یہ اب سے کوئی دس پندرہ سال پرانی بات ہے۔ ایک چھبیس ستائیس سالہ انتہائ پرکشش خوبصورت چھریرے جسم اور اسٹیپ کٹ فیدر اسٹائل ہوانا براؤن شیڈ کے ڈائ شدہ لمبے بالوں میں کاپر اور بلانڈ ھائلائٹس والی کھلتی گندمی رنگت کی طرحدار ماڈل ٹائپ سندھی خاتون ہماری پڑوسن تھیں جن کو سجاول کے ایک بڑے وڈیرے نے کراچی میں ایک عمدہ لگژری فلیٹ کرائے پر دلوا کر رکھا ہوا تھا۔ خودوڈیرہ صاحب کی رہائش ڈیفنس میں تھی جہاں ان کی فیملی رہتی تھی۔ یہ خاتون ایک ملازم کے ساتھ تنہا رہتی تھیں۔ اکثر مسکارا ، لپ گلوس اور بلش آن لگائے، اپنی کیوٹکس لگے لمبے ناخنوں والی مخروطی انگلیوں میں بڑا سا گوچی یا پراڈا کا برانڈڈ پرس تھامے،بوٹیگا ونیتا ( Bottega Veneta )
کے بڑے بڑے سن گاگلز کو ماتھے سے اوپر سر پر چڑھائے جاڈور ( Jadore) کی خوشبو میں لپٹی ثنا سفیناز یا سیفائر کا آدھی پنڈلی تک کا کپریز اور اونچی سی کُرتی پہنے ھائی ھیلز میں کھٹ پٹ کرتی سیڑھیاں چڑھتی یا اُترتی نظر آتیں۔ فون ہمیشہ ان کے کان سے لگارہتا تھا۔ دیکھنے میں بڑی مغرور اور ( Attitude) والی لگتی تھیں بلکہ دوسرے محلے والوں کے ساتھ ان کا رویہ کچھ ایسا ہی تھا۔ گو کہ پڑوس وغیرہ میں کسی سے ملتی جلتی نہیں تھیں۔ ہم سے اچھی بول چال ہوگئی تھی۔ انہوں نے ایک دو ماہ ہم سے انگریزی بول چال کی ٹیوشن لینےکی کوشش بھی کی تھی۔ شکل و صورت اور لباس کی تراش خراش سے وہ بڑی ھائی فائی موڈ اسکواڈ لگتی تھیں لیکن زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھیں۔ ان کو بھی شوق تھا کہ وہ بھی بڑی پارٹیوں میں دوسری برگر خواتین کی طرح گِٹ پِٹ انگلش بولا کریں لیکن ہماری ہزار کوشش کے باوجود کامیاب نہ ہو پائیں۔ یا یہ کہہ لیجئے کہ ہم ان کے لئے ناکام ٹیچر ثابت ہوئے۔ البتہ ہماری وجہ سے ان کی اردو شاعری کی سمجھ بوجھ اور ذوق بہت اچھا ہوگیا۔
ان کے عاشق وڈیرے صاحب ہر مہینہ دو مہینہ میں کراچی کا چکر لگاتے تھے اور ان صاحبہ کے ساتھ ایک دو دن گزار کر جاتے تھے۔ ان وڈیرہ صاحب کی طرف سے ہر سیزن میں درجنوں کی تعداد میں یہ ذبح شدہ تلور بوری میں بھر کر ان خاتون کو بھی بطور خاص بھیجے جاتے تھے۔ ان کا ملازم ان ذبح شدہ تلوروں کو چکن فروش کے پاس لے جاتا اور ان کا گوشت بنوا کر لاتا تھا۔
جاتے دسمبر کی ایک رات نو بجے ان کا فون آیا۔ اپنے مخصوص مولا بخش چانڈیو والے سندھی لہجے میں سریلی آواز میں سرگوشی کے انداز میں اردو بولتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ ابھی اس وقت ہمارے گھر آسکتے ہیں؟ آپ کو ایک بہت اسپیشل گرما گرم چیز کھلانی ہے جو آپ نے پہلے کبھی نہیں چکھی ہوگی۔ اب ہم ان کو ٹیوشن پڑھانے تو جاتے ہی تھے اور ہمارے اپارٹمنٹ سے ملا ہوا ان کا اپارٹمنٹ تھا۔ سردیوں کی ٹھنڈی رات نو بجے اسپیشل گرما گرم چیز کے لالچ میں ہم ترنت پہنچ گئے۔ ان کا نوکر سوچکا تھا۔ لمبے سے سلیو لیس میکسی نما نائٹ ڈریس میں کندھوں پر دوپٹہ نما ھلکی سی شال اور سندھی اسٹائل کی گرگابی جس کو سپاٹو کہا جاتا ہے میں پیر پھنسائے یارڈلے پنک لیس
( yardley Pink lace )
کی خوشبو میں مہکتی، انہوں نے خاموشی سے اپنے پیچھے ہمیں چپکے سے ڈرائنگ روم میں آنے کا اشارہ کیا۔ ہم جب دھڑ دھڑ دھڑکتے دل کے ساتھ اندر گئے تو وہاں ڈائننگ ٹیبل پر سیدھے توے پر دیسی گھی کا ھاتھ لگا کر بنائی گئی مخصوص سندھی انداز کی روٹیاں اور خوب سارے مصالحے میں چکن کی بوٹیوں جیسا تلور کا سالن تھا۔ کہنے لگیں یہ تلور کا سالن ہے جو میں نے خود بنایا ہے۔ انتہائی سخت لمبے ریشے والا گوشت تھا جو ہم کو قطعی پسند نہیں آیا۔ کیونکہ ہم کو چھوٹے ریشے والا نرم گوشت پسند ہے۔ البتہ مصالحہ بہت مزیدار تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ رات اپن دو بجے تک پیا۔۔۔۔پیپسی! کیونکہ تلور کھانے کے بعد پیاس بہت لگتی۔
تلیر اور تلور کو پکانے میں پانی کا ایک قطرہ بھی شامل نہیں کیا جاتا۔ البتہ بعضے شوقین اس کو پکاتے وقت اس پر سویا ساس کی طرح وہسکی یا وودکا کا چھینٹا لگواتے ہیں۔
جبکہ تلور کو ہر مقامی زمیندار اور وڈیرہ اپنے ملازمین کے ذریعے اس کا شکار کروا کر سیاستدانوں، وزیروں، اعلی سرکاری افسران، بیوروکریٹس اور ہر اس اعلی عہدیدار کو بطور تحفہ بھیجتا ہے جس سے اس کو کوئی کام پڑ سکتا ہے یا جس کو خوش رکھنا اس کی ضرورت ہے۔خود بھی کھاتا ہے اور اپنے احباب کو بھی درجنوں کی تعداد میں بطور تحفہ بھیجتا ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ سرکاری افسران اور وزرا و اعلی عہدیدار یہ سوغات ملنے پر بطور خاص ذبح کروا کے اپنی محبوباؤں اور منظور نظر خواتین کو ضرور بھیجتے ہیں کہ اس کی کڑاھی بنوا کر رکھنا۔ بدقسمتی ہے اس پرندے کی کہ یہ بھی ہمارے یہاں جنسی قوت بڑھانے کے لئے مشہور ہے۔ دسمبر کی سردی میں عیاش طبع حضرات کسی فل فلوٹی کال گرلز یا محبوبہ یا دوسری منظور نظر کم عمر بیوی کے ساتھ اس کی کڑاھی یا روسٹ کے ساتھ شراب نوشی بھی کرتے ہیں۔
نشہ بڑھتا ہے جو شرابیں شرابوں میں ملیں
اندرون سندھ کے ایک وڈیرہ صاحب جانی واکر بلیک لیبل وہسکی کے بغیر تلور کو ھاتھ لگانا بھی حرام سمجھتے ہیں۔ بلکہ ان کا فرمان ہے کہ جس کو ولایتی وھسکی میسر نہیں اس کو تلور ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
بقول مشتاق یوسفی کہ انہوں نے کاک ٹیل پارٹی کے آداب سیکھنے کے لئے نواب زادہ غفران اللہ خان سے رجوع کیا جو کراچی کے ہر کلب کے ممبر تھے اور جن کے بغیر شہر کی کوئی کاک ٹیل پارٹی مکمل نہیں سمجھی جاتی تھی۔ نواب صاحب سے باتوں باتوں میں سیاہ چاولوں کا ذکر نکل آیا۔ نواب زادہ صاحب فرمانے لگے کہ سیاہ چاول تو مغرور گردن والی میلرڈ (مرغابی) اور گلابی رم کے ساتھ مزہ دیتے ہیں۔ دسمبر میں یاد دلانا۔ ان کا بھی بندوبست کردوں گا۔ اسکندر مرزا بڑے شوق سے کھاتا ہے۔
عرض کیا، حاجت روائی ہی مقصود ہے تو اب کی مہاوٹ حضور صرف مغرور گردن والی کا بندوبست فرمادیں۔ اور نسخہ کے بقیہ مقویات کسی اور حقدار کو پہنچا دیں۔
تلیر اور تلور دونوں مہمان پرندے ہیں۔ یہ روسی ریاستوں سے ہجرت کرکے آتے ہیں۔ تلیر کا سائز لالی یا شارق جتنا ہوتا ہے۔ نر کا رنگ زیادہ شوخ ہوتا ہے جبکہ مادہ کا رنگ ہلکا بھورا ہوتا ہے ۔کیونکہ یہ پرندہ ہجرت کرکے آتا ہے اس لئے سندھ کے کچھ متعصب حضرات قیام پاکستان کے وقت بھارت سے ہجرت کرکے کراچی بس جانے والے مہاجرین کو بھی بطور طنز تلیر کہتے ہیں۔ تلور یہ کھلی زمین اور گھاس کے میدانوں میں رہتے ہیں۔
تلور تلیر کے مقابلے میں ایک بڑا پرندہ ہے، تقریبا” مرغابی کے سائز کا ہوتا ہے۔ یہ زمین پر گھونسلا بناتے ہیں اور ہمہ خوروں کی قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنی مضبوط ٹانگوں اور بڑے پنجوں کی مدد سے یہ زمین پر آسانی سے چل سکتے ہیں۔ چلتے پھرتے یہ اپنی خوراک بھی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ مادہ سے ملاپ کے وقت ان میں سے بہت سارے نر پرندے عجیب و غریب ناچ دکھاتے ہیں جو دیکھنے میں بڑا خوبصورت اور دلچسپ نظارہ ہوتا ہے۔ یہ موسم سرما میں پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ دسمبر میں بہت بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔
جبکہ تلیر گرمیوں میں خاص طور پر جون کے مہینے کے بعد جنوبی پنجاب ، ڈیرہ غازی خان کے کھیتوں جھیلوں جوہڑوں کنارے، اندرون سندھ کی جھیلوں کنارے یہ ہزاروں کی تعداد میں عام نظر آتے ہیں ۔ موسم گرما یہاں گزار کر واپس چلے جاتے ہیں۔ ان کی ہجرت کا یہ سلسلہ نہ جانے کتنے ہزار سالوں سے جاری ہے۔یہ پرندے یہاں بریڈنگ کرتے ہیں اور پھر موسم گرما گزار کر اپنے بچوں کے ساتھ واپس روسی سائبیرین ریاستوں کی طرف پرواز کرجاتے ہیں۔ اگلے سال یہ اور ان کے بچے اپنے مقررہ روٹ پر دوبارہ پاکستان آتے ہیں۔یعنی یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے اور یہ اپنے والدین کے بتائے روٹ پر ہی ہر سال ہجرت کرتے ہیں۔ لیکن سوچئے کہ جب ان پرندوں کا ہزاروں کی تعداد میں شکار کیا جائے گا تو کتنے واپس جاپائیں گے اور کتنے اگلے سال دوبارہ واپس آئیں گے؟ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ پرندے ٹڈیاں بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ یعنی یہ ٹڈیوں کی آبادی کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ حالیہ چند برسوں سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں ٹڈی دل کا حملہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ہم ان پرندوں کا بے دریغ شکار کرکے کس آفت کو دعوت دے چکے ہیں جو آن کی آن میں ہزاروں لاکھوں ایکڑ پر موجود فصلوں کو تباہ برباد کردیتی ہے۔ عاقبت نا اندیشی کہ اب کچھ عرصہ سے اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب بلکہ جہاں جہاں بھی یہ نظر آتا ہے کھیتوں جنگلات جھیلوں پر اس پرندے کا بے دریغ شکار کیا جاتا ہے ۔
عرب شہزادے تلور کے شکار کے لئے بندوق استعمال نہیں کرتے بلکہ تلور پکڑنے کے لیے تربیت یافتہ عقابوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ عقاب کی آنکھوں پر غلاف چڑھا کر رکھا جاتا ہے تاکہ وہ وقت سے پہلے شکار پر نہ جھپٹے۔ شکار سے ایک دن پہلے ان عقابوں کو بھوکا رکھا جاتا ہے تاکہ پوری توانائی سے شکار پر جھپٹ سکیں۔ تلور نظر آتے ہی عقاب کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عقاب کے پاؤں میں ایک الیکٹرونک چھلا ہوتا ہے جس سے عقاب کی حرکات کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ عقاب تلور کی گردن پر حملہ آور ہوتا ہے۔ شکار کیے گئے تلور کے پروں کو مخفوظ کر لیا جاتا ہے تاکہ بعد میں شکار کے لیے عقابوں کی تربیت کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
عربی شہزادے ہر سال دسمبر میں تلور کے شکار کے لیے پاکستان آتے ہیں۔عربی شہزادوں کے لیے شکار گاہیں تیار کی جاتی ہیں۔ ہر سال چار کلو میٹر کے احاطے پر عارضی شہر تعمیر کیا جاتا ہے، اس عارضی شہر میں دو سو رہائشی مہمان خانے تیار کیے جاتے ہیں۔ عربی شہزادوں کی معاونت کے لیے ایک ہزار ملازم رکھے جاتے ہیں۔ یہ تمام ملازمین مقامی افراد ہوتے ہیں جن کو روزگار مل جاتا ہے۔ شہزادوں کے چلے جانے کے بعد بھی وہ ایک ہزار ملازم پورا سال تنخواہ سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ اس صحرا میں پانی کی ترسیل ٹینکروں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ صحرا میں مقیم شہر کو جنریٹر کے زریعے بجلی کی فراہمی بھی یقینی بنائی جاتی ہے۔ سکیورٹی کے سخت انتظامات کرتے ہوئے اس عارضی شہر کو خار دار تاروں سے سیل کیا جاتا ہے۔ ان تمام سہولیات کا انتظام میزبان حکومت کے تعاون سے کیا جاتا ہے۔عرب شہزادوں کے جانے کے بعد اس شہر کو مسمار کر دیا جاتا ہے۔ اور سامان کو گودام میں منتقل کر دیا جاتا ہے
جنوبی پنجاب میں اب یہ مہمان بہت کم تعداد میں آ تے ہیں شہزادوں کی خوشنودی کا سامان اب انکو خرید کر صحرا میں سجائے شہر میں چھوڑ کر کیا جاتا ہے۔ معزز مہمانوں کو صرف تلیر اور تلور ہی نہیں پیش کئے جاتے، کم سن بچیاں بھی دریا دلی سے خدمت گار رکھی جاتی ہیں۔ شنید تو یہ ہے کہ اب کچھ غیرت سے عاری گھر والوں کو بھی انتظار ہوتا ہے کہ کب صحرا میں بتیاں جلیں گی اور کب انہیں ڈھیر ساری غیر ملکی کرنسی اپنی کم سن شہزادی کی وجہ سے وصول ہو گی۔ تحفے تحائف الگ ہوتے ہیں لیکن اس سلسلے میں ہاتھ بھی ہو جاتا ہے مڈل مین معمولی سی رقم کے عوض سب کچھ خرید جاتے ہیں.
ٹھٹہ کے مقامی لوگ بھی ان کو پکڑ کر فروخت کرتے ہیں حالانکہ یہ غیر قانونی ہے اور محکمہ وائلڈ لائف سے پروٹیکشن حاصل ہے۔ اللہ کے بندو یہ ہمارے مہمان اور دوست پرندے ہیں، اپنے پیٹ کو ان کا قبرستان نہ بناو۔ کہتے ہیں کہ پارٹیشن سے پہلے یہاں کے ہندو لوگ شکاریوں سے یہ پرندے خرید کر آذاد چھوڑ دیتے تھے۔ میں نے نیشنل جیوگرافک کے ایک پروگرام میں دیکھا تھا کہ یہی تلیر اور تلور جو انڈیا کی طرف بھی لاکھوں کی تعداد میں ہجرت کرتے ہیں وہاں کے مقامی ان کو باقاعدہ بوریوں کے حساب سے دانہ ڈالتے ہیں اور وہاں ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جبکہ ہمارے یہاں ان کی تعداد چوتھائی سے بھی کم رہ گئی ہے۔ دعا کیجئے کہ ان خوبصورت پرندوں کی پاکستان کی طرف اڑان جاری رہے ورنہ جو حالات ہیں ان سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں یہ پرندے پاکستان سے ناپید ہوجائیں گے۔
(نوٹ:عرب شہزادوں کے تلور کے شکار سے متعلق کچھ معلومات بی بی سی میگزین سے لی گئی ہیں)
تبصرہ لکھیے