ہوم << عوامی لیگ کامینڈیٹ : جمہوریت یا جبر کی داستان؟ -کامران رفیع

عوامی لیگ کامینڈیٹ : جمہوریت یا جبر کی داستان؟ -کامران رفیع

لوگ سمجھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان، جو آج بنگلہ دیش ہے، میں پندرہ سال بعد عوامی لیگ کے جبر کا سلسلہ ٹوٹا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوامی لیگ کا جبر 1969 سے ہی نہیں بلکہ اس سے بھی پہلے سے راٸج ہوچکا تھا۔ حکومتی ادارے عوامی لیگ کی دھونس اور دھاندلی کے سامنے بے بس ہو چکے تھے۔ اور عوامی لیگ مسلح جتھے بنا چکی تھی جس کو بھارت کی مکمل حمایت حاصل تھی۔

کوتاہ فہمی ہی کہیے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر جب بھی گفتگو ہوتی ہے، زیادہ تر توجہ فوجی آپریشنز یا 1970 کے انتخابات کے نتائج پر مرکوز رہتی ہے۔ تاہم، ایک اہم پہلو کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے: وہ غیر جمہوری ہتھکنڈے، جن کے ذریعے عوامی لیگ نے یہ نام نہاد "جمہوری مینڈیٹ" حاصل کیا تھا۔

1970 کے انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں 167 سیٹیں حاصل کیں۔ لیکن اگر کل ووٹوں کا جائزہ لیا جائے تو عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے صرف 38.5 فیصد ووٹ حاصل کیے، جو کل پاکستان کے محض 19.4 فیصد ووٹ بنتے ہیں۔ دوسری طرف، جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں 12.8 فیصد ووٹ حاصل کیے، اور دیگر چھوٹی جماعتوں کو بھی قابل ذکر حمایت ملی۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد نے عوامی لیگ کو ووٹ نہیں دیا۔ لیکن اس کے باوجود عوامی لیگ نے مخالف سیاسی جماعتوں کو منظم طریقے سے کچلنے کی بھرپور کوشش کی۔

مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے دیگر رہنماؤں پر براہ راست حملے کیے گئے۔ بھاشانی گروپ، جو عوامی لیگ کی قوم پرستی کو چیلنج کر رہا تھا، کے جلسوں کو منتشر کیا گیا اور ان کے کارکنان کو قتل کیا گیا۔ انتخابی مہم کے دوران جماعت اسلامی کے درجنوں کارکن قتل کیے گئے، جبکہ نیپ جیسی جماعتوں کو عوامی لیگ کے مسلح جتھوں نے سیاسی طور پر مفلوج کر دیا۔ عوامی لیگ کے ان اقدامات نے انتخابی عمل کو جمہوری کے بجائے جابرانہ بنا دیا۔

انتخابات سے پہلے کے حالات مزید سنگین تھے۔ عوامی لیگ نے مخالف جماعتوں کے دفاتر پر حملے کیے، کارکنوں کو ہراساں کیا، اور انتخابی مہمات کو سبوتاژ کیا۔ ان واقعات کے نتیجے میں جماعت اسلامی اور نیپ جیسی جماعتیں ایک منصفانہ انتخابی مہم چلانے سے قاصر رہیں۔

مارچ 1971 تک، عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں غیر اعلانیہ حکومت قائم کر لی تھی۔ ان کے مسلح گروہوں نے ریاستی اداروں کو مفلوج کر دیا تھا۔ اس دوران بنگالی قوم پرستی کو بڑھاوا دینے کے لیے غیر بنگالیوں، خاص طور پر بہاریوں کے خلاف منظم تشدد کو ہوا دی گئی۔ صرف مارچ 1971 میں چٹاگانگ میں 300 بہاریوں کو قتل کیا گیا۔ جیسور، کھلنا، اور دیگر علاقوں میں بھی بہاریوں کا قتل عام کیا گیا۔ پاکستانی حکومت کے مطابق، عوامی لیگ کی حمایت یافتہ گروہوں نے 64,000 غیر بنگالیوں اور مغربی پاکستانیوں کو قتل کیا۔ بعض بین الاقوامی تخمینے 20,000 سے 200,000 کے درمیان ہلاکتوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

یہ سب کچھ ان حالات میں ہوا جب ریاستی ادارے عوامی لیگ کے تابع ہو چکے تھے۔ یحییٰ خان کی حکومت کی کمزوری اور مغربی پاکستانی سیاستدانوں کی بے عملی نے عوامی لیگ کو مزید طاقتور بنایا۔ اس کے نتیجے میں 25 مارچ 1971 کو آپریشن سرچ لائٹ کی صورت میں فوجی کارروائی شروع کی گٸ جس وقت تک درحقیت بہت دیر ہو چکی تھی

یہ تمام حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ عوامی لیگ کا مینڈیٹ جمہوری عمل کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ دھونس، جبر، اور تشدد کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ مجیب کو بنگلہ دیش بننے کے بعد اسکے اپنے قریبی ساتھیوں نے قتل کردیا کیونکہ نہ تو شیخ مجیب کو بنگالی عوام کا حقیقی ہیرو کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی عوامی لیگ کو عوامی لیگ۔ ان کا زوال ان کے اپنے غیر جمہوری ہتھکنڈوں کا منطقی نتیجہ ہے۔
بلکل اسی طرح شیخ حسینہ واجد نے جبر اور استبداد سے پندرہ سال حکومت کی اور دیکھتے ہی دیکھتے اسکی حکومت ریت کے ذروں کی طرح بکھر گٸ
اور ہم کہ سکتے ہیں کہ کم و بیش 54 سال بعد مسلم بنگال کو بھارت کی پراکسی سے نجات ملی ہے جیسے شام کے عوام کو بشار اور اسکے باپ سے نجات ملی�