ہوم << و للحریۃ الحمراء باب - قدسیہ جبین

و للحریۃ الحمراء باب - قدسیہ جبین

" ما خفی اعظم" کے ریلیز ہونے کے بعد اس کا ایک چھوٹا سا کلپ سب سے مقبول ہوا جس میں اس صدی کا قدسی الاصل ہیرو سر اٹھائے کشاں کشاں چلتا اپنی جائے شہادت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ملبے پر چلتے چلتے وہ ہلکا سا توقف کرتا ہے۔ سر اٹھا کر امیر الشعراء احمد شوقی کے معروف قصیدے "نكبة دمشق" کا ایک شعر پڑھتا ہے۔ اور اپنی دلربا مسکراہٹ لیے پھر چل پڑتا ہے۔ اس شعر نے سوشل میڈیا پر آگ لگا رکھی ہے۔

کلپ جونہی وائرل ہوا ۔اسے مختلف اقوام کے سمجھنے والوں نے اپنی اپنی زبانوں کے سب ٹائٹل کے ساتھ پھیلانا شروع کر دیا۔ اردو میں بھی شعر کا ترجمہ وائرل ہو رہا ہے۔ جسے دیکھ کر پیچ و تاب کھاتے دماغ اور دل کو بار بار چپ کا قفل لگانے کی سعی کی ، اسلیے کہ شعر و بیان اور پھر عربی زبان کے شعر و ادب پر بات کرنے کا خود کو ذرہ برابر بھی اہل نہیں سمجھتے۔ مگر اس کیفیت سے مجبور ہو کر ایک گروپ میں لب کھول ہی بیٹھے۔ جس پر ہماری ڈنڈا بردار سہیلی نے ایک بار پھر اکسایا کہ ذرا لکھ کر دو تو مزید لوگوں کو بتایا جا سکے۔ سو اس پوسٹ کو صرف ایک مضطرب طالب علم کی ادنی سی کوشش ہی سمجھا جائے۔

جس قصیدے کا یہ شعر ہے وہ فرانس کے شام پر استعماری ظلم اور اس کے رد عمل میں ابھرنے والے انقلاب کو کچلنے کے نتیجے میں فرانس کی جانب سے دمشق کی تباہی کے تناظر میں کہا گیا ہے۔ جب فرانس کے خلاف اٹھنے والی تحریک کو کچلنے کے لیے فرانس نے دمشق کو کھنڈر بنا دیا تھا۔
دم الثوار تعرفه دمشق
و تعلم أنه نور و حق
و للحرية الحمراء باب
بكل يد مضرجة يدق

شہید حریت کے لبوں سے نکل کر یہ شعر ہی امر نہیں ہوا۔ وہ مقام جہاں کھڑے ہو کر شعر کہا گیا ، وہ ملبہ جس پر کھڑے ہو کر کہا گیا ، وہ گھر جس میں داخلے کے وقت کہا گیا۔ ، وہ پس منظر کی تباہی جو کیمرے میں نظر ا رہی ہے اور اکتوبر کا وہ مہینہ جس میں طوفان شروع ہوا تھا اور پھر ٹھیک ایک سال بعد قائد نے اپنی جان کا نذرانہ رب کے حضور پیش کیا۔ ہر شے امر ہو گئی ہے۔ جنگ بندی ہوتے ہی غز ہ کی تباہی دیکھ کر جو سب سے بڑا اعتراض وارد ہوا تھا اور جس پر کالم اور لمبی لمبی پوسٹین لکھی گئیں بحث مباحثے شروع ہوئے۔ کلپ میں موجود منظر میں کھڑے ہو کر شہید کے لبوں سے نکلے اس ایک شعر نے اس سارے بیانیے ک توڑ کر دیا ہے۔

شعر کا ترجمہ یوں کیا گیا ہے : آزادی کا دروازہ سرخ ہے جس پر لہو میں ڈوبا ہاتھ دستک دیتا ہے ۔ یہ ترجمہ / ترجمانی شعر کے جوہر کو تو خراب کر ہی رہا ہے ۔ اس کے ساتھ تکنیکی اعتبار سے بھی درست نہیں۔ ترجمہ نگاری مجھے سب سے مشکل کام لگتا ہے اس لیے ہمیشہ اس سے کتراتی ہوں ۔ اسلیے صرف شعر کے درست مفہوم کو منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ شاعر نے آزادی جکو شفق رنگ کہا ہے دروازے کو سرخ نہیں کہا۔
گویا خون بہا کر حاصل کی جانی والی آزادی وہ منزل ہے وہ ٹھکانہ ہے جس میں داخلے کا ایک دروازہ یا راستہ ہے۔ اور جو بھی اس منزل کو پانا چاہتا ہے یا اس مقام تک پہنچنا چاہے گا اسے لازمی اس راستے سے گزرنا ہو گا۔ یا اس دروازے کو کھٹکھٹانا ہو گا۔ اور کھٹکھٹانے والا ہر ہاتھ لازمی لہو لہان ہو گا۔

اس عمل کے بغیر شفق رنگ آزادی کا تصور بھی ناممکن ہے ۔ اس لیے جو سمجھتے ہیں کہ اس منزل کو لہو لہان ہوئے بغیر حاصل کر لیں وہ ایک شفق رنگ منزل تک اس راستے کے ذریعے پہنچنا چاہتے ہیں جو اس کی طرف جاتا ہی نہیں۔ یہ تو بات ہوئی آزادی کی۔ ایمان کی کیفیت بھی یہی ہے۔ اور جان و مال کی آزمائش کے بغیر خدا نے کبھی ایمان لانے والوں کو نہ سربلند کیا ہے نہ ہی کرے گا۔ الٓمّٓ ، اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ . وَلَقَدْ فَتَنَّ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الكذبين. ( العنكبوت)

Comments

Click here to post a comment