غامدی صاحب اس امت کے پہلے محقق مجتہد اور مفکر ہیں جو ایمان بالغیب کی ایک ایسی توجیہہ پیش کرتے ہیں جو اس امت کی تاریخ تہذیب قرآن و سنت اور اسلامی علمیت کے لیے بالکل اجنبی غلط اور ناقابل قبول ہے غیب پر اور تقدیر پر ایمان کے بغیر کسی مسلمان کا ایمان مکمل ہی نہیںہوتااور غیب وہ ہے جو کسی وسیلے اور ذریعے کے بغیر قابل ادراک ہو ظاہر ہے انسان غیب کابراہِ راست ادراک کرنے سے قاصر ہے لہٰذا اس پر ایمان لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
مثلاً خدا کے وجود پر اس کی ہستی پر ایمان اسے بن دیکھے لانا ہے اس کی ہستی کا ادراک ذہن انسانی کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ لا محدود ہے اور انسان محدود وہ خالق ہے یہ مخلوق ہے وہ عقل کلی ہے اور انسان کی عقل محض خالق کی مخلوق جو محسوسات کے بغیر کار آمد ہی نہیں ہوسکتی۔اسی لیے اللہ اور دیگر امور میں ایمان بالغیب لازم ہے خود غامدی صاحب لکھتے ہیں اللہ کی ذات کسی طرح انسان کے حیطہ ادراک میں نہیں آسکتی [میزان ۲۰۱۵ء، ص ۹۲] ادراک کے ذرائع ذات الہٰ کا احاطہ نہیں کرسکتے کسی شے سے روشنی منعکس نہ ہو تو آنکھ کی بصارت دیکھنے سے قاصر رہ جاتی ہے اللہ کے پیغمبر موسیٰ کے لیے اللہ کو دیکھنا ممکن نہ ہوا [میزان ۲۰۱۵ء، ص ۹۲] ذات باری تعالیٰ سے متعلق انسان تشبیہہ تمثیل کا طریقہ بھی اختیار نہیں کرسکتا لہٰذا تشبیہہ و تمثیل کے طریقے کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لیے بند ہے۔[میزان ۲۰۱۵ء، ص ۹۴] لہٰذا خدا کی ذات پر ایمان بالغیب لائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے یہی صورت حال وحی اور نزول و حی کی کیفیات کے ساتھ درپیش ہے ان پر ایمان بالغیب ضر وری ہے خود غامدی صاحب لکھتے ہیں نزول و حی کی کیفیات کو سمجھنا انسان کے حدو د علمی سے باہر ہے [میزان ۲۰۱۵ء، ص ۱۲۷] ۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان Phenomenon مظہر کے بارے میں تو مشاہدے تجربے محسوسات سے جان سکتا ہے لیکن Noumenon معقول بالذات کماہیہ کے بارے میں نہیں جان سکتا۔کانٹ جیسے فلسفی نے اپنی کتاب تنقید عقل محض میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ انسانی علم کا دائرہ مظاہر تک محدود ہے اورمشاہدات، تجربات، محسوسات سے ماوراء کا علم انسانی عقل کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔انسان کو وہ ذرائع میسر ہی نہیں ہیں جو مظاہر کی دنیا سے ماورا دوسری دنیا کی حقیقتوں کا ادراک کرسکیں لہٰذا جو چیز ہمارے حیطہ ادراک میں دائرہ عقلیات اور تجربات میں نہیں آسکتی وہ اگر وجود بھی رکھتی ہے تو اس کا وجود ہمارے لیے کوئی معانی نہیں رکھتا کانٹ نے عقل کی محدودیت کا اعتراف کرنے کے باوجود عقل کے ذریعے ہی ما بعد الطبیعیات کا انکار کردیا ۔ مگر غامدی صاحب کانٹ سے بڑے مفکر ہیں وہ فرماتے ہیں کہ محسوسات و تجربات سے ماوراء حقائق و مظاہر کاعلم عقل اور فطرت ،تدبر و تفکر سے ممکن ہے۔
واضح رہے کہ [Noumenon] معقول بالذات کے بارے میں فلسفی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا تصور انسانی علم کی آخری حد ہے مثبت معنوں میں وہ جو عقل بتائے کہ ’ہے‘ مگر یہ نہ بتاسکے کہ ’کیا ہے‘؟ عقل سے کسی برتر ہستی خالق کے وجود کا ادراک ایک سطح پرتو ہوسکتاہے مگر اس کی ذات صفات تجلیات اس کی شریعت اس کی رضا اس کے رسولوں اس کی کائنا ت کے مقاصد اس کو مطلوب زندگی اس کی پیدا کردہ آخرت کا تصور ممکن نہیں اسی لیے ایمان بالغیب ۔ ایمان کی بنیادی شرط ہے۔ایمان بالغیب یہی ہے کہ وہ حقائق صداقتیں جو آنکھوں سے نہیں دیکھے جاسکتے محدودعقل کے پیمانے میں نہیں سما سکتے ان پر انسان نبیوں اور رسولوں کی اطلاع پر ایمان لے آئے صرف عقل [Pure Reason] کی بنیاد پر لایا ہوا ایمان کفایت نہیں کرتا اور تشکیک کا خاتمہ بھی نہیں کرتا لہٰذا یونانی عقلیت کانٹ کے عہد میں ما بعد الطبیعیات کے انکار کے ساتھ ہی مسترد ہوگئی اور ایک نئی عقلیت نے جنم لیا ایک نئی ما بعد الطبیعیات وجود میں آئی جسے ہائیڈیگر حاضر و موجود کی ما بعد الطبیعیات [Metaphysics of Presence] کہتا ہے اس ما بعد الطبیعیات کی بنیاد پر جو تہذیب تاریخ نظام زندگی وجود میں آیا اس میں خیر و شر کی بحث بے معنی ہے اصل چیز رچرڈ رارٹی کے الفاظ میں صرف یہ ہے کہ What is usefull کون سی شے فائدہ مند ہے انسان اسی ایک اصول کے محور پر گردش کررہا ہے۔
نامنا، فنامنا کی بحث میں ایک بنیادی بات جو نظر انداز کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ موجود کا دائرہ ہمیشہ معلوم سے بڑا ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جو نظر نہیں آرہا جو معلوم نہیں ہے وہ وجود ہی نہیں رکھتا آپ اس کے وجود [Existence] سے لا علم ہیں یہ آپ کا مسئلہ ہے وجود کا مسئلہ نہیں لہٰذا کسی کی شہادت پر مان لیجیے
مگر غامدی صاحب اسے تسلیم نہیں کرتے ۔مقامات میں لکھتے ہیں:
ایمان بالغیب کے معنی یہ ہیں کہ وہ حقائق جو آنکھوں سے دیکھے نہیں جاسکتے، اُنھیں انسان محض عقلی دلائل کی بنا پر مان لےذات خدا وندینبی ﷺ کی طرف جبرل امین کو وحی کرتے ہم نے نہیں دیکھا، لیکن اس کے باوجود ہم ان سب باتوں کو مانتے ہیںان حقائق کو ماننے کے لیے قرآن اور کائنات میں ایسے قوی دلائل موجود ہیں جن کا انکار کوئی صاحبِ عقل نہیں کرسکتاچنانچہ ہم انھیں بے سوچے سمجھے نہیں مانتےوہ چیز جو دیکھی نہیں جاسکتی، لیکن عقل کے ذریعے سے سمجھی جاسکتی ہے اسے دیکھنے کا تقاضا ہی سب سے بڑی بے عقلی ہےقرآن نے جو حقائق پیش کیے ہیں ان پر ہمارے ایمان کی بنیاد بھی یہی ہے۔ وہ بے شک حواس سے ماورا ہیں، لیکن عقل سے ماورا نہیں ہیں۔ ہم نے انھیں عقل کی میزان میں تولا ہے اور ان میں رتی بھر کمی نہیں پائیچنانچہ ہم ان پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم انھیں عقل و فطرت کے قطعی دلائل کی بنا پر مانتے ہیں[غامدی، مقامات،۲۰۱۴ء، ص ۱۱۴]
یہاں غامدی صاحب دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان عقل و فطرت کے قطعی دلائل کی بنیاد پر غیب پر ایمان لے آتا ہے یعنی عقل و فطرت علم قطعی کے ماخذ ہیں ان پر تدبر و تفکر سے یقینی علم اور ایمان حاصل ہوجاتا ہے لیکن یہی غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث سے جو علم حاصل ہوتا ہے (وہ قطعی نہیں ہوتا) کیوں کہ وہ درجہ یقین کو نہیں پہنچتا اسے زیادہ سے زیادہ ظن غالب قرار دیا جاسکتا ہے [غامدی مقامات ۲۰۱۴ء،ص ۱۶۴]
حیرت ہے کہ انسان اپنے تدبر و تفکر اور قرآن و کائنات میں غور و فکر سے تو غیب پر ایمان قطعی اور علم یقینی خود حاصل کرسکتا ہے لیکن حدیث پر غور و فکر اور تدبر سے قطعی علم یقینی علم حاصل نہیں ہوسکتا کیا عقل اور فطرت حدیث نبوی سے زیادہ معتبر ہیں؟غامدی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ حدیث سے قطعی علم اس لیے حاصل نہیں ہوسکتا کیوں کہ حدیثوں کو صرف گنتی کے لوگو ں نے بیان کیا یہ اجماع و تواتر سے منتقل نہیں ہوتیں [غامدی مقامات ۲۰۱۴ء، ص ۱۶۴] حدیثو ں سے یقینی علم اس لیے بھی حاصل نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ نے ان کی حفاظت و تبلیغ کا کوئی اہتمام نہیں کیا بلکہ لوگوں پر چھوڑ دیا کہ چاہیں تو حدیثو ں کو آگے پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں[میزان ۲۰۱۵ء،ص۱۵]حدیثوں سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ یقینی و قطعی نہیں ہوتا مگر کلام جاہلیت سے لغت و ادب کا حاصل ہونے والا علم یقینی ہوتا ہے اس یقین کی وجہ یہ ہے کہ کلام جاہلیت اجماع و تواتر سے منتقل ہوتا ہے باللفظ ہوتا ہے اور اس میں داخل منحول کلام کی شناخت آسان ہوتی ہے مگر حدیث کا معاملہ ایسا نہیں ہے یہ غامدی صاحب کی تحقیقات کا عطر خلاصہ اور جوہر ہے جو میزان کے پہلے باب میں موجود ہے۔ لہٰذا غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ قرآن کے بعد یہی کلام ہے (کلام عرب؍ کلام جاہلیت) جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے جو صحت نقل اور روایت باللفظ کی بنیادپر سند و حجت کی حیثیت رکھتا ہے تم لوگ اہل جاہلیت کے اشعار کی حفاظت کرتے رہوکہ ان میں تمہاری کتاب کی تفسیر بھی ہے اور تمہارے کلام (قرآن) کے معنی بھی ہیں[میزان ۲۰۱۵ء،ص ۱۹] یعنی قرآن کی تفسیر اور معانی کے لیے کلام جاہلیت حجت سند قطعی اور یقینی ہے یعنی قرآن کلام جاہلیت کا محتاج ہے مگر کلام اللہ کلام رسول اللہ سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا۔ مگر قرآن کے معانی سمجھنے کے لیے حدیث قطعی اور یقینی نہیں ہے اس سے بڑی جہالت اور جاہلیت کیا ہوسکتی ہے؟اسی کو جدید اصطلاح میں جدیدیت (ماڈرن ازم) کہا جاتا ہے جدیدیت کی خاص صفت یہ ہے کہ یہ تاریخ کا انکار کرتی ہے عقل کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتی اور عقلیت کی بنیاد پر ایک نئی تاریخ تخلیق کرتی ہے لہٰذاجدیدیت اٹھارہویں صدی سے پہلے کے زمانے کو نہایت ناقدانہ طریقے سے دیکھتی ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا عقل حواس کے بغیر کام کرسکتی ہے؟ اگر حواس معطل ہوں توکیا عقل متحرک رہ سکتی ہے؟ کسی زمانے میں فلسفے میں افضل علم وہ کہلاتا تھا جو قبل تجربی [a priori] یعنی کسی تجربے کے بغیر صرف عقل کے ذریعے حاصل کیا گیااورسب سے کم تر علم وہ سمجھا جاتاتھا جو تجربے کے ذریعے [a postriori]حاصل ہو اسی لیے روایتی تہذیبوں میں ما بعد الطبیعیات کے عالم فلسفی کو عزت دی جاتی تھی سائنسی علوم کے ماہرین کو کوئی عزت نہیں ملتی تھی کیونکہ وہ علم کی تلچھٹ رکھتے تھے کانٹ کے بعد سائنسی یعنی تجربی علم کو سب سے افضل علم سمجھ لیا گیا۔ ماڈرن ازم میں علم کا ذریعہ عقلیت و تجربیت اور پوسٹ ماڈرن ازم میں علم کا ذریعہ تخلیقی تخیل Creative imagination اور جمالیاتAesthetics ہے۔جدیدیت نے کانٹ کے فلسفے کے ذریعے عقلیت و تجربیت کو علم کا ماخذ تسلیم کیا لہٰذا جدید سائنس نے زبردست ترقی کی لہٰذا افضل علم اب قبل تجربی نہیں بعد تجربی a Posteriorie یعنی سائنس ہی اصل العلوم ہے اسی لیے ہر علم کو عہد حاضر میں سائنس کے پیمانے یعنی عقلیت و تجربیت پر پرکھا جارہا ہے ۔ان معنوں میں غامدی صاحب ایک اسلامی نہیں جدیدیت پسند مفکر ہیں جو عقل کو مغرب کے اتباع میں ماخذ علم سمجھتے ہیں۔جبکہ مغرب میں عقلیت کی آفاقیت کے دعوے پس جدیدیت کے مفکرین کی جانب سے عقلیت کی بنیاد پر رد کردیے گئے ہیں ۔ غامدی صاحب نے دین کو فلسفے کا اصول بنادیا ہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ خود عقل صرف حواس کے ہی نہیں جذبات کے بھی تابع ہے Reason is the slave of Passions]صرف دین انسان کو عقل، جذبات، حواس سے ماوراء کرکے ایمان کی دعوت دیتا ہے عقل ذریعہ[Mean] علم ہے ماخذ [Source]علم نہیں ہے وہ محض ایک آلہ، وسیلہ، ہتھیار [Tool] ہے جس سے ایمان کے تابع کام لیا جاسکتا ہے ۔ خود غامدی صاحب اپنے مضمون عقل و وحی میں لکھتے ہیں عقل خدا کی نعمت ہے انسان کی رہنمائی کے لیے اپنی غیر معمولی اہلیت کے باوجود اس کے بعض حدودہیں اور ان کے ساتھ بعض آفات بھی لگی ہوئی ہیں عقل کا ذریعہ معلومات اگر کچھ ہے تو ہمارے حواس اور ہمارا وجدان ہی ہے عقل مجبور ہے کہ اپنے فیصلوں کے لیے انھی دو ذرائع حواس اور وجدان پر اعتماد کرے یہ دونوں ذرائع اپنا ایک محدود دائرہ عمل رکھتے ہیں عقل جب تک انھی پر منحصر ہے وہ اس دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی [غامدی، مقامات سہ لسانی عربی اردو انگریزی ایڈیشن طبع دوم ،لاہور، المورد ۔۲۰۰۶ء، ص ۶۷، عقل اور وحی ۔یہ ایڈیشن بازار سے غائب کرادیا گیا تھا اب بازار میں مقامات کا صرف اردو ایڈیشن دستیاب ہے غامدی صاحب کی انگریزی شاعری اور عربی مضمون شواہد الفراہی اس میں سے غائب کردیا گیا ہے کیونکہ اس عربی مضمون میں چھ سو سے زیادہ غلطیاں تھیں اور انگریزی شاعری بڑے انگریزی شعراء کے مصرعوں کا سرقہ تھی ۔ ماہنامہ ساحل نے ۲۰۰۷ء کے اپریل ،مئی جون ،جولائی، اگست کے شماروں میں اس کتاب پر قیمتی تبصرے شائع کیے تھے]
عقل وحی کی رہنمائی کے بغیر باؤلی ہو جاتی ہے:غامدی
عقل پر جذبات تعصبات غالب آجاتے ہیں اور حالات اسے متاثر کرلیتے ہیں عقل کے یہی حدود اور آفات ہیں جن کی بناء پر وہ مجبور ہے کہ اپنے لیے کوئی ایسا رہنما تلاش کرے جو اسے ان حقائق تک پہنچائے جواس کی پہنچ سے باہر ہیں عقل کے اندر اس تلاش کے لیے ابتداء ہی سے بڑا قوی تقاضہ رہا ہے اللہ نے اپنی وحی اسی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ناز ل کی ہے جس طرح انسان کی رہنما عقل ہے اسی طرح عقل کی رہنمائی وحی الہی ہے انسان اگر عقل کی رہنمائی سے محروم ہوجائے تو ہم اسے پاگل کہتے ہیں اگر وحی کی رہنمائی سے محروم ہوجائے تو وہ بھی بالکل باؤلی ہو جاتی ہے۔ [غامدی، مقامات، ۲۰۰۶ء ،ص ۶۸]
غامدی صاحب نے ۲۰۰۸ء کے بعد دین کو صرف اور صرف عقلیت کے پیمانے تک محدود کردیا ہے لہٰذا اب وہ دین کی ہر بات عقل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر کوئی ان سے یہ سوال کرے کہ ایک آدمی جب مباشرت یا احتلام کے بعد غسل کے لیے دریا یا سمندر میں غوطے لگالیتا ہے اس کے باوجود اسے پاک تسلیم نہیں کیا جاتا اس کی کیا عقلی دلیل ہے؟ توغامدی صاحب اس کی کوئی دلیل نہیں دے سکتے۔ اس کی دلیل صرف یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے تم سات سمندر میں غسل کرکے آجاؤ عقلاً شاید پاک ہوجاؤ لیکن دین میں تمہیں ناپاک ہی تصور کیا جائے گا۔جب تک پاکی حاصل کرنے کا وہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے جو رسالت مآب نے بتایا ہزاروں گیلن پانی بہانے سے پاکی حاصل نہیں ہوسکتی اصل پاکی شریعت کی تقلید میں ہے ۔نماز دین کا ستون ہے لیکن عورت کو ایام حیض کی نمازوں کو ادا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا مگر قضا روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی عقلی دلیل کیا ہے؟ ظاہر ہے دین کی ہر بات عقل سے ثابت نہیں کی جاسکتی نہ ہر بات عقل کے معیار پر اترتی ہے کیوں کہ عقل مخلوق ہے کلام اللہ مخلوق نہیں خالق کا کلام ہے لہٰذا کمتر برتر کے کلام کے تمام اسرار معارف پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔اسی لیے رسالت مآبؐ کی اتباع فرض ہے ان کے بغیر دین پر عمل ممکن ہی نہیں۔
ہمارے شاگرد رشید جناب ظفر اقبال نے اپنی کتاب اسلام اور جدیدیت کی کشمکش کے تیسرے باب جدید منہاج علم ماخذ و منابع: عقل محض عقل سلیم فرق اور امتیاز میں عقلیت کی نارسائی بے بسی بے کسی پرہمارے اشارات و تحقیقات کو نہایت عمدہ طریقے سے جمع کیا ہے جدید ذہن کے لیے ظفر اقبال صاحب کی یہ سادہ مختصر اور نہایت مدلل و موثر تحریر ہے علماء کو بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔
ہمارے عزیز شاگرد ظفر اقبال نے جب فلسفے اور سائنس کے مباحث ہماری نگرانی میں پڑھنے شروع کیے تو شروع میں ایک سال تک عقل کی فوقیت کے بارے میں وہ بہت اونچی رائے رکھتے تھے مباحثہ مذاکرہ ہوتا تو وہ عقل کی حمایت میں بہت سے دلائل اور جوابات پیش کرتے عموماً ان کے دلائل معتزلہ یا جدید معتزلیوں سے مستعار ہوتے جیسے سرسید، عبدہ، افغانی، شبلی ،خدا بخش، امیر علی، فیضی ،اصغر علی، انجینئر، وحید الدین خان، یوسف قرضاوی، مصر کی جماعت وسطانیہ، ملیشیا کی سسٹر آف اسلام، ایران کے عبدالکریم سروش، علی شریعتی ، آیت اللہ مطہری،غامدی وغیرہ وغیرہ ایک دن راقم نے انھیں ہدایت کی کہ المعجم المفہرس للفاظ القرآن میں قلب ،عقل ،فواد اور اس کے مترادفات سے متعلق تمام آیات پر وہ پورا دن تدبر و تفکر فرمائیں پورا دن گزر گیا دن کے اختتام پر راقم نے عقل کی محدودیت کا فلسفہ اس فلسفے کے دلائل، عقلیت پرستی پر تنقید کے دلائل اور عقلیت پرستی کے حوالے سے نصوص قرآنی اور اسلامی تاریخ سے چند واقعات ان کی خدمت میں پیش کیے اور ان کے عقلی استدلالات کا تجزیہ پیش کیا، تب ظفر اقبال صاحب کو عقلیت کی حقیقت ماہیت اور حیثیت کا بخوبی اندازہ ہوا ہمارا وہ خطبہ اور اس میں پیش کردہ واقعات اب ان کی کتاب میں ’’عقلی موشگافیوں اور دینی مزاج ‘‘کے عنوان سے جمع کردیے گئے ہیں وہ باب غامدی صاحب کی خدمت میں بھی پیش کیا جارہا ہے امید ہے وہ توجہ فرمائیں گے:
یہ خیال کہ روشنی اور اندھیرے میں فرق صرف عقل کی بنیاد پر ممکن ہے۔ عقل سلیم اور نقل صحیح میں کوئی تضاد ممکن نہیں۔ عقل اگر خالص ہو تو وہ اسی نتیجے پر پہنچتی ہے جس نتیجے پرانسان نقل کے ذریعے پہنچتا ہے، پیغمبر ظاہر[انبیاومرسلین] جس منزل پر لے جاتے ہیں پیغمبر باطن[ عقل] بھی اسی منزل کی طرف رہنمائی کرتی ہے ــــ درست نہیں۔ اگر عقل ہی خیر و شر کو جانچنے کا پیمانہ ہے ، تو کیا عقل کو بھی جانچنے کا کوئی پیمانہ ہے ؟ یا عقل کو جانچنے کا پیمانہ محض عقل ہے، اگر عقل کو جانچنے کا پیما نہ خود عقل ہی ہے تو پھر عقل کو جانچنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ با لفاظ د یگر اگر عقل کو جانچنے کا پیمانہ اس کے اندر، یعنی عقل، سے ہی نکلتا ہے، اگر وہ خود ہی پیمانہ ہے تو اسے پرکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ خیال کہ حسیات سے ورا عقل کچھ نہیں کرسکتی ،یعنی وہ عقل کا دائرہ نہیں تو پھر حسیات سے متعلق امور میں اگر اختلاف ہو تو فیصلہ کون کرے گا؟ عقل یا وہ مابعد الطبیعیات جو عقل سے ماورا ہے۔
عقلیت کی تحریک ان خطوں سے اٹھی جہاں انبیا کی تعلیمات بالکل معدوم ہوگئیں، عقل کے طالب عقل کی حدود کو نظر انداز کر کے category mistake کرتے ہیں ۔ عقل مقاصد کا تعین نہیں کرسکتی لہٰذا قرآن و سنت کے طے شدہ مقاصد کے لیے عقل جب کام کرتی ہے تو یہ سرگرمی اجماع و اجتہاد کی صورت میں ظہور کرتی ہے ۔عقل کے استعمال سے پیدا ہونے والے فطری اختلافات کا حل اجماع اور مسلک جمہور ہے۔ جس طرح بائبل اور قرآن میں تقابل بہ ظاہر عقل کے ذریعے ہوتا ہے، لیکن عملاً یہ تقابل نقل کے منہاج میں ہوگا ، عقل یہاں ایک ذریعہ وسیلہ ہوگی جس طرح زبان بھی اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ قرآن و بابئل کا تقابل کرنے کے لیے پہلے قرآن پر ایمان لانا ہوگا پھر اس ایمان کی دلیل عقل کے ذریعے بیان ہوگی،یعنی پہلے ایمان ہے پھر عقل۔ عقل ایمان کے تابع ہے، ایمان عقل سے ماوراہے اس کا تابع نہیں۔ جو چیز یا تصور انسان کی عقل سمجھنے سے قاصر رہے تو وہ شے خلاف عقل نہیں ماورائے عقل ہوتی ہے۔ خلاف عقل ہونا اور ماورائے عقل ہونا دو مختلف نقطۂ ہائے نظر ہیں جن کے نتائج یک سر مختلف ہوتے ہیں ، کسی شے اور وجود کا عقل سے ماورا ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ وہ شے وجودہی نہیں رکھتی اسی لیے اصول یہ ہے کہ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔ قرآن ہمیں عقل کے ذریعے نہیں، مشاہدے اور تجربے کے ذریعے نہیں، بلکہ نقل کے ذریعے ملا ہے، رسالت مآ ب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ قرآن کتاب اللہ ہے تو ہم نے تسلیم کیا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کے بارے میں براہ راست کچھ نہیں بتایا اس ایمان کو بلا شبہہ عقلی دلائل سے ثابت کیا جاسکتا ہے لیکن یہ نقل کا اثبات ہے بہ ذریعۂ عقل۔ عقل ہمارے ایمان کی دلیل مہیا کرتی ہے صرف دلیل سے ایمان مہیا نہیں ہوتا، دلیل عقل کی رہنمائی کر دیتی ہے لیکن قلب کی ہدایت یا قبولیت کے بغیر عقل کی رہنمائی کار آمد نہیں رہتی۔ عقل مان لیتی ہے دل نہیں مانتا، دلیل قلبی کے بغیر دلیل عقلی بے معنی ہے اسی لیے ایمان تعقل قلبی کا نام ہے۔ قرآن نے عالم وعاقل اوراہل فکر اس کو قرار دیا جو الحق اور الکتاب کو قبول کرے، جو اس کو رد کر دے وہ کم عقل، جاہل، ظالم اور شر الدواب ہے لہٰذا عقل کو پرکھنے کا پیمانہ قبولیتِ ایمان ہے جو عقل ایمان قبول نہ کرے وہ عقل نہیں جہل ہے۔ عقل کے استعمال کا لازمی نتیجہ ایمان ہے، عقل کا واحد نتیجہ عبدیت کا اقرار یعنی سجدہ ہے ،عقل کی اصل شکل بندگی اور حالت سجدہ ہے۔ اسی لیے قیامت کے دن وہ لوگ سجدہ نہ کرسکیں گے جو دنیا میں نعمتِ سجدہ سے محروم ہے:
[pullquote]یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِِلَی السُّجُوْدِ فَلاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ O خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّۃٌ وَقَدْ کَانُوْا یُدْعَوْنَ اِِلَی السُّجُودِ وَہُمْ سٰلِمُوْنَ [۶۸:۴۲،۴۳] [/pullquote]
دین میں قیاس اور اجتہاد اصلاً تدبر اور تفکر فی القلب ہے، عقل کلی، بصیرت تامہ کا نام ہے، محض خیال آرائی کا نام نہیں ۔یہ محض کوئی تخلیقی، علمی، تحقیقی اور عقلی سرگرمی نہیں بلکہ روحانی عمل ہے جس کا مقصد ہر عہد میں روح کی حفاظت ہے۔ یونانی عقلیت اپنے دورِ زوال میں ارسطو کے ذریعے ابدیت دنیا کے نتیجے پر پہنچی لہٰذا یونان میں حقیقت کے علم کی سرگرمی نے آخر کار صرف اس دنیا کے علم کو ہی اصل علم قرار دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ، ارسطو کے زیر اثر مغربی فلسفہ آخر کار حقیقت کے سوال سے ہی دستبردار ہوگیا ۔ ایک ہی عقل مختلف لوگ استعمال کرتے ہیں تو نتیجہ ایک نہیں نکلتا مختلف ہوجاتا ہے کیونکہ ہیوم کے مطا بق عقل جذبات کی غلام ہے: Reason is the slave of Passionبا لفاظ دیگر عقل نفس امارہ کی غلام ہے۔ عقل اگر کبھی کسی درست نتیجے پر پہنچ بھی جاتی ہے تب بھی اس درست نتیجے کو تسلیم کرنے سے قاصر رہتی ہے کیونکہ اس درست نتیجے کی تصدیق کا پیمانہ بھی عقل خود ہی ہے،یعنی عقل خود نتیجہ قائم کر کے اس نتیجے کو عقلی یا جذباتی بنیاد پر قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ اور نمرود کے اہلکاروں کا مکالمہ قرآن میں بیان ہوا ہے کہ وہ حضرت ابراہیمؑ کی دلیل سے مطمئن ہوگئے کہ اگر یہ بت بول سکتے دیکھ نہیں سکتے تو تم ان کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ مگر اگلے ہی لمحے وہ بولے کہ یہ ہمارے باپ دادا کے طریقے سے ہٹانا چاہتا ہے اگر عقل خود ہی مقصد ہے، مقاصد کا تعین خود ہی کرسکتی ہے تو پھر عقلی کوشش کے نتیجے میں جو بھی عمل سرزد ہوگا وہ عقلی ہی ہوگا۔مسلّمہ اصول ہے کہ پیمانہ ہمیشہ باہر ہوتا ہے لیکن عقلیت کو پرکھنے کا پیمانہ عقلیت ہی ہے، یعنی انسان کے نفس میں پنہاں ہے لہٰذا نفس ہی حقیقت مطلق ہے۔ عقلیت کو دوام نہیں وہ ہر لحظہ بدلتی ہے جب کہ پیمانہ مستقل ہوتا ہے ۔ اگر کسی فیصلہ کی بنیاد صرف عقل ہے تو فرقان، منہاج، کسوٹی، عقل ہی ٹھہری لہٰذا عقل کبھی بھی ایمان سے دستبردار ہوسکتی ،کہ عقل تو ارتقا کا نام ہے، یہ تغیر اور تنوع ہے۔ کانٹ کہتا ہے کہ [Believe in Reason] عقل اور دلیل پر ایمان لائو ، لیکن سوال یہ ہے کہ خودعقل پر ایمان لانے کی کیا دلیل ہے؟ کانٹ کے مطا بق دلیل یہ ہے کہ یہ آفاقی سچ ہے، مگر اس کا ثبوت کیا ہے؟ ظاہر ہے ایمان کی دلیل نہیں ہوتی عقل پر ایمان لائو کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ اپنے نفس اوراپنے آپ پر ایمان لائو، کیونکہ علم کا ماخذ تو عقل ہے جو انسان کے پاس ہے لہٰذا انسان خود اپنے آپ کی پرستش کرے، اپنی ہی عبادت کرے کسی دوسرے کی عبادت نہ کرے۔ کیوں کہ عبادت اس کی کی جاتی ہے جس کے پاس علم ہوتا ہے اور علم صرف انسان کے پاس ہے اسی لیے کانٹ کہتا ہے کہ انسان اپنے سوا ہر مقتدرہ [authority]کا انکار کر دے۔ روایتی، الہامی اور دینی تہذیبوں میں اسی لیے ایمان عقل کے تابع نہیں عقل ایمان کے تابع ہے، مغرب میں عقل ماخذ علم [Source of knowledge] ہے۔ اسلام میں عقل محض ذریعۂ علم، ہتھیار اوراوزار ہے۔ عقل مقصد کا تعین نہیں کرسکتی، کسی متعین مقصد کے لیے وسیلے اور آلے، کا کام انجام دے سکتی ہے۔ عقل اپنے منہاج میں نتائج اخذ کرتی ہے اسی لیے اگر آپ جدیدیت کے منہاج میں کھڑے ہوں گے تو اس کے دعوے آپ کو عقلی لگیں گے لیکن اگر آپ مذہبی منہاج میں آجائیں تو مذہب کے عقائد، اعمال عقلی لگیں گے عقل محض زماں و مکاں سے ماورا نہیں ہوسکتی ، عقل محض معروضی [Objective] نہیں ہوسکتی وہ موضوعی [Subjective] رہتی ہے۔ عقل زمان و مکان سے اٹھا سکتی ہے مگر اس ماورائیت پر دوام عطا نہیں کر سکتی ،صرف عقل سے علم، الحق اور الکتاب نہیں ملتے بلکہ اس میں جذبات، وجدان، طلب، ہدایت، حواس، کوشش سب مل کر کوئی نتیجہ پیدا کرتے ہیں یہ مغرب کا المیہ ہے کہ اس نے ارسطو سے متاثر ہو کر انسان کو صرف عقلیت کے دائرے میں محصور ومقید اور محدود کر دیا۔ اگر محض عقل اور فطرت ،ہدایت، فلاح، کامیابی کے لیے کافی ہوتے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے بعد کہ شجر ممنوعہ کے پاس مت جانا، حضرت آدمؑ کبھی تشریف نہ لے جاتے ان کی فطرت بالکل محفوظ اور عقل ہر داغ سے خالی تھی وہ شر اور گناہ کے تصور سے ماورا،مصفّٰی و منزہ عقل و فطرت تھی، مگر جب ہدایت ربانی [نقل] کی موجودگی میں فطرت و عقل کو ذریعۂ علم تصور کرنے اور اس پر اعتماد کرنے کی خطا سرزد ہوئی تو عقل دستگیری نہیں کرسکی صرف توبہ کام آئی اورحضرت آدمؑ نے اللہ رب العزت سے کلمات توبہ سیکھ کر عقل و نفس کی غلطی کی معافی طلب کی:
[pullquote]وَ قُلْنَا یٰاٰ دَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنْھَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لاَ تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ O فَاَزَلَّھُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْھَا فَاَخْرَجَھُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ وَ قُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌ وَ لَکُمْ فِیْ الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلیٰ حِیْنٍ O فَتَلَقَّیٰ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ اِنَّہ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ [۲:۳۵ تا ۳۷][/pullquote]
شیطان نے عقلی استدلال پیش کیا تھا لافانی زندگی اور لافانی سلطنت ایک فانی انسان کے لیے۔
قرآن میں جہاں جہاں ایسے بیانات ہیں جو ذہن انسانی کی دسترس سے باہر ہیں ان کا مقصد سائنسی تحقیق و ترقی نہیں بلکہ اہل ایمان کے ایمان میںاور اہل کفرکے کفر میںاضافے کے لیے ہیں، ان بیانات کو سائنسی تحقیقات سے جوڑ کر خواہ مخواہ غلط سلط سائنسی نتائج کی میزان پر کسَنا معذرت خواہانہ جدیدیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
جدیدیت پسند مسلم مفکرین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عقلی دلائل سے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن محدود عقل قدم قدم پر ٹھوکر یں کھاتی ہے۔ عہد حاضر کے جدید ذہن کو، جو علمی موشگافیوں کا ماہر ہے، نت نئے سوالات سوجھتے ہیں یہ سوالات تحصیلِ علم، حصولِ معلومات، راہِ ہدایت کی طلب، علم میں اضافے اور استفسار کے لیے نہیں ہوتے بلکہ اعتراض، ہجو، تضحیک، تنقید محض اور وہ بھی بلا علم، اس کا مقصد دینی تعلیمات و افکار پر کسی نہ کسی طرح کوئی عقلی اعتراض وارد کرنا ہوتا ہے۔ عہد حاضر کے جہلا کے سوالات کا جواب دینے کا طریقہ وہ نہیں ہے جو عالم آن لائن ِکے معروف فنکار اور ان کے منتخب کردہ نو آموز جدید علماء اختیار کرتے ہیں اور دین کو رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر سوال کا جواب دینا پاگل پن ہے جہلا کے سوالات کے جواب میں ہمہ وقت تیاررہنا اور جواب دینا خود جہالت ہے، وہ شخص عالم کہلانے کا مستحق ہی نہیں جو لا ادری کہنا نہیں جانتا یا کہتے ہوئے ہچکچاتا ہے علم بحر بے کراں ہے جو شخص ہر سوال کا جواب دینے کے لیے ہمہ وقت آمادہ ہے بلا شک و شبہہ جید جاہل ہے اور تمام ٹی وی پروگرام ان جید جہلاء کی جہالت سے منور ہیں اس’’ منور اندھیرے ‘‘سے نکلنے کے کئی طریقے ہیں مثلاً :
[۱] اگر عالم دین کو سوال کا جواب معلوم نہیں ہے تو واضح طور پر لا ادری کہہ دے یا کہہ دے کہ میں نہیں جانتا اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے الفاظ میں ایسا کہنا نصف علم ہے ،ایک شخص نے حضرت مالکؒ بن انس سے ایک مسئلہ پوچھا اور کہا کہ ان کی قوم نے آپ سے یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے مجھے ایک ایسی جگہ سے بھیجا ہے جس کی مسافت یہاں سے چھ ماہ کی ہے آپ نے کہا جس نے بھیجا ہے اس سے جا کر کہہ دینا کہ میں نہیںجانتا ،اس شخص نے شکوہ کیا کہ اگر آپ نہیں جانتے تو پھر اس مسئلے کو کون جانے گا فرمایا اسے وہ جانے گا؟فرمایا اسے وہ جانے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اس کا علم دیا ہے، ملائکہ کہتے ہیں: [pullquote]لا عِلمَ لَنا اِلَّا مَا علَّمتَنا[/pullquote]
ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔علم کے کوہِ گراں کی عاجزی کا اندازہ کیجیے۔
امام مالکؒ سے اڑتالیس مسئلے پوچھے گئے جن میں سے تیس کے جواب میں آپ نے فرمایا:لا ادری [میں نہیںجانتا]۔ خالد بن خداش سے روایت ہے کہ انھوں نے بتایا میں چالیس مسائل پوچھنے کے لیے عراق سے امام مالک کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو صرف پانچ کے جوابات آپ نے دیے۔ امام مالکؒ اس راز کو جانتے تھے کہ جب عالم لا ادری نہ کہنے کی غلطی کرے تو وہ ہلاکت کی جگہ پہنچ جاتا ہے ۔ امام مالکؒ سے روایت ہے ان سے عبداللہ بن یزید بن ہر مزؒ نے روایت کی کہ عالم کو چاہیے کہ اپنے ہم نشینوں کو لا ادری سکھائے تاکہ ان کے ہاتھ میں ایک ایسی اصل اور ٹھکا نہ ہو جہاں وہ پناہ لیں، اور ان سے جب کوئی ایسی بات پوچھی جائے ، جسے وہ نہیںجانتے تو لاادری کہہ دیں۔ حضرت ابو درداء ؓسے صحیح روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا لاادری [میں نہیں جانتا] کہنا نصف علم ہے۔اسی لیے امام غزالیؒ نے مناظرے کی مذمت کی ہے اوراس کے لیے کڑی شرائط رکھی ہیں کیونکہ مناظرے کا مر وّ جہ ماحول اور اسلوب، الا ماشا ء اللہ ، لا ادری کہنے کی صلاحیت سلب کرلیتا ہے یہ حق کے دروازے بند کرنے کا راستہ ہے۔
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کی روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ اس مسجد [مسجدِ نبوی] میں ایک سو بیس صحابہ کو میں نے پایا کہ ان سے کسی حدیث یا فتوے کے بارے میں پوچھا جاتا تو ان کی خواہش و کوشش ہوتی کہ کوئی دوسرا بھائی ہی اسے بتائے اور بالفاظ دیگر کسی سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ دوسرے کے پاس بھیجتے اور وہ کسی دوسرے کے پاس۔ اس طرح سائل گھومتے ہوئے پھر اس شخص کے پاسں پہنچ جاتا جس سے پہلی مرتبہ اس نے سوال کیا تھا ۔ ۱ ؎ ۱؎ [اتحاف السادّۃ المتقین ،جلد ۱ صفحات۲۷۹-۲۸۰ ۔]
[۲] اگر سائل صرف تنقید کے لیے بغیر علم کے سوال کررہا ہے یا مقصود دین یا دینی روایت کی تحقیر، تضحیک اور توہین ہے یا اپنے علم کا غرّہ ،تو ایسے سائل کا براہ راست جواب دینے کے بجائے اس سے پوچھا جائے کہ آپ سائل ہیں یا ناقد ؟ آپ استفسار کرنے آئے ہیں یا اعتراض وارد کرنے؟ مقصود حصول علم ہے یا مباحثہ؟ اگر سائل ہو تو سوال کے آداب سیکھ لو اور اس کے بعد سوال کرو، اگر معترض اور ناقد ہو تو تمھیں علوم دینیہ پرعبور ہونا چاہیے تاکہ اصولوں کی بنیاد پر اعتراض وارد کرسکو اور ہمارے سوالات کے جواب دے سکو۔ مثلاً ایک ناقد نے سوال کیا کہ قرآن میں شرابی کے لیے کوڑوں کی سزا بیان نہیں ہوئی لہٰذا میں فقہا کی سزا کو نہیںمانتا کیونکہ اصل ماخذ تو قرآن ہے؟ایسے ناقد سے پوچھا جائے کہ آپ قرآن کو عربی میں سمجھ سکتے ہیں؟ چند آیات پڑھ کر اس کا امتحان لے لیا جائے کیا آپ نے تمام قرآن پڑھ لیا ہے؟ علم تفسیر حاصل کرلیا ہے؟ قرآن سے اخذ احکام کے اصول پڑھے ہیں؟ کن کن تفاسیر کا مطالعہ کیا ہے؟ اور عربی، انگریزی اور اردو میں کون سی تفاسیر اور احادیث کے مجموعے پڑھے ہیں؟اس سے عربی قواعد کے کچھ اصول ماضی اور مضارع کی گردان وغیرہ پوچھ لی جائے۔ پھر پوچھاجائے کہ ایمان آپ نے کس ذریعے سے حاصل کیا کہ اصل ماخذ قرآن ہے سنت نہیں؟ اس ماخذ پر نقدو جرح کیجیے پھر اس سے اصول بحث طے کرلیجیے کہ احکامات و قوانین کا ماخذ محض قرآن ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا ماخذ نہیں تاکہ اسے ایک ہی موقف پر رکھ کر گفتگو کی جائے، اس سے پوچھا جائے کہ قرآن کو ماخذ کس کی سند پر مانا گیا ہے؟ کیا قرآن کے کلام اللہ ہونے کی شہادت خود اللہ نے تمھیں دی ہے یا یہ تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پہنچی ہے؟ تو پہلے تم رسول اللہ پر ایمان لائے تھے یا قرآن پر؟ تو رسول پر ایمان مقدم ہے یا قرآن پر؟ اس تقدیم و تاخیر کا حکم کس نے دیاہے اللہ تعالیٰ نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ؟ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے تو اختلاف میں حکم کون ہوگا رسول اللہ یا کلام اللہ ؟یا دونوں؟ یا کلام اللہ بذریعہ رسول اللہ ؟اس کے بعد وہ تمام احکامات پوچھ لیے جائیں جو قرآن میں درج نہیں ہیں لیکن پوری امت کا جن پر اجماع ہے مثلاً اذان، نماز جنازہ، عورت کے ایام حیض میں روزوں کی قضاء وغیرہ وغیرہ۔
ایک سائل نہایت بد تمیزی سے ایک عالم پر حملہ آور ہوا، عالم نے اس کے اعتراضات،ہجو، بد تمیزی کے جواب میں کمال تحمل سے پوچھا آپ سائل ہیں یا واعظ یا ناقد؟ کہنے لگا اس کا کیا مطلب؟ انھوںنے کہا آپ کچھ پوچھنا چاہتے ہیں ؟یا مجھے کچھ بتانا چاہتے ہیں یا سنانا چاہتے ہیں یا تنقید کرنا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا پوچھنا چاہتا ہوں، فرمایا اگر سائل ہو توپہلے سوال کرنے کا ادب سیکھو! اس نے کہا میں ناقد ہوں کہا تو اعتراض کرنے کے لیے علم چاہیے ، آپ کے اعتراض اسلام پر ہیں لہٰذا یہ بتائیے کہ کیا آپ نے دینی علوم سیکھے ہیں؟کیونکہ اعتراض کے لیے علم ضروری ہے اور تقلید کے لیے جذبۂ اطاعت اور اپنے جہل کاادراک اور اعتراف کہنے لگا میں دینی علوم سے واقف ہوں عالم نے چند سوال پوچھے جواب نہ دے سکا، انھوں نے کہا اچھاآپ اردو تو یقیناً جانتے ہوں گے، کہنے لگا ظاہر ہے میں اردو بول رہا ہوں، ویسے میں بہت عمدہ اردو جانتا ہوں، کہا اگر تم اردو میں مہارت رکھتے ہو تو ہم تم سے بات کریں گے اور تمھارے اعتراضات ضرور سنیں گے کیونکہ زبان کا علم اہم ہوتاہے اور زبان اظہار علم کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے، کہنے لگا میرے ہمیشہ اردو میں اسّی نمبر آئے ہیں، عالم نے کہا اردو الفاظ میں زیر زبر کا فرق بتاسکتے ہو؟ کہنے لگا ہاں! اسے شعر لکھ کر دیا کہ زیر زبر لگادو یا صحیح تلفظ سے شعر پڑھ دو:
کئی گزرے سَن، تیرا کم تھا سِن، کہ لیے تھے سُن تیرے گھونگرو
کبھی باجے چَھن، کبھی باجے چِھن، کبھی باجے چُھن تیرے گھونگرو
وہ زیر زبر کا فرق تلفّظ سے ادا نہ کرسکا، عالم نے کہا اچھا لفظ تلفظ کو صحیح مخارج سے ادا کرو، وہ اس پر بھی قادر نہ تھا اس نے تل الگ کہا اور فظ الگ تشدید بھول گیا۔
عالم نے کہا بیٹے نہ علوم اسلامی جانتے ہو، نہ اردو جانتے ہو، نہ علم سے تعلق ہے اور تنقید ایسے کرتے ہو جیسے سب علوم سے واقف ہو یعنی بحر العلوم ہو۔ تم سے کیا بات کی جائے. سائل نے کہا آپ کچھ اور پوچھ لیں ان شاء اللہ صحیح جواب دوں گا، انھوں نے کہا اچھا مختلف الفاظ کا فرق بتاؤ جو بہ ظاہر ایک جیسے لگتے ہیں آواز میں بھی تلفظ میں بھی اور ایسے الفاظ جن کی آواز یکساں ہے یعنی سننے میں ایک جیسے لیکن تحریر میں الگ ہیں مثلاً بَر، بِر، بُرکا فرق بتاسکتے ہو؟ باز اور بعض، باد اور بعد، معاش اور ماش، خال اور خال، جال اور جعل، لعل اورل ال، ابر اور عبر، مہر اور مُہر، بحر اور بہر، سحر اور سحّر، سطر اور ستر، خطرہ اور قطرہ، آج آنا اور آجانا، آم اور عام، بام اور بام، دام اور دام، نام اور نعم، حمل اور حمل، طَور اور طُور، بیر اور بَیر، پیِر پَیر اور پیر، سِیر سیَر اور سَیر اور سیر، تیر اور تَیر، دراور دُر، گَرگُر اور گِر، چَر چُر اور چِر، سَر سِر اور سُر، تہہ اور طے، ماہ اور ماہ، بار اور بار، نال اور نعل، زیر زبر پیش کے ساتھ بال بعل اور بال، رم اور رَم، مرثیہ اور ہرسیہ، حال اور ہال، ڈال اور ڈال، دِل دَل، مِل مَل، مت و مت، لُعاب اور لعَب، بَن بِن بُن اور بن، دھن اور دُھن، گھِن، گھُن اور گھن، بھِن اور بُھن، بِین، بَین، بیّن اور بین، خط اور قط، قِسط اور خِسّت، منشور اور منثور، جُوں اور جوں، جون اور جُون، گو اور گُو، کَل، کَل، کِل، کُل، کلی، کُلی، کُلی، دَم دُم، بم بم، تار اور تار محَل اور محِل، لو اور لَو، لُو، کے اور کَے، آر اور عار، ظن اور زن، بیِت بیت اور بیعَت۔ میت، معیت اور مَیّت ، سَت اور سُت، بَد اور بِد، بس بِس، تاخت اور تخت، غَل اور غُل ، رجس اور رَجز، گِن اور گُن، تن اور تُند، تان اور طعن، کِن اور کُن، لعان اور لعن ، جام اور جام، مطلع اور مُطلّع ، مقطّع اور مُقطع، جہل اور جُہل، عاصم اور آثم، ٹال اور ٹال، گُل گِل اور گَل، تَل تِل، اور تُل ، بَل اور بل، بلا، بِلا، بلاّ، بَلاّ، گھوٹ اور گھونٹ، اوٹ اور اونٹ، کَش اور کُش، جَل اور جُل، دم اور دُم، کِل کَُل اور، دَیر اور دیر، ٹھٖر اور ٹھر، مَیل مِیل اور میل ، ہول ہول، اَب اور اب ،بیل بَیل ، بانٹ، باٹ، ڈاٹ اور ڈانٹ، کَٹ اور کِٹ اور کُٹ، شِیر، اور شیر ،ذم اور ضم ،چین اور چَین، انس اور اُنس ، چخ اور چق، شکر اور شُکر، قسم اور خصم، صرف اور سرف ، بست اور بسط، ملت او رملط، ملک مُلک اور مَلک، تَلک اور تلّک، کِشت اور کُشت ، حَسین اور حسین ، خلا اور خلع، عین اور عین، طلاء، تلا، تلا، تُلا اور تِلاّ، مِل اور مَل، قاصر اور خاسر ، بسر اور بصر، نصر اور نثر ، نخل اور نقل ، قصر اور خسر ، بطر اور بتر ، عقل اور اقل، بَط اور بت، شور اور شور، صَر اور سَر، عصر اور اثر، چُہل اور چَہل، صم، سُم، سِم، کانچ اور کانچ، اُتر اور عطر، بھیڑ اور بھیڑ، بھِڑ اور بھڑ ،
عالم نے اپنی گفتگو کا لب و لہجہ بالکل دھیما رکھتے ہوئے ناقد کی علمیت کی حقیقت چند سوالات میں واضح کردی اس کی جہالت کو واضح کرنے کے بعد دلائل کی ضرورت ہی نہیں رہی، پھر اسے ہدایت کی چونکہ تمھیں ان امور کا علم نہیں لہٰذا تم ناقد نہیں بن سکتے، البتہ مقلد بن سکتے ہو کیونکہ جو نہیں جانتے وہ کسی جاننے والے سے پوچھ لیں اور پوچھ کر اہل علم کی تقلید کریں، دنیا میں یہی طریقہ ہے. اگر نقد کرنے کا شوق و ذوق ہے تو اس کے لیے دینی علوم کی تحصیل کیجیے، پھر مباحثے کے لیے تشریف لائیے۔
[۴]اسی طرح ایک ناقد اور معترض نے سوال کیا کہ کیا خدا کوئی ایسا پتھر بنا سکتا ہے جسے خود نہ اٹھا سکے؟ اگر سوال کا جواب ہاں میں ہو تب اگر نفی میں ہو تب خدا کی شان ان اللہ علی کل شئی قدیر کو زک پہنچانا مقصود تھا، عالم نے سائل سے پوچھا کیا تم خدا کو مانتے ہو؟ اس نے کہا ہاں؟ پوچھا خدا کو تم نے کس ذریعے سے پہچانا؟ اور کس ذریعے سے مانا؟ اس نے کہا دین اسلام کے ذریعے؟ پوچھا تم دین اسلام کو مانتے ہو؟ اس نے کہا ہاں، پوچھا کتنے فی صد مانتے ہو؟ اور کیوں مانتے ہو؟ اور کس کے کہنے سے مانتے ہو؟ کہنے لگا سو فی صد مانتا ہوں، انھوں نے پوچھا اگر سو فی صد مانتے ہو تو یہ بتاؤ کہ ذات و صفات خدا وندی میں تدبر و تفکر کی حدود تمھارے دین نے کیا متعین کی ہیں؟ اس نے کہا میں نہیں جانتا تو کہا پہلے ان حدود کو جان لو پھر سوال کرنا۔ چند روز کے وقفے کے بعد اس نے رابطہ کیا اور عرض کیا کہ میں خدا کو نہیں مانتا سوال کے لیے سنجیدگی، لگن اور تڑپ شرط لازم ہے، عالم نے جواب دیا جب تم خدا کو ہی نہیں مانتے تو تمھارا سوال محض ذہنی مشق ہے اور دین ذہنی ورزش کے لیے نہیں آیا لہٰذا سوال کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ اس قسم کے سوال عموماً منطق اور ذہنی مشقت کے ذریعےگھڑ لیے جاتے ہیں۔ جو لوگ بہ ظاہر خدا کا انکار کرتے ہیں اصلاً خدا کے منکر نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں سے بحث و مباحثے کے بجائے محبت کا رویہ اختیار کیا جانا چاہیے، ایسے افراد کے ساتھ دلائل کے بجائے اخلاق کے اعلیٰ ترین رویے سے پیش آنا ضروری ہے، ان کے اندر موجود خیر کو ابھارنا ضروری ہے، نہ کہ بحث حجت کرکے ان کے قلب میں موجود کفر کی کونپل کو تناور درخت میں تبدیل کردیا جائے۔ ایسے لوگوں سے دلیل، حجت بازی اورقیل و قال میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے، ممکن ہے وہ اپنے کفر میں اتنا آگے بڑھ جائیں کہ دین سے منحرف ہونے کا اعلان کردیں ایسے لوگوں کی خاطر داری اور تالیف قلب کے لیے کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھنا چاہیے، یہ وہ لوگ ہیں جو دلائل کی تلوار سے نہیں محبت کی یلغار سے گھائل ہوتے ہیں۔ انھیں خبر کی نہیں نظر کی ضرورت ہے، ان کے ذہن اور دماغ کو نہیں قلب کو پکار نے اور ان کے دروازۂ دل پر دستک دینے کی ضرور ت ہے۔ایسے افراد کو نہایت تعظیم ،اکرام اور خاطر تواضع کے بعد کبھی رات کے وقت سیر کراتے ہوئے قبرستان تک لے جایئے اس وادیٔ خاموش میں پہنچ کر بڑے بڑوں کا دل دہل کر نرم ہو جاتا ہے اور خدا یاد آجاتا ہے :
کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر
کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آگیا
ملحدین اور دین بے زار لوگوں سے بحث و مباحثے کے بجائے یہ رویہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کسی بات کو کسی پر مسلط کرنا یا مرعوب و مغلوب کرنا یا عاجز و قاصر کر دینا کمال نہیں ہے، فرد کو لاجواب کرنے اور اس کے ذہن کو معطل کرنے کے بجائے اس کے قلب کو فتح کرنے کی حکمت ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے، مناظرانہ دلیل سے فرد خاموش اور مغلوب ہو سکتا ہے مگر متاثر و مفتوح نہیں ۔ دلیل کا مقصد شکست دینا نہیں قلب میں جذبۂ قبولیت پیدا کرنا ہے، قلب کو بدلنا اصل ہدف ہونا چاہیے۔ اس کے لیے امام مالکؒ جیسے تحمل ،صبر، حوصلے اور عمل کی ضرورت ہے۔ امام مالک نے حدیث و افتاء کی بیش بہا خدمت کی اور مؤطا جیسی گرانقدر کتاب تالیف فرمائی ،جس میں اہل حجاز کی قوی احادیث اور مستند اقوال صحابہ و فتاویٰ تابعین جمع کردیے اور اس کے بہترین فقہی ابواب قائم کیے۔ مؤطا آپ کی چالیس سالہ جاں فشانیوں کا ثمرہ ہے۔اسلام میں حدیث و فقہ کی یہ سب سے پہلی کتاب ہے۔ستر معاصر علمائے حجاز نے بھی اس کی تائید و موافقت فرمائی۔اس کے باوجود خلیفہ منصور نے جب اس کے چند نسخے کرا کے دوسروں شہروں اور ملکوں میں بھیجنے کا ارادہ کیا تاکہ لوگ اس فقہ پر عمل کریں اور پیدا شدہ اختلافات ختم ہو جائیں تو سب سے پہلے آپ نے اس خیال کی مخالفت کی اور فرمایا امیر المومنین! آپ ایسا نہ کریں۔ لوگوں تک بہت سی باتیں اور احادیث و روایات پہنچ چکی ہیں اور ہر جگہ کے لوگ ان میں سے کچھ کو اپنا چکے ہیں جس سے خود ہی اختلاف رونما ہو چکا ہے اور اب اس اقدام سے مزید اختلافات پیدا ہو جائیں گے، اس لیے انھوں نے اپنے لیے جو اختیار کرلیا ہے اسی پر انھیں آپ چھوڑ دیں خلیفہ منصور نے یہ سن کر کہا: ابو عبد اللہ آپ کو اللہ اور توفیق بخشے۔
امام مالکؒ کتنے جلیل القدر تھے جو بغیر رضا مندی کے اس کتاب پر دعوتِ عمل کا اقدام بھی نہیں کرنے دیتے جس میں انھوں نے اپنی سنی ہوئی سب سے اچھی احادیث اور اپنا محفوظ و قوی علم منتقل و محفوظ کردیا تھا جس پر اہل مدینہ اور بہت سے معاصر علماء کا بھی اتفاق تھا۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے موطا کو ریاستی سطح پر ریاست کے ذریعے رائج نہیں کیا اسی طرح گفتگو اور مناظرے میں اپنی رائے مسلط کرنے کی ضرورت نہیں۔
[۵]ایک سائل نے ایک عالم سے پوچھا ’’جو شخص بحالت احرام شکار کرے اس کے بارے میں آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ ‘‘ [شرعاً حج ادا کرنے والے شخص کے لیے شکار کھیلنا منع ہے] اس نیک سیرت اور صاحب عمل عالم نے جواب دیا: ’’آپ کا سوال مبہم اور گمراہ کن ہے، آپ کو بالصراحت بتانا چاہیے تھا کہ آیا اس شخص نے خانہ کعبہ کی حدود میں شکار کیا یا اس سے باہر کیا؟ آیا وہ پڑھا لکھا تھا یا اَن پڑھ تھا؟آیا وہ غلام تھا یا آزاد تھا؟ آیا وہ بالغ تھا یا نا بالغ تھا؟ آیا اس نے یہ فعل پہلی دفعہ کیا یا پہلے بھی اس کا ارتکاب کرچکا تھا؟ آیااس نے کسی پرندے کا یا کسی اور جاندار کا شکار کیا؟ آیا جس جاندار کا شکار کیا گیا وہ بڑا تھا یا چھوٹا تھا؟ آیا اس شخص نے دن میں شکار کیا یا رات میں کیا؟ آیا اس نے اپنے فعل سے توبہ کرلی یا اس کے ارتکاب پر بضد رہا؟ آیا اس نے چھپ چھپا کر شکار کیایا کھلم کھلا کیا؟ اور آیااس نے احرام عمرے کے لیے باندھا تھا یا حج کے لیے باندھا تھا؟ جب تک ان تمام امور کی وضاحت نہ کی جائے اس سوال کا کوئی جواب دینا ممکن نہیں ‘‘۔ہر سوال کا جواب دینے کے بجائے علماء کرام سائل سے سوالات کا سلسلہ شروع کردیں تو بہت سے جہلاء سوال کی جرات سے محروم ہو جائیں گے اور ان کا جہل واضح ہو جائیگا، جو اپنی چرب زبانی اور طلاقت لسانی سے علماء کوجاہل ثابت کرناچاہتے ہیں۔دینی سوالات کا جواب دینے اور پرچون کی پڑیا باندھنے میں بہت فرق ہے، عالم آن لائن [ALIM on Line]جیسے پروگرام میں’’ علماء ‘‘کی عجلت بتاتی ہے کہ وہ گاہک کو اپنی دکان سے خالی ہاتھ نہ جانے دیں گے اس کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی پڑیا تھمادیں گے یہی حال عصر حاضر میں ہونے والے ہمارے مکالموں، مناظروں مباحثوں اور ٹاک شو زکا ہے۔
عقلی بنیادوں پر موشگافیاں اور سوالات اٹھاتے رہنا کوئی کمال نہیں قرآن حکیم میں کفار کے ایسے سوالات موجود ہیں جو سننے والے کو پہلی مرتبہ متاثر کرتے ہیں مگر غور کرنے پر سوال کرنے والے کی خباثت نفس اور دنائت واضح ہو جاتی ہے مثلاً کفار مشرکین اور یہود کا قرآن کے اس اصرار پر کہ بھوکوں کو کھانا کھلاؤ اور اگر نہ کھلاؤ تو کم از کم دوسروں کو کھانا کھلانے کی ترغیب تو دو۔ ان کا مشترکہ جواب، دوسرے معنوں میں استفہامیہ جواب، یہ تھا کہ اگر خدا چاہتا تو بھوکوں کو خود کھلادیتا:
[pullquote]لَقَدْ سَمِعَ اللہ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوا اِنَّ اللہ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآئُم٭ سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَھُمُ الْاَنْبِیَآء بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْق[۳:۱۸۱][/pullquote]
کہتے ہیں اللہ فقیر ہے ہم غنی ہیں۔ جن کو خدا خود دنیا میں بھوکا رکھنا چاہے ان کو کھانا کھلانے کے لیے ہم سے اصرار کیوں؟ کیا خدا کے خزانے میں کسی شے کی کمی ہے؟ اس طرح کفار مردار کھانا چاہتے تھے انھیں دکھ ہوتا تھا کہ جانور مرگیا اور مال ضائع ہوگیا اس مرے ہوئے کو کیوں نہ کھایا جائے اس خواہش کے لیے انھوں نے عقلی سوال تراشا جسے انسان ذبح اور قتل کردے مار دے وہ حلال اور جسے خدا خود ماردے وہ حرام یہ تو بڑی عجیب بات ہے! ارسطو کہتا ہے کہ میں اس طرف جاؤں گا جدھر مجھے دلیل لے جائے گی لیکن یہ احمقانہ بات ہے ایک بندۂ مومن اس طرف جاتا ہے جدھر اس کا خدالے جانا چاہتا ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ میری عقل کی کیا مرضی ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ خداکی مرضی کیا ہے؟ اس کا حکم کیا ہے؟ اس کی منشاء کیا ہے ؟ اس کی رضا کیا ہے ؟وہ جو چاہے گا وہ ہوگا جدھر وہ لے جائے گا ادھر ہم جائیں گے یعنی اگر عقل اللہ تعالیٰ کی رضا کو عقلی طور پر تسلیم نہ کرے یا رضائے الہٰی کی پیروی سے انکار کردے تو وہ عقل نہیںجہل ہے۔ تقلید رضائے الہٰی کے بغیر عقل بے کار ہے۔بنیادی سوال یہ ہے کہ عقل پیمانہ ہے یا عقل کو پرکھنے جانچنے اور دیکھنے کا بھی کوئی پیمانہ ہے؟ یہ پیمانہ نفس کے اندر یعنی عقل ہی سے نکلتا ہے یا باہر ، خارجی دنیا سے آتا ہے؟ یہ ہے مسئلے کی اصل کنجی۔ دنیا کی سترہ تہذیبوں میں پیمانہ ہمیشہ باہر سے آتا تھا۔ ہر قدر، معیار اور اصول کسی بیرونی پیمانے پر جانچا جاتا تھا اور یہ پیمانہ یا روایت تھی، یا وحی الٰہی، یا دیومالا یا اساطیر ،ہر تہذیب میں عقل بھی ہوتی تھی، عدل بھی ہوتا تھا، مگر عقل اور عدل خود پیمانہ نہیں ہوتے تھے انھیں کسی اور پیمانے پر جانچا اور پرکھا جاتا تھا۔ عقل اور عدل بذاتہ حق، معیار اور اصول نہیں ہیں ان کو دیکھنے، پرکھنے جانچنے کا پیمانہ ان کے اندر نہیں ان کے باہر ہوتا ہے۔ یہ پیمانہ اس تہذیب یا مذہب کی علمیات، ایمانیات اور مابعد الطبیعیات سے نکلتا ہے۔
اسلامی تہذیب کے خوارج، اہل تشیع، معتزلہ، اہل قرآن، اور عقلئین سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ وہ عقل اور عدل کی اصطلاحات کو ہی پیمانۂ حق و صداقت سمجھ بیٹھے اور اس بنیاد پر عہد حاضر میں اہل قرآن نے سورۃ بنی اسرائیل کے احکام عشرہ کی روشنی میں عالمی متفقہ اخلاقیات کا منشور خود تخلیق فرمالیا اور یہ تصور کرلیا کہ پوری دنیا احکام عشرہ سے متفق ہے۔ انھیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ دنیا احکام عشرہ پر نہیں بنیادی حقوق کے منشور [Human Right Declaration] پر جبراً متفق کی گئی ہے۔ حق خیر اور سچائی کی واحد مسلط کردہ دستاویز صرف اور صرف یہی منشور ہے۔ اس منشور کے ہوتے ہوئے احکام عشرہ کی اخلاقیات کا روبہ عمل ہونا محال ہوجاتا ہے۔ تین سو سال کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ عقل مند کون ہے؟ یہ بات عقل بتائے گی یا کوئی خارجی بیرونی ذریعۂ علم [external knowledge] ،مثلاً ارسطو کو دنیا نے معلم اول تسلیم کیا ہے۔ تو ارسطو کے عقل مند ہونے کا فیصلہ عقل انسانی کرے گی یا کوئی الہامی متن کرے گا؟یہ ممکن ہے کہ عقل اگر تاریخ ، تہذیب ،خواہشات، خدشات اور زمان و مکان سے ماورا ہو کر معروضی طور پر کام کرے تو وہ کسی صداقت، خیر اورحق کو پالے لیکن اس بات کی تصدیق کون کرے گا کہ عقل نے جس صداقت ، خیر اور حق کو پالیا ہے وہ ٹھیک ہے، اگر اس معروضی عقل کو انسان کی عقل یا اس کے نفس کے سپرد کردیا گیا تو یہ عقل پھر معروضی نہیں موضوعی ہو جائے گی اور اس کے پرکھنے جانچنے کا پیمانہ خود عقل و نفس ہی ہوں گے لہٰذا غلط ہی ہوں گے مشرکین مکہ اور اہل کتاب نے عقل مشاہدے اور تجربے کے ذریعے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا تھا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں مگر ان کا اعتراض صرف یہ تھا کہ قرآن مکہ کے دو بڑے آدمیوں پر کیوں نازل نہ ہوا، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا نزول کیوں ہوا؟ اہل کتاب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں قبلۂ اول کعبہ کو بھی کفار اپنے بیٹے کی طرح پہچانتے تھے لیکن ان کے قلب نے عقل کے فیصلے کو قبول نہ کیا، تعقل قلبی سے وہ محروم رہے ۔ عقل ہر تاریخ، تہذیب، مذہب، معاشرت میں ہوتی ہے لیکن وہ اپنے منہاج کے مطابق عمل کرتی ہے اور اس منہاج علم میں اس عقل کا ہر فیصلہ عقلی معلوم ہوتا ہے، منہاج علم بدل جانے سے وہی عقلی فیصلہ دوسرے منہاج علم میں جہالت قرار پاتا ہے۔ یورپ و امریکہ میں اگر کوئی عورت بے لباس یا برائے نام لباس میں مردوں کی محفل میں آجائے تو وہاں کی عقلیت کے لیے یہ معمول کی بات ہوگی، عقل کا تقاضا ہوگی کیونکہ مغرب کی عقل اپنی علمیت ،آزادی اور مساوات کے عطر سے کشید کرتی ہے لہٰذا مساوات و آزادی کا عقلی تقاضہ یہی ہے ۔اس کے برعکس عالم اسلام یا روایتی دینی تہذیبوں میں کوئی عورت اس لباس میں آجائے تو وہ ذلت و رسوائی اورلعنت و ملامت کی حق دار ٹھہرے گی، اس کا معاشرتی مقاطعہ ہوگا ان تہذیبوں کا خبیث سے خبیث آدمی بھی اس رویے کی حمایت نہیں کرے گا کیونکہ ان روایتی معاشروں اور مذہبی تہذیبوں میں آزادی اور مساوات قدر بذاتہٖ معیار نہیں ہیں معیار اور قدر وحی الٰہی یا تاریخی روایات، اساطیراور دیومالا ہیں لہٰذا اس خارجی ذریعۂ علم اور منہاج کی روشنی میں یہ رویہ خدا کی مرضی کے خلاف ہے لہٰذا خالص غیر عقلی رویہ ہے جسے قبول نہیں کیا جاسکتا ۔انسان کو آزادی اس بات کی دی گئی ہے کہ وہ خدا کی اطاعت کرے ان تہذیبوں میں کپڑے پہننے کی آزادی ہے کپڑے اتارنے کی آزادی نہیں ہے۔ کپڑا کتنا پہنا جائے؟ ستر کہاں سے کہاں تک ہو؟ یہ تہذیبیں اپنی علمیت سے اصول اخذ کر کے ستر کا تعین کرتی، ہیں جب بھی اخلاقیات کی سرحدیں شروع ہوں گی آزادی کی حدود متعین ہوجائے گی ،وہ ایک خاص پیمانے، جامے اور حصار میں سمٹ جائے گی، اسے بے کراں، بے پناہ، اصول، قدر، حق کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ وہ کسی اصول حق قدر سے متعین ہوگی اس کے تابع ہوگی اس کی روشنی میں قبول اور رد کی جائے گی۔ مغرب کی عقلیت اور منہاج علم میں لذت کا تصور آزادی میں مسلسل اضافے سے مشروط ہے جس کا انحصار زیادہ سے زیادہ سرمایے کی فراہمی پر ہے۔ جس کے پاس زیادہ سرمایہ ہے وہ زیادہ آزاد ہے کیونکہ وہ زیادہ مادی لذت حاصل کرسکتا ہے ، انسان مغربی معاشیات اور فلسفے میں ایک لذت پرست جانور ہے، اس کا مقصد مسلسل اور مستقل لذتوں میں اضافہ کرتے رہنا ہے لہٰذا لذتوں کی خاطر مرد عورت جنسی اعمال میں مصروف ہوتے ہیں مگر نکاح نہیں کرتے خاندان نہیں بناتے، بچے نہیں پیدا کرتے، اولاد اور ماں باپ کو ساتھ نہیں رکھتے کہ یہ سب چیزیں انسانی لذتوں میں اضافہ نہیں ہونے دیتیں، کمی کر دیتی ہیں اور مسلسل ذمہ داریوں میں اضافہ کرتی ہیں۔ عورت اگر بچہ پیدا کرے تو درد زہ برداشت کرنا پڑے گا، بوائے فرینڈز، آوارگی، سیاحت سب ترک کرنا ہوگی۔ یہ کیسے ممکن ہے لہٰذا مغرب میں عدل اور عقل کا تقاضا لذت کا یہی تصور ہے ان کا تصور عدل و عقل لذت پرستی سے نکلتا ہے، اس کے برعکس روایتی تہذیبوں اور مذہبی معاشروں میں عدل اور عقل کا تقاضہ لذت سے نہیں حقیقت [Reality] سے متعین ہوتا ہے، یعنی علمیت مابعد الطبیعیات اور تصورات حقیقت سے برآمد ہوتی ہے، یہ تصورات ہی عقل اور عدل کا دائرہ طے کرتے ہیں، ان تہذیبوں میں زندگی اطاعت و عبادت رب سے عبارت تھی اسے روحانی لذت نفس مطمئنہ کہا جاسکتا ہے۔ ماں باپ کی خدمت اولاد کو پالنا، بچے پیدا کرنا، بچوں کی پرورش و نگہداشت عورت کے لیے آزار، مصیبت، آفت، شامت اعمال، ہلاکت اور بربادی نہیں ایک دینی فریضہ ایک غیر معمولی ذمہ داری، ایک روحانی اور نورانی ک
ام اور نفس مطمئنہ کے حصول کے مختلف ذرائع ہیں۔ یہ مغرب اور روایتی مذہبی تہذیبوں کی عقلیت اور عدل کے تصورات کا وہ نتیجہ ہے جو دو مختلف مابعد الطبیعیات سے برآمد ہوتی ہیں۔
اسلامی تہذیب و تاریخ کے تصور عقل و تصور عدل کے تحت مرد کا ایک سے زیادہ شادی کرنا، جائز کام ہے لیکن عیسائیت اور امریکہ اور یورپ کے تصور عدل و تصور عقل میں ایسا کرنا درست نہیں ہے۔مغرب میں عورت عورت سے مرد مرد سے شادی کرسکتے ہیں کیونکہ حقوق انسانی کے منشور [Human Right Declaration] کے تحت دونوں انسان [Human] آزاد[Free]برابر[Equal] ہیں اور اس منشور کی ایک شق [Right of Association] کے تحت کوئی جنس کسی بھی ہم جنس سے تعلق رکھ سکتاہے لہٰذامغرب کی عدالتوں میں ہم جنسوں کی شادیوں کو قانونی تحفظ دے دیا گیا ہے، جو اس فیصلے کو نہ مانے وہ غیر روادار [non tolerant] انسان تصور کیا جاتا ہے ۔ عیسائیت چار شادیوں کی اجازت نہیں دیتی مغرب چار سود اشتائوں سے بالرضا تعلقات رکھنے پر کوئی اعتراض نہیں کرتا زنا بالرضا مغرب میں حلال ہے۔ مذہبی تہذیبوں میں حرام ہے کیونکہ زنا شرف انسانیت یعنی عبودیت کے خلاف کام ہے اور خدا کی رضا کے برعکس رویّہ ہے لہٰذا عدل و عقل کا تقاضا یہ ہے کہ زانی کو سزا دی جائے ،روایتی اور مذہبی تہذیبوں میں نکاح نہ کرنے پر کوئی سزا نہیں ہے اور کسی کی شادی جبراً نہیں کرائی جاتی ،لیکن کسی کو زنا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ ہو، ان تہذیبوں کے تصور عدل و عقل کے مطابق شادی کرنے کی اجازت ہے زنا کرنے کی اجازت کسی حالت میں نہیں ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں بالرضا زنا کی اجازت ہے اگر جبراً کوئی زنا کرے تو زانی کے خلاف کارروائی صرف اس وقت ہوگی جب مقدمہ درج ہوگا۔ یہ مقدمہ بھی فریقین میں قابل صلح ہے اگر فریقین راضی ہوں تو سزا نہیں ملے گی، مذہبی تہذیبوں میں خدا کی رضا کے خلاف جرم کا ارتکاب یعنی گناہ کبیرہ ناقابل معافی جرم تھا خدا کی سزا کوئی انسان معاف نہیں کرسکتا ،لیکن مغرب میں ریاست اس مقدمے میں فریق نہیں ہوگی یہ دو افراد کا ذاتی معاملہ ہے جب کہ مذہبی و روایتی معاشروں میں یہ مذہبی جرم ہے اورخدا کی رضا کے خلاف ہے۔ یہ تذلیل عبدیت ہے اور مالک الملک کی ناراضگی کو دعوت دینے کا عمل ہے لہٰذا ریاست خود اس میں مدعی ہوگی، مغرب میں تو اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کے نہ چاہنے کے باوجود اس سے مواصلت کر لے تو اسے سنگین جرم سمجھا جاتا ہے اور اس جرم [marital rape] کے مجرم یعنی عورت کے قانونی شوہر کو پانچ سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے، لیکن بالرضا زنا کوئی جرم نہیں یہ عمل مغرب کی تہذیب تاریخ و علمیت میں آزادی کی وسعتوں کو چھولینے والا آسمان کا ایک نورانی ٹکڑا ہے۔ یہ مغرب کی رواداری [tolerance] ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے اس کی رضا کے خلاف اپنے نفس کے تقاضے کو پورا کر لے تو وہ مجرم ہے وہاں رواداری کا یہی مطلب ہے کیونکہ شوہر اور بیوی دو الگ وجود [separate entities] ہیں یہ فاعل خود مختار [self autonomus] ہیں لہٰذا دوسرے کی آزادی [Freedom] میں مداخلت جرم ہے کیونکہ مغرب میں آزادی اصل قدر اور حق [Real Value & Truth] ہے تمام اقدار [Values] اسی ایک قدر پر جانچی پرکھی، ناپی، تولی اور برتی جاتی ہے لہٰذا آزادی کی قدر [Value of Freedom] کو پامال کرنا مغرب میں سنگین جرم ہے ۔اسلامی تہذیب میں اصل قدر [Real Value] خدا کی رضا ہے [Will of the God]۔ خدا کی رضا، اس کی معرفت اوراس کی محبت کا حصول کیسے ممکن ہے؟ یہ علمیت اسلامی علمیات [Epistemology] بتاتی ہے جو سنت رسالت مآبؐ کے ذریعے امت تک منتقل ہوئی اور تعامل امت اور اجماع امت اس سنت کی حفاظت کرتا ہے لہٰذا اسلامی تہذیب اور مذہبی تہذیبوں میں انسان اپنی آزادی کو خدا کے سامنے رکھ دیتا ہے اور اس سے دستبردار ہو کر ارادئہ خداوندی کو اپنا ارادہ بنا لیتا ہے۔اب قدر ،پیمانہ اور منہاج قرآن و سنت ہوجاتے ہیں اس قدر [Value] کے خلاف جہاں جہاں کوئی کام ہوگا وہاں وہاں آپ کو ہدایت اور سزا دی جاسکتی ہے۔ آپ کے نفس کے مطالبے آپ کی خواہشات خدا کی مرضی کے تابع ہوں گے اللہ تعالیٰ کی غلامی شرف انسانیت ہے۔ مغرب میں یہ تصور تذلیل انسانی ہے کہ اصل خدا انسان [Human] کسی اور خدا کے لیے دستبردار ہو جائے اور کسی خارجی ذریعے [external authority] کو علم، حق، خیر،ہدایت، روشنی اور رہنمائی کا ذریعہ تصور کرے۔ کانٹ کا اہم ترین مضمون What is Enlightenment? اس اجمال کی فلسفیانہ تفصیل مہیا کرتا ہے۔
اسلامی تصور عدل و عقل کے مطابق سات سال سے پہلے بچے پر نماز فرض نہیں، سات سال کے بعد نماز نہ پڑھنے پر بچے کو سزا دی جاسکتی ہے لیکن مغرب میں بچے کے لیے سکیولر تعلیم فرض ہے اگر ماں باپ بچے کو اسکول نہ بھیجیں تو وہ جیل بھیجے جاسکتے ہیں۔ اسلام میں نشوز پر آمادہ عورت کو شوہر سزا دے سکتا ہے۔ مغرب میں اگر آپ نے اس اسلامی حکم پر عمل کیا تو جیل میں ہوں گے۔ شوہر سے سرکشی،بغاوت، گھر کے سکون اور نظم و نسق میں خلل پیدا کرنا مغرب کے فلسفے میں کوئی جرم نہیں ۔اگر آپ نے اپنے بچے پر نماز پڑھنے کے لیے سختی کی تو دوسرے کی آزادی میں مداخلت کے جرم میں آپ کو سزا بھگتنا ہوگی ،اگر آپ نے اپنی بیٹی کے کسی نامحرم لڑکے کے ساتھ جانے اورگھومنے کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی تو آپ کی آزادی اسی لمحے سلب کر لی جائے گی۔ اگر بچے پر آپ نے غلطی سے ہاتھ اٹھا لیا تو آپ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ یہ مثالیں اس لیے دی گئی ہیں کہ ہمارے اہل قرآن دوست جان لیں کہ عقل اور عدل خود معیار[Standard] ، حق[Truth] ، اصول [Principle] ، منہاج[Paradigm] پیمانہ[Parameter] قدر[Value] خیر [good] کسوٹی اور، میزان نہیں ہیں یہ کسی اور معیار پر پرکھے جاتے ہیں ،مغرب میں اس کا معیار بنیادی انسانی حقوق کا منشور، عیسائیت میں انجیل اور عالم اسلام میں قرآن حکیم و سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے ان تین مختلف مابعد الطبیعیات اور علوم ذرائع علم سے تین مختلف قسم کے تصور عدل و عقل برآمد ہوتے ہیں اور تینوں کے نتائج، طریقے، ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔
جدیدیت ماڈرن ازم کا فیصلہ ہے کہ جدیدیت پسند، ماڈرن مین، Enlightened آدمی وہ ہے جو کسی خارجی ذریعۂ علم پر بھروسا نہیں کرتا اپنے نفس اور عقل کو ذریعہ علم سمجھتا ہے اپنے سے باہر ہر ذریعۂ علم کا انکار کرتا ہے خواہ وہ وحی ہو، روایت ہو، اساطیر یا تاریخی آثار ہوں، یہ جدیدیت پسند انسان کی خاص علامات ہیں۔ اسی لیے جدیدیت کا خاص وصف ماضی کا انکار تاریخ کا استرداد، ایک نئی دنیا اور نئے انسان کی تخلیق کا دعویٰ ہے جو سترہویں صدی سے پہلے دنیا کے کسی معاشرے کسی تاریخ، کسی تہذیب اور کسی مذہب میں وجود نہیں رکھتا تھا۔ یعنی انسان [Self Autonomus Human Being] خلق جدید [Modern Man] اور جدیدیت [Modernity] تو اصلاً سترہویں صدی میں پیدا ہوئے ہیں۔ کانٹ کے الفاظ میں :
Enlightenment is man's emergence from his self imposed immaturity. Immaturity is the inability to use one's understanding without guidance from another. This immaturity is self imposed lack of understanding.
اس مختصر عبارت میں کانٹ نے علم کے ہر خارجی ذریعے کا انکار کر کے علم کا سرچشمہ انسان کے اندرون کو قرار دیا ہے کہ پیمانۂ علم باہر نہیں انسان کے اندر ہے یعنی نفس ،عقل، ذہن، وجدان، طبیعت اورحواس خمسہ وغیرہ وغیرہ۔
دین کے احکامات عقل، لغت، وجدان، علم حسی، Hermeneutics جدید علم تشریح و توجیہہ و توضیح و تعبیرسے طے اور حل نہیں ہوتے ،وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح ہوتے اور صحابہ کرام کے ذریعے علمیت اسلامی کا حصہ بنتے اور امت کے تواتراجماع اور تعامل سے طے پاتے ہیں، مثلاً سورہ نساء میں کلالہ کی میراث کا دو جگہ ذکر ہے ایک سورہ نساء کی ۱۲ ویں آیت میں اور دوسری جگہ سورہ نساء کی ۱۷۶ ویں آیت میں ،پہلی جگہ ذکر ہے کہ اگر کلالہ کا بھائی یا بہن ہو تو ہر ایک کا حصہ چھٹا ہے اور اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔
جب کہ سورہ نساء کی آخری آیت میں ذکر ہے کہ اگر کلالہ کی بہن ہو تو اس کو نصف ملے گا، اگر دو بہنیں ہوں تو ان کو دو تہائی ملے گا اور اگر بہن بھائی دونوں ہوں تو مرد کو عورت کے مقابلے میں دگنا ملے گا۔
ان دونوں آیات میں پہلی جگہ بہن بھائی کا حصہ چھٹا، جب کہ دوسری جگہ بہن کا حصہ نصف ذکر کیا گیا ہے،اس میں بظاہر تعارض نظر آتا ہے، لیکن درحقیقت کوئی تعارض نہیں، کیونکہ پہلی جگہ اخیافی بہن بھائیوں کا ذکر ہے اور دوسری جگہ حقیقی بہن بھائیوں کا ذکر ہے۔ پہلی جگہ اخیافی کے بجائے حقیقی بہن بھائی مراد نہیں لیے سکتے ورنہ دونوں آیات میں تعارض لازم آئے گا۔
اور پہلی جگہ اخیافی [یعنی ماں شریک بہن بھائی] کے مراد ہونے کی دلیل صحابہ کرام کے اقوال اور اجماع امت ہے۔ صحابہ کرام کو یہ توضیح و تشریح رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ملی ہے کیونکہ صاحب قرآن نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ ذمہ داری عائد فرمائی کہ وہ قرآن کی تعلیم ، تشریح، توضیح باور تبیین فرما دیں:
[pullquote]بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ [۱۶:۴۴] [/pullquote]
صحابہ کرام اس علم کے وارث تھے جو سنت رسول سے انھیں منتقل ہوا تھا اور یہی علم اجماع اور تعامل امت سے صبح محشر تک امت کو تواتر سے منتقل ہوتا رہے گا۔ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے مروی ہے کہ ’’ولہ اخ‘‘ سے مراد ماں شریک بھائی ہے۔ بلکہ بعض حضرات نے نقل کیا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکی قرأت ہی ’’ولہ اخ من امہ‘‘ تھی۔ تاہم یہ قرأت شاذہ ہے، قرأت متواترہ نہیں ہے، اور ہمارے پاس جو قرآن مجید موجود ہے یہ قرأت متواترہ پر مشتمل ہے، اس لیے شاذ قرأت کے الفاظ کو قرآن نہیں کہا جاسکتا البتہ وہ قرأت بطور تفسیر کے معتبر ہوتی ہے۔
’’واضح رہے کہ اس آیت میں اخیافی [ماں شریک] بہن بھائی کا حصہ بتایا گیا ہے، اگرچہ قرآن کریم کی اس آیت میں یہ قید مذکور نہیں ہے لیکن یہ قید بالا جماع معتبر ہے۔
قرآن کریم کے احکام میں کوئی تعارض نہیں۔ پہلی جگہ اخیافی بہن بھائی مراد ہیں اور دوسری جگہ اخیافی کے علاوہ بہن بھائی مراد ہے، اور اس میں کوئی تعارض نہیں، ہاں اگر کوئی شخص یہ پہلی جگہ بھی غیر اخیافی عینی علاتی مراد لے تو تعارض لازم آئے گا۔
کلالہ کی تفسیر یہ کرنا کہ کلالہ وہ شخص ہے جس کی صرف اولاد نہ ہو اگرچہ باپ زندہ ہو، شاذ تفسیر ہے اور شاذ تفسیر پر عمل کرنا جائز نہیں۔ اگر اس تفسیر کو لیا جائے تو اس سے لازم آئے گا کہ باپ کی موجودگی میں میت کی بہن یا بھائی کو بھی حصہ ملے، حالانکہ یہ بات اجماع کے خلاف ہے، باپ کی موجودگی میں میت کے بہن بھائیوں کو بالاجماع حصہ نہیں ملتا، تفسیر البحر المحیط میں ہے:
[pullquote]’’واجمعت الامۃ علی ان الاخوۃ لایرثون مع ابن ولااب و علی ہذا مضت الاعصار و الامصار‘‘۔ [/pullquote]
اس دلیل کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آیات قرآنی کی ایسی تفسیر پیش کرنا جو خیرالقرون، عہد صحابہ، تابعین، تبع تابعین، تواتر و تعامل امت ، اجماع اور صلحائے امت کی بیان کردہ تفسیر اور طریقے سے صریحاً متصادم ہو تو ایسے تفرد کو امت کی علمیت معتبر تسلیم نہیں کرتی خواہ یہ تفرد کرنے والا کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا قرآن کی تفسیر صرف عقل، وجدان اور کشف کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی اس کی تفسیر نقل سے ہی ممکن ہے تفسیر جدید کے سلسلے میں مغربی علم تعبیر و تشریح سے مدد لینا اسلامی علمیت کے لیے ممکن ہی نہیں کیونکہ اسلامی علمیت اور اس سے متعلق تمام متون ایک خاص تاریخ وتہذیب اس علمیت کی شارح ہستی ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے تربیت یافتہ صحابہ کے فیضان، روایت ،تواتر، تعامل اور اجماع کے ذریعے منتقل ہوئے ہیں، لہٰذا جدید فلسفیانہ علم تفسیر، تشریح و تعبیر کے اصول یہاں ہر گز قابل عمل نہیں ہیں۔Hermenutic کا ترجمہ علم تفسیر کرنا غیر عاقلانہ رویہ ہے، علم تفسیر ایک خاص مابعد الطبیعیات اور خاص تاریخ و تہذیب سے نکلا ہے اس کو جانے بغیرمغرب کے ایجاد کردہ فلسفیانہ علم تشریح و تعبیر کی فنکاری کو اسلامی علمیت کے روایتی علم تفسیر کا مترادف سمجھنا نادانی ہے۔ شمس الرحمان فاروقی جیسے سنجیدہ نقاد اپنی کتاب ’’تعبیر کی شرح‘‘ کے اہم ترین مضمون میں جو اسی نام سے کتاب کے آخر میں موجود ہے اسلامی علم تفسیر اور مغربی فن تشریح و تعبیر Hermeneutic میں یہ فرق ملحوظ رکھنے سے قاصر رہے کیونکہ وہ دینی و شرعی علوم اور مغربی علوم فلسفہ کی گہرائی سے واقف نہ تھے لہٰذا اسلامی علم تفسیر کا پورا ذخیرہ ان کے خیال میں تفردات کا شاہکار ہے جو بالکل غلط استدلال ہے۔
اگر عقلی بنیادوں پر ہر حکم خدا وندی کا استدلال ہو توپھر سوال یہ ہے کہ فجر کی نماز طلوع سحر سے پہلے کیوں بعد میں کیوں نہیں کہ اس وقت تک سب اٹھ جاتے ہیں، سب ہی نماز پڑھ لیں گے لہٰذا نماز کا وقت بدل دیا جائے۔ جو شخص اب نمازفجر نہیں پڑھ رہا کیا وہ نماز کا وقت آگے بڑھ جانے سے نماز پڑھ لے گا؟ جسے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل مقصود ہے وہ ہر حال میں تعمیل کرے گا احکامات کی مشروط تعمیل کرنے والا عبد نہیں معبود ہے۔ معبود کسی دوسرے معبود کی عبادت کیسے کرسکتا ہے؟ وہ سوال اٹھاسکتا ہے احرام میں سفید غیر سلے کپڑے کیوں کالے ،ہرے اور سلے ہوئے کپڑے کیوں نہیں صاف بھی رہیں گے اور گندگی بھی نظر نہیں آئے گی ،لیکن بات یہ ہے کہ یہ خدا کا حکم ہے اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے ہمیں اسی طرح عمل کرکے دکھایا ہے عقلی اعتراضات کی تو کوئی حد ہی نہیں مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے آسمان اپنے ہاتھ سے بنایا ہے [۵۱:۴۷]بعض اور آیات میں یہی بات مختلف چیزوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمائی کہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنائیں اب معترض یہ سوال اٹھا دے کہ کیا اللہ تعالیٰ مادی وجود رکھتاہے اس کے ہاتھ بھی ہیں اس نے آسمان اپنے ہاتھ سے خود کیوں بنایا؟ پوری کائنات اس کے اشارے پر چلتی ہے تو اس نے یہ شے بنانے کے لیے کسی کو حکم کیوں نہیں دیا؟
ایسے من گھڑت سوالوں کا جواب دیتے ہوئے نہایت دانائی اور باریک بینی کی ضرورت ہے، عصر حاضر میں نوجوان اس قسم کی علمی موشگافیاں کرنے میں بہت جری ہوگئے ہیں جس کا سبب ٹی وی کے ٹاک شو ز ہیںجہاں جہلاء ایک منظم منصوبے کے تحت احمقانہ موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے ہیںاور نوجوانوں کے ذہنوں کو دانستہ مسموم کرکے ان میں عقلی موشگافیوں کا مزاج پیدا کرتے ہیں ،ایسے نوجوانوں کو عمدہ مثالوں سے لا جواب کیا جاسکتا ہے۔ فتنۂ خلق قرآن کے سلسلے میں مامون کے دربار میں عبدالعزیزؒ الکنائی اور بشر المریسی کا مناظرہ ایک عمدہ مثال ہے۔ بشر نے پوچھا قرآن نے صدہا مقام پر اللہ تعالیٰ کو خالق کل شی ئٍ کہا ہے یا نہیں ؟یعنی خدا ہر چیز کا خالق ہے کنانی نے جواب دیا وہی ہر شے کا خالق ہے۔ بشر نے پوچھا قرآن بھی شے ہے یا نہیں؟ شیخ کنائی نے کہا پہلے شے کی حقیقت سن لو پھر جواب مانگو۔ بشر نے کہا میں اور کچھ سننا نہیں چاہتا میرے سوال کا جواب دو۔ مامون نے بھی غصے سے کہا سوال کا جواب ہاں یا ناں میں دو۔ شیخ نے کہا اچھا میں تسلیم کرتا ہوں قرآن بھی اشیاء میں داخل ہے۔ مامون اور بشر نے کہا تو پھر قرآن مخلوق ہوا۔ نہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا شیخ کنائی نے جواب دیا۔ قرآن کہتا ہے ویحذر کم اللّٰہ نفسہٗ یعنی اللہ تم کو اپنے نفس سے ڈراتا ہے اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بھی نفس ہے پھر قرآن کہتا ہے کل نفس ذائقہ الموت [ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے] پس اگر اشیاء میں قرآن داخل ہو کر مخلوق ہوگیا تو کیا خدا بھی کل نفس میں داخل ہو کر اور نفس ہو کر موت کا مزا چکھے گا؟ معتزلہ کو مناظرے میں شکست ہوگئی۔ عباسی دربار کے مسخرے نے خلیفہ کو مسئلہ خلق قرآن کے سلسلے میں صرف ایک دلیل سے قائل کر کے معتزلہ کے حلقے سے الگ کر دیا تھا۔ اس نے پوچھا کہ یا خلیفۃ المسلمین اگلے سال تراویح میں مسلمان کیا پڑھیں گے؟ خلیفہ نے جواب دیا قرآن۔ مسخر ئے نے نہایت تعجب سے پوچھا کہ قرآن تو مخلوق ہے اگر اگلے برس سے پہلے انتقال کر گیا تو رمضان میں کیا پڑھا جائے گا؟ خلیفہ قائل ہوگیا اس نے معتزلہ کی حمایت سے ہاتھ اٹھالیا۔
ایسی دو اور مثالیں پیش خدمت ہیں عقل اور منطق کے ذریعے دین کو ثابت کرنے کی ہمہ وقت کوشش لا یعنی ہے، مثلاً ایک شخص ایک حلوائی کی دکان میں داخل ہوا اوراس سے ایک سیر لڈو طلب کیے، حلوائی نے اسے ایک سیر لڈو دے دیے تو اس نے لڈوواپس کردیے اور کہا کہ یہ مٹھائی بدل دو اور اس کے بدلے میں ایک سیر گلا ب جامن دے دو، حلوائی نے مٹھائی تبدیل کرکے ایک سیر گلاب جامن اس کے سپرد کیے تو وہ شخص مٹھائی لے کر دکان سے باہر جانے لگا، حلوائی نے آواز دے کر روکا اوراس سے کہا کہ بھائی ایک سیر مٹھائی کے پیسے دینا آپ بھول گئے ہیں وہ دیتے جائیے ،خریدار نے نہایت حیرت سے پوچھاکس بات کے پیسے ؟حلوائی نے کہا جناب ایک سیر گلاب جامن کے، خریدار نے جواب دیا یہ ایک سیر گلاب جامن تو میں نے ایک سیر لڈو کے بدلے میںلیے ہیں ،اس لیے اس کی قیمت کا کیا سوال؟ حلوائی نے عرض کیا حضور تو چلیے ایک سیر لڈو کے پیسے عنایت کیجیے، حلوائی کی پسپائی دیکھ کر خریدار تنک کر بولا بھائی ایک سیر لڈو تو میں آپ کو واپس کرچکاہوں، اس کے پیسے آپ مجھ سے کیسے طلب کرسکتے ہیں؟واقعہ دلچسپ ،پرلطف ہے اور خریدار کی ذہانت اور حاضر جوابی کی داد دینا پڑتی ہے لیکن اس منطقی حاضر جوابی سے آپ لوگوں کو مسکرانے پر مجبور کرسکتے ہیں حلوائی سے مفت میں مٹھائی نہیں لے سکتے، اگر آپ اصرار کریں کہ حلوائی صاحب میں نے آپ کو دلیل دی ہے آپ دلیل سے اس کا جواب دیں تو یہاں دلیل کا کام ختم ہوجائے گا اور علامہ اقبال کے مصرع کا کام شرو ع ہو جائے گا :
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
ایسے مشکل مقامات عصائے کلیمی سے حل ہوتے ہیں عقلی دلیل اور منطق یہاں جواب دے جاتی ہے۔
اسی طرح ریاضیاتی اصول سے عقلی طور پرآپ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ اگر ایک کمرہ سو مزدور دس دن میں بنا سکتے ہیںتو دو سو مزدور یہ کمرہ پانچ دن میں بنالیں گے۔ چار سو مزدور ڈھائی دن میں، آٹھ سو مزدور سوا دن میں، سولہ سو مزدور ۱۴ گھنٹے میں، بتیس سو مزدور سات گھنٹے میں بتیس ہزار مزدور سات سکنڈ میں لیکن کیا عملاً کوئی کمرہ سات سیکنڈ میں بن سکتا ہے ؟ریاضیاتی طور عقلی منطقی خیالی طورپر ایسا کمرہ ضروربن سکتا ہے لیکن صرف اعداد و شمار کے ذریعے، عملا ً نہیں۔ لہٰذا بہت سی باتیں جو عقلی، منطقی اورریاضیاتی طریقوں سے ثابت کردی جائیں تب بھی عملی زندگی میں ناقابل عمل ہو جاتی ہیں۔خود ذاکر نائیک صاحب نے عقلی استدلال کی مخالفت میں ایک عمدہ مثال اسلام دہشت گردی یا عالمی بھائی چارے والے خطبے میں دی ہے: اس مناظرے میں گوشت خوری کے مخالفین کی دلیل یہ تھی کہ ٹھیک ہے پودے بھی جاندار ہیںلیکن ان کے اندر صرف تین حواس ہوتے ہیں جبکہ گائے بکری بکرے میں پانچ حواس ہوتے ہیں لہٰذا جانوروں کومارنا بڑا جرم ہے اور پودوں کو مارنااس کے مقابلے میں نسبتاً چھوٹا جرم ہے، ذاکر نائیک نے جواب دیا کہ اچھا چلو یہ فرض کرو کہ تمھارا ایک چھوٹا بھائی ہے جو پیدائشی گونگا بہرا ہے اس میں عام انسانو ںکے مقابلے میں دو حسیات کم ہیں اب فرض کیجیے کہ کوئی آپ کے بھائی کو مار دیتا ہے کیا اس وقت آپ جج کے سامنے جا کر یہ کہنے کے لیے تیار ہوں گے کہ مائی لارڈ چوں کہ میرے بھائی میں دو حواس کم تھے لہٰذا مجرم کو کم سزا دی جائے نہیں بلکہ آپ کہیں گے کہ مجرم کو دگنی سزا دی جائے کیوں کہ اس نے ایک معصوم اور مجبور شخص پر ظلم کیا لہٰذا اسلام میں بھی یہ منطق نہیں چلتی ۱؎ [ ذاکر نائیک،’’اسلام :دہشت گردی یا عالمی بھائی چارہ‘‘ مشمولہ خطباتِ ذاکر نائیک، صفحہ ۶۲]۔] ہمیں خوشی ہے کہ ذاکر نائیک صاحب نے خود تسلیم کرلیا کہ اسلام میں عقلی منطق نہیں چلتی ،کبھی کبھی چل بھی جاتی ہے لیکن صرف اس منطق اورعقلیت پر دین کے فہم کو منحصر رکھنا یا مقید کرنا عقل کا تقاضا نہیں ہے۔
ایک عالم کا عقلی دلیل کی فضیلت، اہمیت اور برتری کے سلسلے میں ایک شخص سے مباحثہ ہوا۔ موقف یہ تھا کہ عقلی دلیل ہی ترجمان ساطع، برہان قاطع اور تفسیر واضح ہوتی ہے۔ اس سے عالم نے کہا کیا احنف بن قیس اور ایک چھوٹا بچہ دونوں کو شہید کردیا جائے تو دونوں کا قصاص یکساں ہوگا؟ یا احنف بن قیس کی عقل و حلم کی وجہ سے ان کا کچھ زیادہ ہوگا؟ اس نے کہا نہیں دونوں کا برابر ہوگا۔ عالم نے فرمایا:پھرصرف عقلی ومنطقی دلیل کوئی چیز نہیں۔
سب سے پہلے ابلیس نے منطقی و عقلی دلیل کا آغاز کیا۔ اسے جب حکم ملا کہ حکم الہٰ پر عمل کرو اور آدم کو سجدہ کرو تو اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ ابلیس نے صرف عقل محض [Pure reason] پر دلیل کی بنیاد رکھی جو صرف طبیعی مسائل [Physical Domain]میں تجزیہ کی صلاحیت رکھتی ہے،اس جزوی عقل [Partial rationality]نے اسے دھوکا دیا لہٰذا خیر، الحق اور سچ کامعیار [Standard of Good & Truth] عقل نہیں ہوسکتی۔عقل جزئی حقیقت تک رسائی نہیں کرسکتی ہے۔ بہترین عقل وہ ہے جو مالک الملک کے حکم کودرست سمجھے یہ وہ عقل ہے جس کو پرکھنے کا پیمانہ عقل سے نہیں نکلتا باہر سے آتا ہے، وہ پیمانہ وحی الہی ہے یعنی وحی بتائے گی کہ انسان عاقل ہے یا نہیں اور عقلیت کا پیمانہ یہ ہے کہ انسان مقام عبدیت کو قبول کرلے اور حقیقت مطلق کی اطاعت و اتباع میں خوشی محسوس کرے قرآن بتاتاہے:
[pullquote] اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْن[۸:۲۲]، اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ [۸:۵۵]، اَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَآئَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا یَحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ اِِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُوْلُوا الْاَلْبَاب [۳۹:۹]، اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰاولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِِلَیْکُمْ ذِکْرًا [۶۵:۱۰][/pullquote]
ان آیات کا لب لباب یہی ہے کہ عقل سے کام نہ لینے والے خدا کے نزدیک بد ترین جانور اور بہرے و گونگے لوگ ہیں، الحق کا انکار کرنے والے بد ترین مخلوق ہیں، نصیحت عقل والے قبول کرتے ہیں، معیار عقل قبولیت نصیحت ہے جو القرآن ،الکتاب اورالحق کو قبول نہ کرے وہ صاحب عقل ہی نہیں ایمان لانے والے لوگ ہی صاحبِ عقل ہیں اور اللہ سے انھیں ڈرناچاہیے۔عقل جب وحی الہٰی کی تقلید قبول کرتی ہے تو وہ صرف عقل نہیں رہتی وہ ایمان کے زمرے میں آتی ہے جو علم کا اصل سر چشمہ ہے۔ایک راسخ العقیدہ عالم نے ایک عقلیت پسند عالم سے پوچھا مجھے ایسا کلمہ بتلائیے جس کا اوّل شرک اور آخر ایمان ہو؟ عالم نے کہا میں نہیں جانتا پہلے عالم نے جواب دیا یہ لا الہٰ الا اللہ ہے۔ اگر کوئی لا الہٰ کہہ کر رک گیا تو کافر ہو جائے گا۔ اسی کلمہ کا اول شرک اور آخر ایمان ہے۔ دوسرا سوال پوچھا کہ اچھا بتائیے کہ قتل جو اللہ تعالیٰ کے یہاں حرام ہے زیادہ بڑا گناہ ہے یا زنا؟ انھوں نے کہا قتل۔ انھوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے قتل کے لیے دو شہادتیں قبول فرمائی ہیں لیکن زنا کے لیے چار ضروری ہیں۔ عقل و منطق یہاں آپ کے لیے کہاں فائدہ مند رہی؟ اور پھر پوچھا بتایئے خدا کے یہاں روزہ بڑا ہے یا نماز؟ عقلیت پسند مفتی نے کہا نماز، انھوں نے فرمایا عورت حیض سے فراغت کے بعد روزوں کی قضا کرتی ہے لیکن نماز کی نہیں ،معلوم ہوا کہ صرف عقل کی بنیاد پر مذہبی امور کے فیصلے اور ان کی حکمت معلوم کرنا ممکن نہیں۔
حضرت عباسؓ نے خارجیوں سے گفتگو کی تو ان کے عقلی دلائل کا اس خوبصورتی سے ایمانی و عرفانی جواب دیا کہ وہ دنگ رہ گئے۔ حضرت عباسؓ بتاتے ہیں کہ خارجیوں نے ان سے کہا کہ ہمیں حضرت علیؓ کی تین باتیں بہت بری لگیں۔ وہ یہ کہ حَکمَ انھوں نے آدمیوں کوبنایا جب کہ حکمِ خدا وندی ہے:
[pullquote]اِنِ الْحُکْمُ اِلَّالِلّٰہِ[/pullquote]
[حکم تو اللہ ہی کاہے]
میں نے کہا کہ خرگوش کے سلسلے میں چوتھائی درہم کا معاملہ اللہ تعالیٰ ہی نے بندوں کے سپرد کیا اور انھیں حَکَم بنادیا ہے۔ جواب میں اس آیت کریم کی طرف اشارہ ہے:
[pullquote] فَجَزَآئٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ ۔[پارہ ۷، المائدہ][/pullquote]
تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ جیسا اس نے قتل کیا ویساہی جانور دے اور تم میں کے دو ثقہ اس کا فیصلہ کریں۔ احرام پہنے ہوئے حاجی کے شکار سے متعلق یہ حکم ہے یعنی اگر خرگوش کو حالت احرام میں شکار کیا تو بدلے میں خرگوش ہی دینا ہوگا۔اور زوجین کے بارے میں قرآن حکیم میں ہے: فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا[پ۵، النساء] [ایک حکم مرد والوں کی طرف سے اور ایک عورت والوں کی طرف سے بھیجو]
خرگوش، زوجین اور بندے کے معاملات میں حَکمَ بنانا افضل ہے اور امت کے معاملات میںجس سے خوں ریزی بند ہو کر اختلاف اتحاد و اتفاق میں تبدیل ہو جائے ؟ کیا وہاں حَکمَ نہ بنانا افضل ہوسکتا ہے؟ انھوں نے کہا ہاں صحیح ہے!
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ انھوں نے امیر المومنین بننے سے توقف کیا اور علیحدہ رہے وہ امیر الکافرین ہیں [معاذ اللہ] میں نے کہا اگر قرآن و سنت سے میں سے دلیل دوں تو مان لو گے؟ انھوں نے کہا ہاں! میں نے کہا میں نے سنا ہے اور میرا خیال ہے کہ تمھیں بھی معلوم ہو گا کہ صلح حدیبیہ کے روز سہیل بن عمرو کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو ہوئی تو آپ نے حضرت علی سے کہا لکھیے:
[pullquote]’’ھذا ما صالح علیہ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘[/pullquote]
ان سبھوں نے کہا کہ اگر ہم آپ کو خدا کا رسول مان لیں تو جنگ ہی نہ کریں۔ آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: علیؓ! اسے مٹا دو ابن عباسؓ نے کہا کیا میں تمھاری اس بات کا جواب دے دیا ان سبھوں نے کہا ہاں!
اب رہا جنگِ جمل و صفین کے بارے میں تمھارا یہ کہنا کہ انھوں نے قتال کیا لیکن قیدی نہ بنائے اور نہ مال غنیمت حاصل کیا۔ کیا تم اپنی ماؤں کو قیدی بنا کر دوسری عورتوں کی طرح انھیں بھی اپنے لیے حلال سمجھو گے؟ اگر ہاں کہو گے تو انکار کتاب اللہ کرو گے اور اسلام سے نکل جاؤ گے۔ اب تم دو گمراہیوں کے درمیان گھر گئے ہو۔
کوئی بھی چیز پیش کرکے میں کہتاکیا اس سے نکل گیا؟ وہ کہتے ہاں! اس طرح ان میں سے دو ہزار خارجی ہمارے ساتھ واپس آگئے اور صرف چھ سو باقی رہ گئے۔ تفصیل کے لیے اعلام الموقعین کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔خارجی قتل و غارت گری اور اپنے مخالفین کی خونریزی میں مشہور تھے لیکن جب حق و صواب اور حکمت و موعظت کے ساتھ ان سے گفتگو کی گئی تو ان میں سے اکثر قبول حق پر آمادہ ہوگئے اور جب انھیں قرآن حکیم پڑھ کر سنایا گیا تو انھوں نے اس سے عبرت و نصیحت حاصل کی۔ انھیں مناسب طریقہ سے گفتگو کی دعوت دی گئی تو کھلے دل کے ساتھ انھوں نے یہ دعوت قبول کرلی۔ جب متشدد لوگوں کو دعوت ونصیحت اورنرمی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے تو عہد حاضر کے ملحد، بے دین، دین بے زار اور متشکک لوگوں کو بھی بدلا جاسکتا ہے۔
عصر حاضر کا مسئلہ یہ ہے کہ فقہا، متکلمین واعظین علماء نے لا ادری کہنا ترک کردیاہے لہٰذا وہ ہر مسئلے کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں اور عوام کی درست رہنمائی سے قاصر رہتے ہیں۔ نائیک صاحب نہایت اخلاص کے ساتھ ادھورے علم کے ذریعے امت کی اصلاح کے لیے نکلے ہیں کاش وہ کہہ سکتے کہ لا ادری تو اس بڑی ذمہ داری سے بچ جاتے جسے انھوں نے رضا کارانہ طور پر خود قبول کرلیا ہے ایک ایسی ذمہ داری جو امت کے لیے مصائب کے نئے دریچے کھول رہی ہے۔
اعتراضات کرنے والے قسم قسم کے اعتراض کرسکتے ہیں مثلاً سورۂ نحل کی آیت:
[pullquote]وَ اللہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا وَّ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ بَنِیْنَ وَ حَفَدَۃً وَّ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَتِ اللہ ھُمْ یَکْفُرُوْنَ [۱۶:۷۲][/pullquote]
میں اللہ تعالیٰ نے بیٹے اور پوتوں کا ذکر کیوں کیا ہے؟ بیٹی اور نواسوں کا ذکر کیوں نہیں کیا؟اور نواسوں کا ذکر بھی کیوں نواسیوں کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ یہ تو صریحاً صنفی امتیاز محسوس ہوتا ہے [نعوذ باللہ]، جب آپ عہد حاضر کے غالب تعقل کی روشنی میں چیزوں کو ایک خاص زاویے، خاص نقطۂ نظراور خاص ما بعد الطبیعیات کے ذریعے پرکھتے ہیں تو اسی قسم کے کمالات، تحقیقات ،ایجادات اور اکتشافات کادریچہ وا ہوتا ہے اور سائنسی، منطقی، تجربی، حسی اور طبعی ذہن قرآنی دلیل کو سمجھنے سے قاصر رہتاہے۔ معترض یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نحل میں کہا ہے کہ یہ پہاڑ میخیں ہیں جو زمین کو ڈھلکنے سے روکے ہوئے ہے:
[pullquote] ضَرَبَ اللہ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْکًا لَّا یَقْدِرُ عَلٰی شَیْئٍ وَّ مَنْ رَّزَقْنٰہُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَھُوَ یُنْفِقُ مِنْہُ سِرًّا وَّ جَھْرًا ھَلْ یَسْتَونَ اَلْحَمْدُ لِلہ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ وَ ضَرَبَ اللہ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ اَحَدُھُمَآ اَبْکَمُ لَا یَقْدِرُ عَلٰی شَیْئٍ وَّ ھُوَ کَلٌّ عَلٰی مَوْلٰہُ اَیْنَمَا یُوَجِّھْہُّ لَا یَاْتِ بِخَیْرٍ ھَلْ یَسْتَوِیْ ھُوَ وَ مَنْ یَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ ھُوَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ [۱۶:۷۵،۷۶][/pullquote]
لیکن دیکھیے دنیا میں ہزاروں پہاڑ کاٹ دیے گئے اگر پہاڑوں کو کاٹا نہ جائے تو اس میں سے معدنیات کے ذخائر یعنی پتھروں کی انواع و اقسام سے کیسے فیض اٹھایا جائے ؟ظاہر ہے نائیک صاحب یہاں کوئی جواب نہ دے سکیں گے۔وہ یہ اعتراض بھی اٹھا سکتا ہے کہ سورہ نحل میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے گھوڑے اور خچر پیداکیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمھاری زندگی کی رونق بنیں [۱۶:۸]لیکن عہد حاضر میں تو جدید تہذیب و تمدن کے ظہور کے بعد گھوڑے اور خچر تو زینت حیات دنیا ہی نہیں رہے، دنیا کے اکثر حصوں میں علمائے دین بھی گدھے اور گھوڑے پر سواری کو قابل عزت شے نہیں سمجھتے کیا آپ ’’شیخ الاسلام ‘‘کا اکرام اس طرح کریں گے کہ انھیں گھوڑے یا گدھے پر بٹھا کر لے جائیں ؟بہ ظاہر یہ اعتراض درست لگتا ہے کیونکہ عصر حاضر کے تعقل نے عیش و عشرت اور سہولت کی جو سواریاں پیدا کی ہیں ان کے سامنے گھوڑے اور گدھے واقعی حیات دنیاکی زینت نظر نہیں آتے اور کسی عالم کو خچریا گدھے پر سواری کی دعوت دینا جدید حسی ذہن کو فی الواقع توہین نظر آئے گا، کیونکہ یہ طرز عمل عہد حاضر کے غالب طرز تعقل کے خلاف ہے، مگر یہ نظر کا قصور ہے، برطانیہ کی ملکہ سعودی عرب کے شاہ کے خصوصی استقبال کے لیے شاہی بگھی میں لے کر انھیں بکنگھم پیلس جاتی ہے تو پوری دنیا اور خود شہنشاہ اسے خصوصی اکرام و اعزاز سمجھتے ہیں کیونکہ یہ تعظیم عہد حاضر کے تعقل سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے، قرآن بتاتا ہے کہ جانوروں میں تمھارے لیے جمال ہے جب کہ تم صبح انھیں چرنے کے لیے بھیجتے ہو اور جب کہ شام انھیں واپس لاتے ہو [۱۶:۶] لیکن عہد حاضر کے فلسفۂ جمال میں جانور وں کے اس حسن، کمال اور جمال کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے فلیٹ شہر اور جانور ایک ساتھ نہیں رہ سکتے جدید طرز زندگی فطری حقیقی اصل طرز زندگی کو باقی ہی نہیں رہنے دیتا نہ شہروں میں باغات میں نہ کھیت نہ چراگاہیں تو جانور کیسے رہیں گے اور اس کا حسن و جمال کون دیکھے گا؟ لہٰذا جمالیات کے نئے نظریات میں اس فطری حسن و جمال کا کوئی ذکر نہیں ہوتا لیکن عید قربان کے موقعے پر پوری امت اور اس کے امراء عالیشان محلوں میں رہنے والے متکبرین کے بچے جانوروں کے جمال سے جس طرح لطف اٹھاتے ہیں اور ان کے ساتھ جس طرح وقت گزارتے ہیں وہ اس آیت کی سچائی کی محکم دلیل ہے مگر سائنسی ذہن اس دلیل کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ صرف عقل کی بنیاد پر کسی کو دین و ایمان کی توفیق نہیں ملتی یہ توفیق انھیں ملتی ہے جو عقل کے ذریعے کسی حقیقت کو پالینے کے بعد قلب میں تبدیلی محسوس کرتے ہیں تو انھیں ایمان کی توفیق نصیب ہو جاتی ہے، عقل صرف سوچنے کا ذریعہ ہے وہ حقیقت کو پانے والے ، ڈھونڈنے والے آلات [Instruments] میں سے ایک آلہ ہے یہ آلہ خود مطلوب و مقصود نہیں ہے۔ کفار مکہ نے علم،عقل اور فطرت کے آلات کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصل بیت اللہ کو پہچان لیا تھا قرآن کے الفاظ میں مشرکین مکہ اور اہل کتاب ذات رسالت مآبؐ کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے تھے اسی طرح وہ بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کی اصلیت سے بھی واقف تھے لیکن ان کے قلب نے انکا رکردیا ان کے نفس نے تعقل قلبی سے استفادہ نہیں کیا وہ خواہش نفس کے اِلہٰ کی پرستش میں مبتلا رہے۔ قلب اس تفکر کو گہرائیوں کے ساتھ ایمان کے قالب میں ڈھالنے کا وسیلہ ہے، اس لیے پیغمبر جب بھی آتے ہیں لوگوں کے قلوب کو بدلتے ہیں ،ان کے فواد کو مخاطب کرتے ہیں، ان کے دروازۂ دل پر دستک دیتے ہیں، ان کے دل کی دنیا بدلنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں کیوں کہ قرآن کے الفاظ میں ’’ایک شخص کے سینے میں دو دل نہیں ہوتے‘‘ لہٰذا اس ایک دل کو خالق حقیقی کے لیے خالِص کردینا پیغمبروں کی کوشش ہوتی ہے۔ منافقین بہ ظاہرایمان لے آئے تھے مگر ان کے ایمان کو اللہ نے تسلیم نہیں کیا انھوں نے رسالت مآبؐ کا انکار نہیں کیا لیکن دل سے آپ کی تصدیق نہیں کی، اسی لیے قرآن نے ارشاد کیا کہ یہ منہ سے کہتے ہیں مگر دل سے ایمان نہیں لاتے:
[pullquote] یٰاَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اٰمَنَّا بِاَفْوَاھِھِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُھُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ لَمْ یَاْتُوْکَ یُمَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْم بَعْدِ مَوَاضِعِہ یَقُولُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْ تَوْہُ فَاحْذَرُوْا وَمَنْ یُّرِدِ اللہ فِتْنَتَہ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہ مِنَ اللہ شَیْئًا اُولٰئکَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللہ اَنْ یُّطَھِّرَ قُلُوْبَھُمْ لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ [۵:۴۱][/pullquote]
اگر ایمان عقلی دلائل پر منحصر ہوتا تو اہل کتاب ایمان لے آتے، قرآن کے الفاظ میںوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح پہچانتے تھے جس طر ح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں وہ عقلی طور پر آپ کی بعثت سے متفق تھے لیکن ان کا دل اسے تسلیم نہیں کرتا تھا ،ان کی خواہش نفس اور تکبر ضد اور اپنی قوم کی عظمت اس عقلی دلیل کو قلبی دلیل میں تبدیل کرنے پر آمادہ نہ تھی، لہٰذا عقلی یقین کے باوجود وہ آخر تک قلبی یقین سے محروم رہے اور دنیا وآخرت دونوں برباد کرلی۔ اسی لیے قرآن نے واضح کردیا کہ جس نے دل کی رضا مندی سے کفر کو قبول کرلیا اس پر اللہ کا غضب ہے:
[pullquote]مَنْ کَفَرَ بِاللہ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللہ وَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ [۱۶:۱۰۶]۔[/pullquote]
ابو جہل کعبہ کے پردوںمیں چھپ کر قرآن سنتا تھا اس کا دل پگھل جاتا تھا لیکن اس کا تکبر آڑے آتاتھا کہ یہ قرآن اس شہر کے دو بڑے آدمیوں پر کیوں نہیں اترا؟
سورۃ انبیاء میں حضرت ابراہیم اور اس عبادت گاہ کے مقتدیوں کا مکالمہ آیت ۵۹ تا ۶۷ میں تفصیل سے آیا ہے، جب حضرت ابراہیمؑ نے تمام بتوں کو ریزہ ریزہ کردیااور کفار مندر میں عبادت کے لیے گئے تو بڑے ناراض ہو ئے کہ ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ ظلم کس نے کیا، انھیںبتایا گیاکہ ایک نوجوان ابراہیم ہے جو بتوں کو برا بھلا کہتا ہے انھیں لوگوں کی موجودگی میں طلب کیا گیا اور سوال حضرت ابراہیمؑ سے یہ پوچھا گیا کہ:
قَا[pullquote]لُوْا ئَ اَنْتَ فَعَلْتَ ھٰذَا بِاٰلِھَتِنَا یٰاِبْرٰھِیْمُ [سورۂ الانبیاء:۶۲] [/pullquote]
ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام تم نے کیا؟
[pullquote] قَالَ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا فَسْئَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ [سورۂ الانبیاء:۶۳] [/pullquote]
آپ نے فرمایا ’’ان کے بڑے بت سے معلوم کرو اگر یہ بولتے ہوں‘‘۔
کفار اس عقلی دلیل پر ششدر ہوگئے:
[pullquote] فَرَجَعوْا اِلٰی اَنْفُسِھِمْ فَقَالُوْا اِنَّکُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ[الانبیاء:۶۴][/pullquote]
اور آپس میں کہنے لگے بیشک ہم ہی ظالم ہیں
[pullquote]: ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُئوْسِھِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا ھٰولَآء یَنْطِقُوْنَ [الانبیاء:۶۵][/pullquote]
پھر شرمندہ ہو کر سر نیچا کرلیا او رکہنے لگے تم جانتے تو ہو کہ یہ بولتے نہیں اس پرحضرت ابراہیمؑ نے کہا کہ پھر تم اللہ کو چھوڑ کر کیوں ایسے بتوں کو پوجتے ہو جونہ تمھیں کوئی فائدہ دے سکیں نہ نقصان پہنچا سکیں ؟کفار عقلی طور پر مطمئن تھے لیکن قلبی طور پرمطمئن نہ تھے۔قلب اور فواد جب تک عقل کا ساتھ نہ دیں ایمان کی توفیق نہیں ملتی اس لیے انبیاء لوگوں کے قلوب کو تسخیر کرتے ہیں۔ دلوں کو فتح کرنا ہی اصل فتح ہے عقل تو آسانی سے مغلوب ہوجاتی ہے لیکن عقل سے قلب تک کا فاصلہ جو بہت مختصر ہے دنیا کا طویل ترین راستہ ہے، مشرکین مکہ کو نبوت اور رسالت سے انکار نہیں تھا وہ تو پیغمبر کے منتظر تھے لیکن ان کا اعتراض یہ تھا کہ یہ نبوت بنی ہاشم کو کیوںعطا کی گئی؟ ان کا اعتراض صرف یہ تھا کہ ’’کہتے ہیں یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نہ اترا کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں‘‘[الزخرف آیت ۳۱] وہ قرآن اور نبوت کا نزول طائف اور مکہ کے کسی رجل رشید پر چاہتے تھے لیکن رحمت الٰہی کفار مشرکین کی خواہش سے تقسیم نہیں ہوتی۔ انبیاء اور ان کے صحابہ کی اپنی امتوں سے ٹوٹ کر محبت اس راستے کو طے کرتی ہے یہ محبت ہی کفار کے قلوب بدلنے کا ذریعہ بنتی ہے یہ محبت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ رسالت مآبؐ اور صحابہ کرام کو ہدایت فرماتے ہیں کہ :
[pullquote]ھانتم اولاء تُحبونھُم ولا یحبونکم مِنْ اَفْوَاھِھِمْ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ [سورۂ ال عمران:۱۱۹][/pullquote]
تم ان سے محبت رکھتے ہو لیکن وہ تم سے محبت نہیں رکھتے، رسالت مآبؐ یعنی رحمت اللعالمین کو اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ اے نبی کفار اور منافقین کے ساتھ سختی سے پیش آئیے: [pullquote]یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ [سورۂ التوبہ: ۷۳][/pullquote]
(ظفر اقبال،باب ۱۱، عقلی موشگافیاں اور دینی مزاج،ص۳۴۹ تا ۳۷)
تبصرہ لکھیے