہ اور ابدی مسرت و راحت اور سعادت کے ساتھ فوز و فلاح کی روشن و لافانی صبح بن کر طلوع ہوئی۔
( نابینا مصری ادیب،دانشور،نقاد اور ناول نگار اور دوہری پی ایچ ڈی کے حامل بیسیوں متنوع کتب کے مصنف ڈاکٹر طٰٰہ حسین کے عربی ناول "الوعد الحق" سے مأخوذ)
(جاری ہے)
تبصرہ لکھیے