ہوم << داراشکوہ ہیرو، اورنگزیب ولن، پاکستان میں ایسا کیوں؟ اطہر وقار

داراشکوہ ہیرو، اورنگزیب ولن، پاکستان میں ایسا کیوں؟ اطہر وقار

سرمد کاشانی، ایک آرمینین یہودی گھرانے میں پیدا ہوا، کہا جاتا ہے کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا، اگرچہ وہ سناتن دھرم کے فلسفے سے متاثر تھا اور اس باب میں فارس کے فلاسفرز اور سرئیت پر مبنی روایت سے متاثر تھا. اس نے سندھ کے شہر ٹھٹھہ میں قیام کیا، وہاں ایک ہندو لڑکے کی محبت میں مبتلا ہونے پر نکالا گیا، اس کے بعد وہ دہلی میں آ گیا اور داراشکوہ کا روحانی پیشوا بن گیا. داراشکوہ نے سرمد کاشانی کی معیت میں اکبر کے دین الہی جو کہ سناتن دھرم کی ایک فارم تھی، کو بحال کیا اور حنفیت کے ساتھ اسے پریکٹس کرنے لگا جو کہ ایک تھیالوجیکل تناقضات کا مجموعہ تھا.

سرمد کاشانی ننگ دھڑنگ سکر جیسی حالت میں پڑا رہتا تھا اور کسی مذہبی فارم سے خود کو جوڑتا نہیں تھا. داراشکوہ سرمد کاشانی کی صحبت میں دین الہی کی طرف مائل ہوا جس کی وجہ سے بہت سے لادینی عقائد اور نظریات کی آماجگاہ بن گیا کیونکہ سیاسی طاقت بھی داراشکوہ کے پاس تھی. سرمد نے داراشکوہ کی جانشینی کی پیشن گوئی بھی کر رکھی تھی جو کہ اورنگزیب کی حکمرانی کی وجہ سے غلط ثابت ہوئی. اورنگزیب عالمگیر نے اقتدار کے حصول کے بعد اسے گرفتار کر لیا اور اس بابت اپنے گرینڈ مفتی سے مشورہ لیا. خاص طور پر مفتی قوی نے سرمد کو توبہ کرنے کی طرف بلایا اور اس کے عقائد کی خامیاں واضح کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے.

اس سیاق و سباق میں اہم بات یہ ہے کہ سرمد کاشانی کو اجوکا تھیٹر کے ڈرامے دارا میں ایک فقیر اور مثبت صوفیانہ کردار میں دکھایا گیا ہے جو اورنگزیب عالمگیر کے روایتی مذہبی زعماء کو پبلکی شیطان کبیر کے طور پر پکار رہا ہے. یہ ڈرامہ اگر ہندوستان میں پبلک میں پیش کیا جاتا تو سمجھ بھی آتا ہے لیکن اس قسم کے ڈرامے پاکستانی تھیٹر میں ماضی میں پیش کیے جاتے رہے ہیں جو کہ المیہ ہے. اجوکا تھیٹر کے شاہد ندیم نے ٢٠١٠ میں ایک ڈرامہ ''دارا'' بنایا، اس میں داراشکوہ کو علم دوست، لبرل، عوام میں مقبول، اور مثبت مفہوم میں سیکولر شہزادہ کے طور پر پیش کیا گیا جبکہ اورنگزیب کو رجعت پسندی اور پسماندگی کا عنوان دیا گیا. اس میں اورنگزیب کی مذہبی انتظامیہ کے بارے میں دکھایا گیا کہ انہوں نے اورنگزیب کو ہائی اخلاقی گراونڈ عطا کرنے کے لیے داراشکوہ کو اسلام مخالف کے طور پر پیش کیا. گویا مستند تاریخی کتب میں جو نقشہ دارہ شکوہ کا کھینچا گیا ہے اسے محض سیاسی مخاصمت آرائی کا شاخسانہ قرار دیا گیا. اس ڈرامے کو لاہور کے لبرل طبقات نے حسب معمول ہضم کیا کیونکہ سیکولر نظام تعلیم و ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے، ان کے لیے فطری سہولت پسندانہ ٹروتھ یہی تھا کہ وہ داراشکوہ کو ولن سے ہیرو بنائیں اور اورنگزیب کو ولن مانیں.

یاد رہے کہ ہمارے مذہب پسند طبقات بھی اس معاملے پر کوئی ردعمل نہ دے سکے، البتہ گاہے بگاہے کچھ تحقیقی مقالہ جات ایسے لکھے گئے جس میں شاہد ندیم صاحب کی طرف سے تاریخی حقائق مسخ کرنے پر احتجاج کیا گیا. لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ اورنگزیب عالمگیر کو ولن بنانے کا عمل کئی عشروں سے ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں انتہائی مکروہ انداز سے جاری ہے، اور اس علمی بددیانتی پر اب کوئی احتجاج بھی نہیں کرتا. شاید سرسید احمد خان جو تعلیمی ماڈل قائم کر گئے تھے اس میں اس قسم کے احتجاج کی کوئی گنجائش نہیں بچتی ہے. تصور کیجیے کہ کیا ہندوستان کے سیکولررائز فیز یا اسی کی دہائی میں بھی ممکن تھا کہ اورنگزیب عالمگیر کو مثبت انداز سے پبلک سپیس میں پیش کیا جا سکے؟؟

لیکن یہ جہالت پاکستان میں ممکن ہے کہ مین سٹریم پر داراشکوہ کو ہیرو بنا کر پیش کیا جائے، تاریخی حقائق مسخ کیے جائیں اور سارے واہ واہ بھی کریں... نتیجتاً کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی ہندوتو قوتیں، ہندوستانی لبرل و کیمونسٹ طبقات اور پاکستانی لبرلز اورنگزیب کی مذمت کرنے اور داراشکوہ کی تحسین کرنے کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں. لیکن ٹروکشی اور دیگر مغربی محققین نے اس یکطرفہ پروپیگنڈہ کا محاسبہ کیا ہے، حالانکہ یہ کام پاکستانی سکالرز کو کرنا چاہیے تھا.

یاد رہے کہ سرمد کاشانی سے مولانا ابو الکلام آزاد بھی متاثر تھے، وہ اسے حریت فکر کا نمائندہ سمجھتے تھے، بلکہ وہ خود کو ہندوستان کا سرمد بھی حریت فکر کے تناظر میں سمجھتے تھے. شاید اس مرعوبیت نے آزاد کے لیے تصور حق یعنی ٹروٹھ کو سناتن دھرم جیسی کیفیت میں مبتلا کرنا آسان کر دیا ہو. گاندھی نے بھی آزاد کے اسی پہلو کی بہت تعریف کی تھی کیونکہ آزاد، حق کو کسی ایک مذہب یا دین تک محدود نہیں کرتے تھے. بہرحال دین الہی کا جو تصور اکبری دور حکومت میں سامنے آیا، وہ کسی نہ کسی طریقے سے آج تک مختلف فارمز کے ذریعے سے ہندوستان اور پاکستان کے لبرل طبقات میں گھاس میں پھیلے پانی کی طرح غیر مرئی وجود رکھتا ہے. بلکہ اردو بولنے سمجھنے والے لبرل طبقات میں زیادہ توانا ہے.

Comments

Click here to post a comment