کہتے ہیں گلاب کو جس بھی نام سے پکارا جائے وہ گلاب ہی رہتا ہے پر علامہ اقبال کو جب تک علامہ اقبال لکھا اور پکارا نہ جائے معلوم نہیں پڑتا کس کا ذکر ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر اقبال، محمد اقبال، یا اقبال صاحب تو ہزاروں کی تعداد میں کسی بھی بس سٹاپ پر دستیاب ہیں، ڈھونڈ لیجیے.
گزشتہ دنوں وجاہت مسعود صاحب نے اپنے ایک مضمون میں کچھ یوں تحریر کیا "ڈاکٹر محمد اقبال نام کے ایک ماہر قانون لاہور میں رہتے تھے۔ شعر بھی کہتے تھے، متوسط طبقے سے تعلق تھا۔ 1927 سے 1938 تک اقبال نامی درویش نے چند تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ پنجاب میں مسلم لیگ کا پرچم اٹھائے رکھا".
اقبال کا تعارف یوں کرانا ایسے ہی ہے جیسے مرزا غالب کا کرایا جائے کہ مغلوں کے دور میں ایک صاحب تھے، یونہی فارغ پھرا کرتے تھے، ہاں شعر بھی کہہ لیا کرتے
تھے۔ یا فیض کے بارے میں کہا جائے کہ بچوں کو کالج میں پڑھایا کرتے تھے، فرصت کے اوقات میں شعر و ادب سے شغف تھا.
ہمیں اس تعارف پر کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی اقبال کے نام کے ساتھ علامہ کا لفظ نہ لگانے سے اس کی عظمت پر کوئی حرف آتا ہے۔ بلکہ معاملہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کا کام اس قدر شاندار اور عظیم ہوتا ہے کہ ان کا پیشہ ثانوی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ لوگ انہیں ان کے پیشے کی نسبت سے نہیں بلکہ ان کے کام کی عظمت کی وجہ سے جانتے ہیں. کتنے لوگ ہیں جنہیں کارل مارکس یا نٹشے کے پیشے کے بارے میں معلوم ہے یا کتنے لوگ ہیں جو امام غزالی یا امام رازی کو ان کے پیشے کی نسبت سے جانتے ہیں۔ اقبال کے بارے میں کہنا کہ ماہر قانون تھے ہاں شعر بھی کہہ لیتے تھے محض مضحکہ خیزی کے اور کچھ نہیں. محترم حسن نثار بھی اپنے ٹی وی شوز میں اقبال کے بارے میں کچھ ایسے ہی خیالات ظاہر فرماتے رہتے ہیں اور اقبال کو کسی دوسرے درجے کا شاعر ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہ اچھے محب وطن پاکستانی ہیں جو پاکستان کا تصور پیش کرنے والے دانشور کا ہی مقام پست کرنے کی کاوشیں کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے.
اصل معاملہ یہ ہے کہ ہمارے بعض مہربان حضرات اپنی نظریاتی کشمکش میں اپنے مخالفین کی عظمت کا اعتراف کرنے میں خوامخواہ کنجوسی سے کام لینے کے عادی ہیں۔ خواہ دنیا انہیں کتنا ہی معتبر کیوں نہ سمجھتی ہو۔ اب ہمارے یہاں کے کتنے ماہرین قانون ہیں جن کے کام پر دنیا کی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔ یہاں سعودی عرب میں ہماری ناقص معلومات کی حد تک چند پاکستانی مشاہیر ہیں جن کے نام سے سڑکیں منسوب کی گئی ہیں۔ ان میں قائد اعظم، مولانا مودودی اور علامہ اقبال کے نام ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی میں بھی اقبال کے نام کی سڑک موجود ہے۔ سڑکوں کے منسوب ہونے یا نہ ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اتنا ضرور معلوم پڑتا ہے کہ لوگ اس شخصیت کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔ یہ ایک gesture ہے کسی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا.
مغرب اپنی معمولی سے معمولی چیز کو بھی یوں بنا سنوار کر پیش کرتا ہے کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور ہم ہیں کہ معمولی اختلاف پر اپنے سونے کو پیتل قرار دیتے ہیں۔ گورا اپنی پھٹی جینز کو فیشن بنا دیتا ہے اور ہم اپنے خالص ریشم پر بھی شرمندگی کا شکار ہیں۔ یہاں بیرونی دنیا میں یہ مشہور ہے کہ اتنا کوئی کسی کی ٹانگ نہیں کھینچتا جتنا پاکستانی پاکستانی کی کھینچتا ہے۔ یہ ناخوشگوار مقولہ یہاں سچ ہوتا نظر آتا ہے.
اگر آپ اس کے امت مسلمہ کے تصور سے خوش نہیں ہیں تو تصور خودی اور شاہیں کے تصور سے تو کام چل سکتا ہوگا اس کے تو اہل مغرب بھی معترف ہیں۔ اور اقبال کے مرد مومن کے تصور کو تو نٹشے کے سپرمین کے تخیل سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ بہرحال آپ اقبال صاحب کہیں ڈاکٹر اقبال یا اقبال لاہوری جیسا کہ ایران میں کہا جاتا ہے، پاکستانی اقبال کو اپنا روحانی مرشد مانتے ہیں۔ کسی کو کھٹکتا ہے تو اس کی وجوہ بھی ہیں۔ اقبال نے تو جبریل کو بھی کہا تھا کہ
میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
ایسے معاملات سے تو اقبال کو اپنی زندگی میں بھی سابقہ پیش آتا رہا تبھی تو کہا کہ
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
تبصرہ لکھیے