ہوم << " سفر دَر سفر " - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

" سفر دَر سفر " - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

یہ میرے کسی سفر کا ذکر نہیں، کیونکہ مجھے سفر کرنا کچھ زیادہ پسند نہیں۔اگرچہ زندگی میں بے شمار سفر کیے۔۔ماں باپ کی گود میں اپنے ددھیال،ننھیال اور عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے،یا اباجی علیہ الرحمۃ کی انگلی تھامے جماعت اسلامی کے اجتماعات میں شرکت اور سید مودودی رح سے بالمشافہہ ملاقاتوں کے لیے، حصول علم کے لیے، اسلامی جمعیت طلبہ کے اجتماعات اور تربیت گاہوں کے بعد بطور ذمہ دار فرائض کی ادائیگی کے لیے ،تلاش روزگار کے لیے، ملازمتی امور اور خانگی ضرورتوں کے لیے ۔۔مگر کبھی دلچسپی سے،نہ خوشی سے۔۔
نہ اپنی خوشی آئے،نہ اپنی خوشی چلے
یہ ذکر ہوگا، سفر کو وسیلۂ ظفر بنانے والے اور سفر حیات کی روداد نشاط و الم،نشیب و فراز ،کامیابی و ناکامی کی پہلو در پہلو داستان حیات بیان کرنے والوں کے اسفار کا۔۔
مجھے خود سفر کرنا اپنی بے ہمتی اور تنہائی پسندی کے باعث زیادہ کیا،بالکل پسند نہیں۔اور اب سفر حیات کے اس آخری حصے کی قباحتوں اور ضرورتوں کے علاوہ متعدد عوارض کے ساتھ تو بالکل ہی پسند نہیں۔البتہ دوسروں کے سفرنامے اور سفر حیات کی رودادیں۔۔یعنی۔۔ سوانح حیات۔۔ پڑھنے کا جنون ہے ۔
۔سنجیدہ،فلسفیانہ موشگافیوں،تحقیق کے نام پر نئے نئے خیالات پیش کرنے اور بال کی کھال اتارنے والی علمی،ادبی اور تحقیقی کتب میں بھی میری دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔۔
پھر ایسی کتابیں جو حقیقت اور عمل کے تضاد کو ،یا فکری انتشار کو بڑھائیں،بھی مجھے پسند نہیں۔۔
یہ قطعاً میری ذاتی پسند ہے،کوئی عملی اصول حیات نہیں۔۔یقیناً میری جہالت اور کم علمی بلکہ کم ظرفی کا نشان قرار دی جاسکتی ہے،اہل علم و فکر تو یقیناً میری اس سوچ کو ہرگز پسند نہیں کریں گے۔
مجھے اس معاملے میں سید مودودی رح کے فلسفے سے بھی اتفاق ہے جو انہوں نے کسی سائل کے جواب میں بیان کیا،جس نے پوچھا کہ۔۔مولانا،آپ نے فلاں فلاں کتاب پڑھی،یا دیکھی۔۔تو مولانا رح نے فرمایا۔۔میں اہنے ذہن میں ہر الم غلم نہیں سجاتا۔۔۔الفاظ مختلف ہوں گے،مگر مفہوم یہی تھا کہ اپنے نقشۂ کار اور مقصد و ہدف کے لیے ضروری کتاب آپ کے مطالعے کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔۔
دیگر کتب پڑھنا منع نہیں،مگر ترجیحاً پہلے وہی کتب مطالعہ کی جائیں جو آپ کے مزاج اور ضرورت کے مطابق ہوں۔۔مثال کے طور پر آپ میڈیکل کے طالب علم ہوں اور کتابیں آپ جغرافیہ اور نفسیات اور طبائع حیوانات یا فیشن ڈیزائننگ کی پڑھتے رہیں۔ اس کا جواز ہے،نہ عقل و دانش کا کام۔
اتفاق سے مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رح کا یہ تائیدی نقطۂ نظر بھی میری معاون دلیل بن گیا
۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی کہتے ہیں: ” وہ کتابیں جن کا پڑھنا بڑا مجاہدہ ہے اور شدید ضرورت کے بغیر ان کے چند صفحات کا پڑھنا بھی میرے لیے دشوار ہے، وہ تین طرح کی چیزیں ہیں: ایک مناظرہ اور تردید کی کتابیں، دوسرے خشک فلسفیانہ مباحث یا وحدۃ الوجود وغیرہ اور فلسفۂ اخلاق کی متصوفانہ کتابیں، تیسرے قادیانی لٹریچر جو حسن انشا، حلاوت تحریر اور عمیق فکر سے یکسر خالی ہے۔ “
تمہید طویل ہوگئی۔۔بتانا یہ مقصود ہے کہ خود سفر کیجیے یا نہیں ۔البتہ سفر کرنے والوں کے سفری قصوں اور سفر حیات کی داستانوں کو ضرور پڑھیے۔۔دنیا کی کسی بھی زبان میں،ترجمہ شدہ یا براہ راست،کسی بھی نوعیت اور حیثیت اور طبقۂ فکر و عمل کی شخصیت کی داستان حیات۔۔اس لیے کہ کسی ایک سفر کی کہانی نہیں ہوتی،بلکہ۔۔ سفر در سفر۔۔کا مرقع اور مجموعہ ہوتی ہے۔
ہوا یوں کہ فیس بک پر مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ کی ایک سفری تحریر نظر سے گزری،جو "البلاغ " کے کسی شمارے میں شائع ہوئی ۔۔انہوں نے اپنے اسفار میں سے سفر لندن کا ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا ۔۔خلاصہ جس کا یہ ہے کہ ایک تو مفتی صاحب سفر میں لیپ ٹاپ پر اپنے علمی کام جاری رکھتے ہیں۔۔لندن کے ایک سفر میں اور اسی طرح کے دیگر اسفار میں انہوں نے قرآن کریم کے ترجمے اور تفسیر پر کام کیا ۔لندن ایئرپورٹ پر امیگریشن والے نے ان کے علمی کام سے آشنا ہوکر بے حد پذیرائی کی۔۔
یہ واقعہ طویل بھی ہے اور روح پرور بھی۔۔
میں مفتی صاحب دامت برکاتہم کے اسلوب تحریر اور سفرناموں کا مداح ہوں۔۔جو کئی مختلف اسفار کے احوال پر مبنی ہیں ۔
مجھے اندلس سے کسی حد تک عشق ہے۔۔جو عربی افسانہ نگاری کے بانی۔۔مصطفی لطفی المنفلوطی کے مجموعہ ۔۔العبرات۔۔میں موجود اندلس سے متعلق ایک دلدوز افسانے ۔۔الذکریٰ۔۔ کو بار بار پڑھنے اور ایم اے عربی کے سٹوڈنٹس کو پڑھانے کے نتیجے میں پروان چڑھا ،اور آتش عشق کو مفتی صاحب کے سفر اندلس کی روداد نےبڑھا دیا۔۔
مفتی صاحب کے ایک سفر نامے کا نام بھی ۔۔سفر در سفر ۔۔ہے،جو مجھے اپنے اس کالم۔کا عنوان بنانے کے بعد معلوم ہوا۔۔
یہ سفری داستان پڑھ کر جی چاہا کہ مفتی صاحب کے سارے سفرنامے حاصل کرلوں اور پڑھ ڈالوں۔۔
زمین کے سفر ہوں یا زندگی کے ،ہر عمر کے سفر،ہر فرد کے سفر، بالخصوص سفر زیست کے اپنے ہی رنگ ہیں ،اور شاید امور حیات کے کچھ چلن اور طور طریقے گرچہ یکساں ہوں،مگر اثرات و نتائج،محسوسات و تجربات یقیناً ہر کسی کے مختلف ہوتے ہیں۔۔اس کے سبق بھی اور ماحصل بھی۔
میرا تو جی چاہتا ہے کہ ان دو اصناف کے علاوہ کسی اور موضوع پر نہ لکھا جائے۔۔خاصا اختلافی اور باغیانہ سا خیال ہے،مگر ہے،اور اظہار پر کوئی قدغن بھی نہیں۔۔لیکن ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دیگر علوم و فنون پر لکھنا اور تحقیق و جستجو متروک ہو جائے۔۔
سفر بیتی اور حیات بیتی میں موضوعات کا تنوع اور ان کی عملی تطبیقات اس قدر زیادہ ہوتی ہیں کہ کئی موضوعات اور کتب کی کفایت کرتی ہیں ۔۔علم،ادب،تاریخ،جغرافیہ،معاشرت،معیشت،سیاست، اخلاقیات،مذہبی نظریات وتعامل ،روحانیت،وجدان،مطالعہ،مشاہدہ،مزاح،شعر،ادب اور مصنف یا قاری کی دلچسپی کا ہر سامان۔۔
ابوالکلام اور سید مودودی کو پڑھیے،تو علاوہ دیگر بلند پایہ علوم و معارف کے بہترین چائے بنانے کا منفرد طریقہ بھی جان لیجیے، مستنصر تاررڑ کے سفرنامے پڑھیے تو قدرت کے مناظر میں کھو جائیے، سیاست کے جغادریوں اور دین کے علمبرداروں کی جیل یاترائیں اور دیگر احوال پڑھیں تو تاریخ کے تہہ بہ تہہ دبیز پردے کھل جائیں، علم و ادب کی معرکہ آرائیوں کا ذکر چلے تو زبان و بیان کے لطف در لطف سرشار کردیں ۔بیوروکریٹس،فوجی،کھلاڑی،فنکار،استاد ۔۔کسی بھی درجے اور زمانے اور وقعت کا ہو،۔۔۔بے شماردلچسپیوں کے خزانے اپنی بیتی میں سمو کر مجھ جیسے بے وسیلہ اور کم ہمت اور سفر اور عمیق مطالعے سے الرجک کو گھر بیٹھے دنیا کے کتنے ہی زاویے اور زندگی کے رنگ دکھا دیتے ہیں ۔
سفرناموں کی دونوں اقسام کی رنگ برنگی،ہر سطح،معیار،اور مزاج کی ہزاروں کتابیں،دنیا کی ہر زبان میں موجود ہیں ۔ان سب میں ایک نہیں،ہزاروں جہان آباد ہیں۔ آج کل وی لاگرز کے تصویری اور دستاویزی سفرنامے بھی بہت مقبول اور معلومات افزاء ہیں۔۔حرمین کے سفرنامے تو روح اور ایمان کی تازگی کا اپنا ہی کرشماتی اثر لیے ہوتے ہیں ۔ میں گرچہ خود سفر کرنے سے کتراتا ہوں،مگر محبت کرتا ہوں ایک مقصد ،مشن اور عظیم تر قومی و ملی مفاد کی خاطر ناقابل یقین حد تک مسلسل اور دور دراز کے ان تھک سفر کرنے والوں سے۔۔۔
بلامبالغہ ایسی تین شخصیات قابل ذکر ہیں۔۔ جناب سراج الحق ،جناب لیاقت بلوچ اور جناب ڈاکٹر فرید پراچہ۔۔ ان تینوں سے میری نظریاتی وابستگی ضرور ہے،مگر یہ دعویٰ ناقابل تردید ہے کہ یہ ملک کے طول و عرض میں ہمیشہ حالت سفر میں رہتے ہیں۔اگر یہ اپنے اسفار کی داستانیں لکھیں تو عجیب اور دلچسپ حقائق سامنے آئیں۔۔جناب فرید پراچہ نے تو۔۔ عمر رواں ۔۔ کے نام سے آپ بیتی اور ۔۔سفر شوق ۔کے نام سے حرمین اور غالباً امریکہ کا سفر نامہ بھی لکھ دیا ہے ۔
سفرحیات۔۔آپ بیتی یا سوانح حیات کی مثال ایک بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور کی ہے،جہاں سےخریدار کو بہت کچھ حسب طلب ملتا ہے۔ قدیم و جدید سفرنامے اور سوانح حیات کے کتابیں،وہ شو روم ہیں جہاں قدیم اور قیمتی سامان (antique )ملتا ہے ،اور وہ بھی سستے داموں ۔
تو پڑھیے۔۔۔
سفرنامہ،آپ بیتی،خود نوشت یا سوانح حیات ۔۔
کسی مبلغ،مفسر،مذہبی راہنما،مصلح اور پیشوا ادیب،شاعر،سیاح،عالم،معلم،کھلاڑی،فنکار،سیاستدان،
حکمران،۔۔یا کسی کی بھی۔اپنے مزاج اور ہسند کے مطابق،اور علوم و معارف کے خزانے لوٹ لیجیے۔

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم سابق چیئرمین تعلیمی بورڈ فیصل آباد ہیں۔ ڈائریکٹر کالجز، گورنمنٹ کالج سمن آباد کے ریٹائرڈ پرنسل اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق چیئرمین شعبہ عربی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے 30 سال کا تعلق ہے۔ بطور مقرر قومی پروگرام ۔۔حی علی الفلاح۔ سلسلہ "قر ان حکیم اور ہماری زندگی۔ نشری تقاریر پر مشتمل چھ کتب ''قول حسن، قول سدید، قول مبین، قول مجید، قول کریم اور قول حکیم شائع ہو چکی ہیں۔ دو کتب قول فصل اور قول کریم زیر ترتیب ہیں۔ ترکی جو میں نے دیکھا کے نام سے سفرنامہ شائع ہو چکا ہے۔ خود نوشت ''یادوں کا دریچہ'' زیرقلم ہے

Click here to post a comment