ہوم << قومیں کیسے ترقی کرتی ہیں ؟ روبینہ یاسمین

قومیں کیسے ترقی کرتی ہیں ؟ روبینہ یاسمین

عامر ہاشم خاکوانی صاحب نے اپنے کالم میں ایک ایسی قوم کی لگاتار محنت کا اعتراف کیا ہے جسے بڑوں نے ہلکا لے لیا تھا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اس قوم کے دوسروں سے مرعوب نہ ہونے کی وجہ اپنے وسائل ، اپنی زبان اور اپنے لوگوں سے تعاون کرنا ہے۔ دوسرے کیا کر رہے ہیں، ان کو اس سے مطلب نہیں، یہ اپنے کام میں مگن رہتے ہیں۔

اکیس سال سے اپنی رہائش کی پارکنگ لاٹ عبور کرتے ہی ایک چائنیز گراسری سٹور میں تقریبآ روز کا آ نا جانا ہے۔ اتنے سالوں میں کوئی دیسی سٹور ہوتا تو ہم ایک دوسرے سے اتنے مانوس ہوتے کہ گھروں میں بھی انوائٹ کر چکے ہوتے۔ لیکن اس گراسری سٹور میں وہی کیشئر جسے میں سالوں سے جانتی ہوں، ہر بار ایسے ہی ڈیل کرتی ہے جیسے پہلی بار ہی ملی ہو۔ چیزیں نہ مل رہی ہوں تو خود ہی ڈھونڈ ڈھونڈ کے نکالنی پڑتی ہیں۔ سٹاف سے پوچھو تو وہ اشارہ کر کے چلا جاتا ہے کہ زبان نہیں آ تی۔ ان کا پورا سٹاف انگریزی اتنی ہی جانتا ہے جتنی کراچی کے پلے بڑھے بچے پنجابی بچے پنجابی جانتے ہیں، سمجھ لیتے ہیں لیکن اعتماد سے بول نہیں پاتے. یہ لوگ چاہتے تو انگریزی بولنے سمجھنے والا سٹاف رکھ سکتے تھے، ان کے سٹور کی سیل بہت زیادہ ہے۔ لیکن یہ ان کا آ پس میں تعاون ہے کہ یہ ایک دوسرے کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ انگریزی بولنے والوں کو تو کہیں بھی جاب مل جائے گی ۔ چینی بولنے والے کو اس کا ہم زبان ہی جاب دے سکتا ہے۔ جب ایک قوم آ پس میں ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کر لے تو ان کی ترقی کوئی نہیں روک سکتا۔

مینڈکوں کی یہ حکایت تو ہم سوشل میڈیا پر بارہا پڑھ چکے ہیں۔ پہلی بار کس نے عربی سے ترجمہ کی معلوم نہیں ۔ بہرحال کریڈٹ اسی کا ہے۔ حکایت کچھ یوں ہے:

مینڈکوں کا ایک گروہ کہیں جا رہا تھا کہ اچانک ان میں سے دو بے دھیانی میں ایک گڑھے میں جا گرے۔ باہر ٹھہرے مینڈکوں نے دیکھا کہ گڑھا ان دو مینڈکوں کی استطاعت سے زیادہ گہرا ہے تو انہوں نے اوپر سے کہنا شروع کر دیا۔ ھائے افسوس، تم اس سے باہر نہ نکل پاؤ گے، کوششیں کر کے ہلکان مت ہونا، ہار مان لو اور یہیں اپنی موت کا انتظار کرو۔ ایک مینڈک کا یہ سب کچھ سن کر دل ہی ڈوب گیا، اس نے ٹوٹے دل کے ساتھ چند کوششیں تو کیں مگر اس جان لیوا صدمے کا اثر برداشت نہ کر پایا اور واقعی مر گیا۔ دوسرے کی کوششوں میں شدت تھی اور وہ جگہ بدل بدل کر، جمپ لگاتے ہوئے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اوپر والے مینڈک پورے زور و شور سے سیٹیاں بجا کر، آوازے کستے ہوئے، اسے منع کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ مت ہلکان ہو، موت تیرا مقدر بن چکی ہے۔ لیکن مینڈک نے اور زیادہ شدت سے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور واقعی میں باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

سارے مینڈک اس کے گرد جمع ہو گئے اور پوچھنا شروع کیا کہ وہ کیسے باہر نکلا تو سب کو یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ یہ والا مینڈک تو کانوں سے محروم اور بہرا تھا۔ مینڈک سارا وقت یہی سمجھ کر باہر نکلنے کیلیئے اپنا سارا زور لگاتا رہا تھا کہ باہر کھڑے ہوئے سارے مینڈک اس کے خیر خواہ اور دوست ہیں، جو اس کی ہمت بندھوا رہے ہیں اور جوش دلا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ سارے اس کی ہمت توڑنے اور باہر نکلنے کے عزم کو ختم کرنے میں لگے ہوئے تھے۔

تو بس چینی قوم بھی مرعوب اس لیے نہیں ہوتی ، شکوک کا شکار اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ دوسروں کا اثر قبول ہی نہیں کرتی۔ اپنے کاموں میں مگن رہتی ہے۔