ہوم << تحریک انصاف کی سیاست دھرنے تک - نازش اسلام

تحریک انصاف کی سیاست دھرنے تک - نازش اسلام

نازش اسلام جس نازک دور سے پاکستان ہر حکومت وقت کے لیے ہمیشہ گزرا کرتا تھا، آج حقیقی معنوں میں گزر رہا ہے۔ کشمیرمیں کچلتی ہوئی نسل کی حمایت کے لیے اٹھایا جانے والا قدم پاکستان کو جنگ کی تاریکیوں میں دھکیل رہا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر چھیڑ چھاڑ معمول سمجھ کر نظرانداز کر دی جاتی تھی مگر جنگ کے اس ماحول میں سرجیکل اسٹرائیک اور نیوکلیئر وار کی باتیں معمولی نہیں۔ فوجیوں کی شہادت اور سرحد پار سے آنے والے اشتعال انگیز بیانات معاملے کو اور زیادہ پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان کی بے تحاشا قربانیوں کے باوجود عالمی خاموشی، دہشت گردی کی جنگ میں حوصلہ شکن نتیجے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ سارک کانفرنس کے التواء سے پاکستان پر عالمی تنہائی کے سائے بڑھنے لگے ہیں۔
شیخ سعدی کا قول ہے کہ اگر چڑیوں میں اتحاد ہو جائے تو وہ شیر کی کھال اتار سکتی ہیں۔ یہاں شیر سے مراد مسلم لیگ ن ہرگز نہیں مگر وہ بیرونی طاقتیں ضرور ہیں جن کو پاکستان کا وجود برداشت ہی نہیں۔ بچپن میں کہانیاں بھی سنی تھیں کہ باہر سے جب گھر کو خطرہ ہوتا تھا سارے بیٹے آپس کے اختلافات بھلا کرگھر کی اینٹ اینٹ بچانے پر لگ جاتے تھے مگر پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت کے بڑے رہنما ان اقوال اور کہانیوں سے محروم رہے اور اس مشکل دور میں بھی وہ اوے اوے سے باز نہیں آ رہے۔ ملا کی دوڑ مسجد تک اور عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاست دھرنے تک۔ جلسے کرنا اور عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے مگر ہر بار لوگوں کو جمع کر کے ایک ہی جیسی لعن طعن اور غیر اخلاقی زبان استعمال کرنا کپتان کا اسٹائل بن گیا ہے ۔ رائیونڈ جلسے سے قبل بھی انہوں نے لاتعداد جلسے، دھرنے اور مارچ کیے، کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا اور کل کا جلسہ بھی اس سے کچھ الگ ثابت نہیں ہوا۔ وہی گھسا پٹا فارمولہ، وہی شہر بند کرنے کی دھمکیاں دینا اور منتخب حکومت کو اپنی گیدڑ بھبھکیوں کے زیر اثر لانا۔ تھوڑا بہت منجن پنڈی کے شیخ کے ہاتھوں بک گیا۔ ایک صوبے کے منتخب وزیراعلی کو کل پہلی بار بازاری زبان استعمال کرتے ہوئے دیکھا۔ کل جو ایک بات نئی تھی اس میں عمران خان کے روپ میں مودی کی جھلک بھی دکھائی دی۔ وہ بھی لاہور پر حملہ کرنے کے عزائم ظاہر کر رہے تھے اور سرحد پار سے بھی یہی کچھ سننے کو ملتا ہے۔ اب جب ایسے نایاب لوگ آپ کے ملک میں موجود ہوں جو بھارت سے اتنی کشیدہ صورتحال کے بعد بھی اپنی روش نہیں چھوڑ رہے تو یقین ما نیے، بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں۔ اس پر سوشل میڈیا پر کارکنان کی جانب سے یہ مہم کہ جب بھی عمران خان کرپشن کے خلاف نکلتے ہیں کبھی آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوجاتا ہے، کبھی کہیں دھماکہ تو کبھی بارڈر پر کشیدگی۔ تحریک انصاف کسی اور وجہ سے نہیں تو کم سے کم اس مضحکہ خیز منطق کی بدولت اپنی مقبولیت کھو سکتی ہے۔
عمران خان کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہر مہینے مجمع اکھٹا کر کے نواز شریف کو گالیاں نکالنے سے آپ وزیر اعظم نہیں بن سکتے اور اگر آ پ کو حکومت کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو جہاں آپ کو مینڈیٹ ملا ہے وہاں مثالی خدمت کرکے دکھائیں تاکہ لوگ جمہوری طریقے سے صرف آپ کو ہی منتخب کریں۔ موجودہ حکومت میں چاہے لاکھ خامیاں ہوں اور ان سے لاکھ اختلافات ہوں مگرعمران خان کے امیچور طریقے کو برداشت کرنے کے حوصلے کی میں انہیں داد دیتی ہوں۔ یہ رنگارنگ محفلیں سجانا، سڑکوں کو بلاک کرنا، آئے دن کسی نہ کسی احتجاج کی کال دینا پارلیمانی طریقہ نہیں۔کرپشن ہو یا دہشتگردی، سارے ہی جرائم قابل مذمت ہیں، اپنی تقاریر کے ذریعے اس سوچ کو فروغ دینے سے پرہیز کیا جائے کہ تحقیر اور بےعزتی کے بل پر سیاست کی جاسکتی ہے۔ روز بہ روزخان صاحب کی سیاسی حکمت یہ واضح پیغام دے رہی ہے کہ کرپشن کی جنگ اب انا کی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے، جس سے باہر نکلنا ان کے لیے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بن گیا ہے۔

Comments

Click here to post a comment