ہوم << کربلا کی داستانِ عزیمت - رضوانہ قائد

کربلا کی داستانِ عزیمت - رضوانہ قائد

کربلا کے شہداء رضی اللہ عنہم کی داستانِ عزیمت کو ایک بار پھر تازہ کرتا ہوا، اسلامی سالِ نو ۱۴۳۸ھ کا اپنے مخصوص انداز کے ساتھ آغاز ہوا ہے۔ ۱۳۶۷برس بیت چکے. مظلوم شہدا کے غم پر امت آج تک لرزہ براندام ہے۔ کیوں نہ ہو، رسول کریم ؐ سے محبت اور اہل ِبیت سے عقیدت کا تعلق ہی ہے کہ سالہاسال گزر جانے کے باوجود بھی، عاشورہ کے ایام میں کربلا کے کربناک مناظر کا بھیا نک تصور ہی امت کو سراپا غم بنا ڈالتا ہے۔
وہ قیامت خیز لمحات، جب سید نا امام حسین ؓ حق کی سربلندی کی خاطر باطل کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے خاندان کے ۷۲ افراد سمیت نکل کھڑے ہوئے. میدان جنگ میں آپؓ کے ساتھیوں نے دیوانہ وار لڑتے ہوئے ایک ایک کر کے نہایت مظلومیت کے عالم میں جام شہادت نوش کیا. بالآخر آپؓ اپنے پیاروں کی مظلومانہ شہادت پر غموں سے چور، پیاس سے بےتاب ہو کر فرات کے ساحل پر خشک حلق تر کرنے کو آگے بڑھے، کہ ایک ظالم کے تیز دھار تیر سے آپؓ کا گلا گھائل کر دیا جاتا ہے. وہ چہرہ مبارک جس کا رسول پاک ؐ کے مبارک لبوں نے بوسہ لیا تھا، پیاسی حالت میں خون کی دھاروں سے لہولہان ہوگیا. نواسہ رسولﷺ، نوجوانانِ جنت کے سردارؓ، امام عالی مقامؓ نے خون کو چُلوّ میں بھر کر آسمان کی جانب اچھالتے ہوئے کہا ”اے خدائے بے نیاز! تیرے محبوب نبیؐ کے نواسے کے ساتھ یہ سنگدل جو سلوک کر رہے ہیں اس کی فریاد تجھ ہی سے کرتا ہوں“. آپ ؓ زخمی حالت میں زمین پر گر پڑے تو آپؓ کو شہید کر دیا گیا. پھر تیروں سے مجروح آپ کے جسم ِمبارک کو گھوڑوں کے ذریعے روندا گیا۔ دشمن کے میدان کربلا سے کوچ کر نے کے بعد تیسرے روز، قریب ہی رہنے والے قبیلے نے آ کر نمازجنازہ ادا کی اور امام عالی مقام اور دیگر شہدا کی لاشوں کی تدفین کی۔
رسولِ پاک ؐ سے محبت کے ناتے کرب و اندوہ سے لبریز سانحہ کر بلاپر امت کا غم ایک فطری تقاضاہے۔ مگر کیا اس غم کو فقط عقیدت و محبت کے ساتھ گریہ وزاری اور قاتلوں پر لعن طعن کے ذریعے منانے سے اس مقصد کا حق ادا ہوگیا؟ جس کی خاطر امام حسین اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور مخالف سے ٹکر لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، کیا مسلمانوں میں خون ریزی، اپنے اور خاندان کے سر دھڑ کی بازی فقط اقتدار پر ذاتی قبضے کی خاطر تھی؟ دراصل امام حسین ؓ کی دور رس نگا ہوں نے ملت ِ اسلامیہ میں خلافت کے بزور اختتام اور بادشاہت سے ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے نتیجے میں امت میں آنے والے بگاڑ کا اندازہ کرلیا تھا۔ امام حسین ؓ جیسے دانا و بینا اور علمِ شریعت میں ماہر شخص کے لیے ان تبدیلیوں کو روکنے کی جدوجہد دراصل اسلام کی بقا تھی۔
اسلامی ریاست کا نظام ، خلافت سے بادشاہت میں تبدیل ہونے کے باعث اہم بنیادی تبدیلیاں عمل میں آئیں۔
٭ حاکمیت اعلیٰ کے خدا کی ذات کا تصور زبانی اقرار تک رہ گیا، عملاً عوام کی جان ومال پر بادشاہ حاکم ہوگیا۔
٭ انسانی بادشاہت میں بادشاہ اور حکام کے ہاتھوں بھلائیاں کم اور برائیاں زیادہ عام ہوئیں۔ عدل و پرہیزگاری کی جگہ ظلم و زیادتی غالب آئی۔
٭ بزورقوت اقتدار پر قبضہ ہونے لگا۔
٭ حکومت کے شورائی نظام میں حق شناس و حق گو اہلِ علم وتقویٰ کے بجائے، نااہل شاہزادے اور خوشامدی، اہم عہدے دار بنادیے گئے۔
٭ اظہار رائے کی آزادی سلب کی گئی۔ حکومت مخالف اظہار یا حق گوئی کا بدلہ قید و بند کی صعوبتیں تھا۔
٭ خلق اور خدا کے سامنے جوابدہی کا احساس فقط زبان کی حدتک رہ گیا۔
٭ بیت المال عام مسلمانوں کی امانت کے بجائے بادشاہ کے لیے مالِ مفت ہوگئے ۔
٭ قانون کی بالادستی ختم ہوگئی. بادشاہ اور شاہی افراد قانون کو ہاتھ میں لینے کے اہل ہوگئے۔ نتیجتًا اہلِ علم فقہاء نے عدالت کے منصب کے بدلے قیدو بند کی سزا کو ترجیح دی۔
٭ حقوق و مراتب کی یکسانیت ختم ہوگئی۔ فضیلت کے لیے قابلیت و صلاحیت معیار نہ رہا۔ شاہی خاندان اور ان کے حامی قبیلوں کو دیگر قبیلوں پر ترجیحی حقوق حاصل ہوگئے۔
یہ تھے وہ تغیرات جو اسلامی خلافت کے انسانی بادشاہت میں تبدیل ہونے سے عمل میں آئے اور یزید کی حکومت ان کا نقطہ آغاز تھی۔ اس کا انجام برسرِحق نظامِ خلافت کی مغلوبیت اور باطل کے غلبہ کی صورت میں سامنے تھا۔ اس فیصلہ کن صورتحال میں امام حسین باطل کے سامنے مغلوب ہوجانے کے بجائے حق کو غالب کرنے کے لیے اپنی پوری قوت کے ساتھ ڈٹ گئے، اور فرات کے کنارے پیاس سے تڑ پتے ہوئے اپنے اور اہل بیت کے کارِ عزیمت پر مظلومانہ مہرِ شہادت کر گئے۔
آج دجلہ و فرات کے گرد و نواح میں باطل نے حق کو پھر للکارا ہے. دورِ جدید کے یزید حق کی سرکوبی کے لیے پوری طرح برسرپیکار ہیں. 2011ء سے شام مسلسل خون میں لت پت ہے، اسلامی ملکوں میں انسانی خدائی کا نیتجہ ہے کہ شام، عراق اور مصر میں جتنا خون مسلمانوں نے آپس میں ایک دوسرے کا بہایا ہے وہ دشمنوں کے ظلم سے کہیں زیادہ ہے۔ قبیلہ، مسلک اور علاقے کے تعصب کی بنا پر سیاسی کشمکش عروج پر ہے۔ مساجد و امام بارگاہوں پر حملے جاری ہیں۔ انتہائی تکلیف دہ حقیقت یہ کہ سوشل میڈیا اور یورپ سے چلنے والے T.V چینلوں پر صحابہ کرام ؓ ، امہات المومنین ؓ اور اہلِ بیت کے بارے میں شرمناک بد کلامی، باطل کی زورآوری کا کھلا اظہار ہے۔ کشمیر میں نوجوان برہان وانی کی شہادت کے بعد دشمن کے تمام تر ظلم اور سختیوں کے باوجود جدوجہد ِآزادی میں نئی جان پڑ گئی ہے۔ مجاہدین کی قربانیاں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔ پچھلے 13 سال میں تقریباً 4 ملین سے زائد مسلمان جنگ، دہشت گردی، نفرت کے چکر (Cycle) کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
امتِ مسلمہ کے ماضی اور حال کی مذکورہ صورتحال ہمارے مستقبل کے لیے سوالیہ نشان ہے. پھر کیا ہم یونہی ہر سال عاشورہ کے موقع پر کالے کپڑے پہن کر، دیگیں چڑھا کر، گریہ و زاری کر کے پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری کے ساتھ غمِ حسین ؓ کی فقط سالگرہ مناتے رہیں گے. یاشہادت حسینؓ کی داستان ِ عزیمت اپنی خوابیدہ نسلوں تک منتقل کر کے انہیں عالمِ اسلام میں برسرپیکار نفرت، انتقام اور تعصب کے باطل کے مقابلے کے لیے حق کا علمبردار بنائیں گے۔ کیا آپ حسین ؓ سے محبت کا حق ادا کرنے کو تیار ہیں؟

Comments

Click here to post a comment