
وہ اکثر جیت جاتی ہے میں اکثر ہار جاتا ہوں
جب احساسوں کے پردوں کو زبانیں پھونک دیتی ہیں
کبھی ان کو برا کہہ کر وہیں خود کو تپاتا ہوں
ادیبوں نے مجھے جھاڑا تو پھینکا گو ہوں وہ کیڑا
کہ ان کی کل کتابوں کو میں یوں ہی چاٹ کھاتا ہوں
سلاخیں اور زنجیریں ہیں کیا بیجا مظالم کیا
زباں کی دو سلاخوں میں میں خود کو قید پاتا ہوں
کوئی دیمک لگی لکڑی سی کچھ یادیں سمبھالی تھیں
وہ میرا تن گلاتی تھیں سو خود ان کو گلاتا ہوں
اگر میري تشفّی کو دو باتیں یار کي کر دو
زباں کي ہي انایت ہے کہ خود کو بھول جاتا ہوں
اگر چاہوں گل و بلبل کے جذبے کھینچ ڈالوں میں
مگر اپنی کمائي کا گدآ سچ ہي دکھاتا ہوں
وہ آتش سرد خانے کی نظر کر کے چھپاتا ہوں
جو اٹھتي ہے کہیں دل سے میں اس کو یوں دباتا ہوں
مرے سوکھے سمندر نے جو کچھ نقشے سے کھینچے تھے
جنہیں لہریں مٹاتی تھیں کبھی اب میں مٹاتا ہوں
زباں کی مار کھائی ہے جو میں نے یاروں مادر کي
شکستہ ہو کہ ان ٹکڑوں کو اب تم پر اڑاتا ہوں
جو انگارے ہیں آنکھوں میں ہیں دور حال کا طحفہ
یہ گذرے دور کی سي۔ڈي۔ تو تفریحن بجاتا ہوں
مري حسّاس طبیعت کو تو کیا سمجھیں گے میں خود کو
کبھي اشکوں سے منہ دھو کر کبھي ہنس کے چھپاتا ہوں
جو کوڑا دان کو شایاں ہے وہ میری ادیبی ہے
یہ پنّي چڑچڑاتی ہے میں جب شمعہ بڑھاتا ہوں
کبھی سمجھا تھا شاعر ہوں، گدآ لکھتا تھا میں خود کو
جو مجنوں بن پھرا بن میں وہ بن سے لوٹ آتا ہوں
تبصرہ لکھیے