فیض صاحب کے متعلق کچھ لکھتے ہوۓ مجھے تامل ہوتا ہے۔ دنیا حاسدانِ بد سے خالی نہیں۔ اگر کسی نے کہہ دیا کہ ہم نے تو اس شخص کو کبھی فیض صاحب کے پاس اٹھتے بیٹھتے نہیں دیکھا تو کون اس کا قلم پکڑ سکتا ہے۔ احباب پر زور اصرار نہ کرتے تو یہ بندہ بھی اپنے کوشۂ گمنامی میں مست رہتا۔ پھر بعض ایسی باتیں بھی ہیں کہ لکھتے ہوۓ خیال ہوتا ہے کہ آیا یہ لکھنے کے ہیں بھی کہ نہیں۔ مثلاً یہی کہ فیض صاحب جس زمانے میں پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے، کوئی اداریہ اس وقت تک پریس میں نہ دیتے تھے جب تک مجھے دکھا نہ لیتے۔ جئی بار عرض کیا کہ ماشاء اللہ آپ خود بھی اچھی انگریزی لکھ لیتے ہیں لیکن وہ نہ مانتے اور اگر میں کوئی لفظ یا فقرہ بدل دیتا تو ایسے ممنون ہوتے کہ خود مجھے شرمندگی ہونے لگتی۔
پھر فیض صاحب کے تعلق سے وہ راتیں یاد آتی ہیں جب فیض ہی نہیں، بخاری ، سالک، خلیفہ عبد الحکیم وغیرہ ہم سبھی ہم پیالہ و ہم نوالہ دوست راوی کے کنارے ٹہلتے رہتے اور ساتھ ہی ساتھ علم و ادب کی باتیں بھی ہوتی رہتیں۔یہ حضرات مختلف زاویوں سے سوال کرتے اور یہ بندہ اپنی فہم کے مطابق جواب دے کر ان کو مطمئن کر دیتا۔ اور یہ بات تو نسبتاً حال ہی کی ہے کہ ایک روز فیض صاحب نے صبح صبح مجھے آن پکڑا اور کہا: " ایک کام سے آیا ہوں۔ ایک تو یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یورپ میں آج کل آرٹ کے کیا رجحانات ہیں۔ اور آرٹ پیپر کیا چیز ہوتی ہے؟ دوسرے میں واٹر کلر اور آئل پینٹنگ کا فرق معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ ٹھمری اور دادرا کا فرق بھی چند لفظوں میں بیان کر دیں تو اچھا ہے۔" میں نے چاۓ پیتے پیتے سب کچھ عرض کر دیا۔ اٹھتے اٹھتے پوچھنے لگے ۔ " ایک اور سوال ہے۔ غالب کس زمانے کا شاعر تھا اور کس زبان میں لکھتا تھا؟" وہ بھی میں نے بتایا۔ اس کے کئی ماہ بعد تک ملاقات نہ ہوئی۔ ہاں اخبار میں پڑھا کہ لاہور میں آرٹ کونسل کے ڈائریکٹر ہو گۓ ہیں۔ غالباً اس نوکری کے انٹرویو میں اس قسم کے سوال پوچھے جاتے ہوں گے
اکثر لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ "نقشِ فریادی" کا رنگِ کلام اور ہے اور فیض صاحب کے بعد کے مجموعوں "دستِ صبا" اور "زندان نامہ" کا اور۔ اب چونکہ اس کا پس منظر راز نہیں رہا اور بعض حلقوں میں بات پھیل گئی ہے لہٰذا اسے چھپانے کا کچھ فائدہ نہیں۔فیض صاحب جب جیل چلے گۓ تو ویسے تو ان کو زیادہ تکلیف نہیں ہوئی لیکن کاغذ قلم ان کو نہیں دیتے تھے اور نہ شعر لکھنے کی اجازت تھی۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ ان کی آتش نوائی پر قدغن رہے اور لوگ انہیں بھول بھال جائیں۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں "تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ" فیض صاحب جب جیل سے باہر آئے تو سالم تانگہ لے کر سیدھا میرے پاس تشریف لے آۓ اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد کہنے لگے۔ "اور تو سب ٹھیک ہے لیکن سوچتا ہوں میرے ادبی مستقبل کا اب کیا ہوگا؟" میں نے مسکراتے ہوۓ میز کی دراز میں سے کچھ مسودے نکالے اور کہا یہ میری طرف سے نذر ہیں۔ پڑھتے جاتے تھے اور حیران ہوتے جاتے تھے۔ فرمایا۔ " بالکل یہی جذبات میرے دل میں آتے تھے لیکن ان کو قلم بند نہ کر سکتا تھا۔ آپ نے اس خوب صورتی نالے کو پابندِ نَے کیا ہے کہ مجھے اپنا ہی کلام معلوم ہوتا ہے۔ میں نے کہا: " برادرِ عزیز! بنی آدم اعضاۓ یک دیگر اند۔ تم پر جیل میں جو گزرتی تھی، اسے میں یہاں بیٹھے بیٹھے محسوس کر لیتا رہا ورنہ من آنم کہ من دانم۔
بہر حال اب اس کلام کو اپنا ہی سمجھو بلکہ اس میں، میں نے تخلص بھی تمہارا ہی باندھا ہے اور ہاں نام بھی تجویز کیۓ دیتا ہوں۔ آدھے کلام کو "دست صبا" کے نام ست شائع کرو اور آدھے کو " زندان نامہ" کا نام دو۔" اس پر بھی ان کو تامل رہا۔ بولے: " یہ برا سا لگتا ہے کہ ایسا کلام جس پر ایک محبِ صادق نے اپنا خونِ جگر ٹپکایا ہو اپنے نام سے منسوب کر دوں" میں نے کہا: :فیض میاں! دنیا میں چراغ سے چراغ جلتا آیا ہے، شیکسپیئر بھی تو کسی سے لکھوایا کرتا تھا۔ اس سے اس کی عظمت میں کیا فرق آیا؟" اس پر لا جواب ہو گۓ اور رقت طاری ہو گئی۔
فیض صاحب کی ایک اور بات میں نے دیکھی۔ وہ بڑے ظرف کے آدمی تھے۔ ایک طرف تو انہوں نے کسی پر یہ راز افشا نہیں کیا کہ یہ مجموعے ان کا نتیجۂ فکر نہیں۔ دوسری طرف جب لینن انعام لے کر آۓ تو تمغہ اور آدھے روبل میرے سامنے ڈھیر کر دیۓ کہ اس کے اصل حق دار آپ ہیں۔ اس طرح کے اور بہت سے واقعات ہیں۔ بیان کرنے لگوں تو کتاب ہو جاۓ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا نمود و نمائش نے اس بندے کی طبیعت سے ہمیشہ نفور رہی ہے۔ و ما توفیقی الا با اللہ
What is the Source of this article?