پاکستان میں تعلیمی نظام ایک پیچیدہ اور متنوع نظام ہے جوپچھلی سات دہائیوں سے کئی مسائل اور چیلنجز کا شکار ہے ۔ آئیے وطن عزیز میں رائج الوقت نظام تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں ۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک میڈیا کمپنی کے مالک" الیکزینڈر ایسر" نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں جو اعدادوشمار بتائےہیں انکے مطابق:
"پاکستان میں تعلیمی نظام کئی سنگین مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں تقریباً 22.84 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں، اور ملک میں شرح خواندگی 59% ہے۔پرائمری تعلیم مکمل کرنے والی لڑکیوں کی شرح صرف 29.5% ہے، اور 44% ابتدائی اسکول کی عمر کے بچے اسکول سے باہر ہیں۔ پاکستان میں پرائمری تعلیم میں نیٹ انرولمنٹ کی شرح 57% ہے، جبکہ ثانوی تعلیم میں داخلہ لینے والے بچوں کی شرح٪ 65 ہے۔ تعلیمی بجٹ میں پاکستان صرف 2.8 ٪ مختص کرتا ہے، اور تقریباً 25 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں پرائمری سطح پر ڈراپ آؤٹ کی شرح 40% ہے، اور پاکستان عالمی تعلیمی انڈیکس میں 163 ممالک میں سے 137 ویں نمبر پر ہے۔ اسکولوں میں 20% اساتذہ کسی بھی دن غیر حاضر ہوتے ہیں، اور صرف 49% اسکولوں میں پینے کے صاف پانی سہولت موجود ہے۔ مزید برآں، تقریباً 22.8 ملین بچے اسکول جانے کی بجائے مزدری (Child labor) کرتے ہیں ۔اسکے ساتھ پاکستانی اسکولوں میں تقریباً 427,000 اساتذہ کی کمی ہے۔"
"اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد آپکو اس بات ادارک ہوگیا ہوگا کہ ہمارے ملک کا تعلیمی نظام اوپر سے نچلی سطح تک مسائل کے مدار میں ہے"
پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کی عمر کے بچوں کی تعداد تقریباً 52 ملین ہے، جن میں سے تقریباً 22.8 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں۔ یہ تعداد 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کا تقریباً 44 فیصد ہے۔ اس مسئلے کی جڑیں مختلف عوامل میں پوشیدہ ہیں، جن میں غربت اور مالی مشکلات تعلیم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ مالی مسائل کی وجہ سے بہت سے خاندان اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج سکتے ۔ ان بچوں کو پڑھنے لکھنے اور تربیت حاصل کرنے کی عمر میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ خاص طور پر بلوچستان اور سندھ کے دیہی علاقوں میں زیادہ شدت سے پایا جاتا ہے، جہاں تقریباً 70 فیصد اور 52 فیصد بچے بالترتیب اسکول سے باہر ہیں۔ غربت کے ساتھ ساتھ، ان علاقوں میں تعلیمی اداروں کی کمی اور موجودہ تعلیمی اداروں میں سہولیات کا فقدان بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
افلاس نے میرے بچوں کو بھی تہذیب سکھا دی
خاموش سے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
ثقافتی اور سماجی رکاوٹیں، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے، بھی تعلیمی نظام میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ کچھ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بہت ساری لڑکیاں اسکول نہیں جاسکتیں ۔ان مسائل کا حل نکالنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جو تعلیمی معیار کو بہتر بنائے اور ہر بچے کو تعلیم کی بہتر سہولت فراہم کرے۔ خاص طور پر مخلوط نظام تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ کے واقعات میں اضافے کی وجہ سے والدین بچیوں کے حوالے پریشان رہتے ہیں۔یہ حکومت کا فرض ہے کہ طالبات کے لیے ہر قسم کی ہراسمنٹ سے محفوظ تعلیم کا حصول یقینی بنائیں۔
ملک میں سرکاری اسکولوں کی تعداد تقریباً 150,000 ہے، جبکہ پرائیویٹ اسکولوں کی تعداد تقریباً 90,000 ہے۔ قدرتی آفات اور دہشت گردی کی صورت حال نے کئی علاقوں میں تعلیمی اداروں کی حالت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ مثلاً، 2005 کے زلزلے ، قبائلی علاقوں میں آپریشن اور 2010 میں آنے والے سیلاب کے بعد پاکستان بھر میں بہت سے اسکول تباہ ہو گئے، اور آج بھی کئی اسکول مکمل طور پر بحال نہیں ہو پائے ہیں۔
پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھرمار بھی ایک مسئلہ ہے۔ ان اداروں کا معیار مختلف ہوتا ہے کچھ تعلیمی ادارے عالمی معیار کے مطابق اور کچھ کی حالت سرکاری تعلیمی اداروں سے بھی بدتر ہے، اور ان کی فیسیں بہت زیادہ ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے غریب طبقے کے بچے معیاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ سرکاری و پرائیوٹ دونوں قسموں کے تعلیمی اداروں کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی و پلاننگ کی ضرورت ہے۔پاکستان کے پرائمری تعلیمی اداروں میں پڑھانے میں اساتدہ کی تعلیمی قابلیت و لیڈرشپ صلاحتیوں میں اضافہ کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر تعلیمی و تربیتی کلاسسز کا انعقاد کیا جا نا چاہیے کیونکہ قوم کا مستقبل قابل اساتذہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور یہ معمار قوم ہوتے ہیں۔ استاد کا مرتبہ تو روحانی باپ کا ہوتا ہے جس طرض ایک والد کو اپنے بچے کی تربیت کی فکر رہتی اسی طرح ایک مخلص و محنتی استاد اپنی لگن اور محنت سے ہزاروں بچوں کا مستقبل سنوار سکتا ہے ۔ بنگلہ دیش میں برپا ہونے والی حالیہ تحریک میں طلبہ کے کرادر میں انکے اساتذہ کا بڑا ہاتھ تھا جنہوں نے بہادر قوم بنانے میں اہم کرادر ادا کیا ۔
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
پاکستان کے مختلف صوبوں کے تعلیمی بجٹ اور شرح خواندگی کے 2023 کے مالی سال کے اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ اعداد و شمار مختلف حکومتی اداروں اور عالمی تنظیموں جیسے یونیسکو (UNESCO) اور یونیسف (UNICEF) کی رپورٹس پر مبنی ہیں، جنہیں وزارت تعلیم، صوبائی حکومتوں، اور پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (PBS) کے تعاون سے مرتب کیا گیا ہے۔ صوبہ پنجاب تعلیم کے لیے اپنے بجٹ کا تقریباً 20% مختص کرتا ہے، جو ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے، جبکہ خیبر پختونخوا 19%، سندھ 18%، اور بلوچستان 16% بجٹ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ شرح خواندگی کے اعتبار سے پنجاب تقریباً 60% کے ساتھ سب سے آگے ہے، جبکہ خیبر پختونخوا میں یہ شرح 50%، سندھ میں 48%، اور بلوچستان میں صرف 40% ہے، جو کہ ملک میں سب سے کم ہے۔ خاص طور پر سندھ کے کچے علاقوں اور بلوچستان میں تعلیمی صورتحال بہت خراب ہے، جس کی وجہ سے ان علاقوں میں تعلیمی بہتری کے لیے مزید کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیمی شعبے میں بہتری لانے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ہر صوبے کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے۔
تعلیمی بجٹ میں اضافہ، نصاب کی بہتری( سائنس ،ٹیکنالوجی اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کا اضافہ )، تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی، اور سیکیورٹی کی صورت حال میں بہتری کے اقدامات کیے جائیں تاکہ بچوں کے لیے تعلیمی مواقع کو بہتر بنایا جا سکے اور تعلیمی نظام کو مضبوط کیا جا سکے۔
اس مضمون کو پڑھنے کے بعد آپکو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ ہمارے بچوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں اہم رکاوٹیں کیا ہیں اور اب وقت آچکا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع اصلاحات کی جائیں۔تاکہ یہ بچے ملک کی سلامتی کے ضامن بنیں، ملک کے وفادار بنیں اور ملک دشمن طاقتوں کے لیے شہد کا چمچ نہ بنیں ، یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہمارے ملک کے تمام ادارے سنجیدہ ہوکر اس اہم مسئلہ کے حل پر توجہ مرکوز کریں تاکہ طلبہ و عوام میں ملک سے وفاداری کا جزبہ پیدا ہو اور ہمارے مستقبل کے یہ روشن ستارے ملک کی ترقی کے لیے نظریاتی و عملی بنیادوں پر تیار ہوں ۔
تبصرہ لکھیے