ہوم << حیدرآباد میں یونیورسٹی کیوں ضروری ہے؟ راحیل قریشی

حیدرآباد میں یونیورسٹی کیوں ضروری ہے؟ راحیل قریشی

%d8%b1%d8%a7%d8%ad%db%8c%d9%84 تعلیمی ادارے بالخصوص یونیورسٹی معاشرے کا ایک اہم حصہ تصور کیے جاتے ہیں، معاشرے اور ریاست کے تمام اداروں کو یونیورسٹیاں ہی باصلاحیت افراد کار فراہم کرتی ہیں۔ یونیورسٹی کسی بھی شہر یا معاشرے کی بھرپور عکاس ہوتی ہے. کل کا کراچی دیکھنا ہو تو کراچی یونیورسٹی کا دورہ کرلیجیے، جو آج کراچی یونیورسٹی سوچتی ہے کل کو پورا کراچی سوچے گا اور عمل بھی کرے گا. پنجاب یونیورسٹی، لاہور اور پنجاب کے معاشرے کی واضح جھلک دیکھنے کے لیے کافی ہے. +سندھ کے مخصوص مزاج اور سیاسی و معاشرتی ماحول کو سندھ یونیورسٹی کا کیمپس بخوبی سمجھا سکتا ہے۔
اس وقت پاکستان میں ’’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘‘ کی فہرست کے مطابق سرکاری سیکٹر میں پچاس (50 ) سے زائد یونیورسٹیز اور دس (10) سے زائد ’’ڈگری ایوارڈنگ انسٹیٹیوٹس‘‘ ہیں۔ بڑے شہروں میں سرکاری سیکٹر میں جنرل یونیورسٹی ،زرعی یونیوسٹی، میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج یا دیگر پروفیشنل تعلیمی ادارے موجود ہیں جو ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ و فاقی و صوبائی دارالحکومتوں کے علاوہ فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان، خضدار، ایبٹ آباد، ڈیرہ اسماعیل خان، مانسہرہ، بہاولپور، کوہاٹ، اوتھل، جامشورو، نواب شاہ، خیرپور، ٹنڈو جام، لاڑکانہ، سکھر، ٹیکسلا، گجرات، دیر، ملاکنڈ، سرگودھا، اور گلگت میں جنرل یونیورسٹی، زرعی یونیوسٹی، میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج، یا دیگر پروفیشنل تعلیمی ادارے موجود ہیں جو کہ ان شہروں کی ضرورت بھی ہیں۔
دنیا بھر میں جب بھی بڑے شہروں کی بات کی جاتی ہے تو زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی و موجودگی سے شہر کے بڑے پن کا تعین کیا جاتا ہے، بڑے شہروں کی خصوصیات اور خوبیوں میں بڑے ہسپتال، ہائیکورٹ، پارک، تفریحی مقامات، ہوٹل، معروف اور انٹرنیشنل فوڈ چین اور انٹرنیشنل برانڈ کی مصنوعات کے آؤٹ لیٹس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کی موجودگی بھی ضروری سمجھی جاتی ہے۔
حیدرآباد پاکستان کے دس بڑے شہروں میں شامل ہے لیکن سرکاری سیکٹر میں جنرل یونیورسٹی، زرعی یونیوسٹی، میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج، ڈگری ایوارڈنگ انسٹیٹیوٹس یا کوئی اور پروفیشنل تعلیمی ادارہ موجود نہیں۔ ممکن ہے یہ کوئی بہت بڑی بات نہ ہو لیکن جب بات اکیسویں صدی میں داخلے اور بلند و بانگ خواہشات اور دعوؤں کی ہو تو اس موضوع کی اہمیت اور سنگینی سامنے آجاتی ہے۔ حیدرآباد میں جنرل یونیورسٹی، انجینئرنگ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کی عدم موجودگی کا جو جواز پیش کیا جاتا ہے وہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ حیدرآباد سے تقریبا 18 کلومیٹر فاصلے پر ضلع جامشورو میں تین یونیورسٹیز موجود ہیں۔ اگر جامشورو کی یونیورسٹیز میں حیدرآباد کے طلبہ کے لیے دیے گئے کوٹے کا جائزہ لیں تو حقیقت حال کچھ اس طرح سے ہے۔
٭ حیدرآ باد کی کل آبادی : تقریبا پچیس لاکھ
٭ ہر سال انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے والے طلبہ و طالبات کی تعداد تقریباً 30 ہزار سے زائد (یہ تعداد صرف حیدرآباد کی ہے جب کہ حیدرآباد تعلیمی بورڈ کے کُل طلبہ و طالبات کی تعداد الگ ہے)
٭ یونیورسٹی آف سندھ ہر ڈیپارٹمنٹ میں 4 تا 6 ایڈمشن
٭ مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی 85 ایڈمشن
٭ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی 37 M.B.B.S ایڈمشن اور 7 B.D.S. ایڈمشن
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کوٹہ آبادی کے تناسب سے مبنی بر انصاف ہے؟ اس کے علاوہ اگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی آبادی اور اس کے تناسب سے یونیورسٹیز کی تعداد کا جائزہ لے لیا جائے تو پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے اور حیدرآباد کی آبادی کے لحاظ سے بھی مزید یونیورسٹیز کا قیام از حد ضروری ہے۔ اس ضمن میں اگر پڑوسی ملک ایران کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ایران کی آبادی پاکستان کی آبادی کے نصف سے بھی کم ہے جبکہ ایران میں یونیورسٹیز کی تعدا د پاکستان کے مقابلے میں دگنی ہے ، اس لیے یہ دلیل صرف بچگانہ ذہن کی پیداوار ہے کہ
’’ چوں کہ جامشورو میں یونیورسٹیز موجود ہیں اس لیے حیدرآباد میں یونیورسٹیز کی ضرورت نہیں‘‘
حیدرآباد پاکستان کے ان شہروں میں شامل تھا کہ جہاں چند سال پہلے ’’ہائیر ایجو کیشن کمیشن‘‘ (HEC ) نے وفاقی انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ کیا تھا، ( یہ حیدرآباد کی پہلی یونیورسٹی ہوتی ) اور اس سلسلے میںHEC کے ذمہ داران نے حیدرآباد کا دورہ بھی کیا تھا. ضلعی حکومت حیدرآباد سے مختلف مواقع پر تفصیلی میٹنگ میں بھی اس پروجیکٹ پر تبادلۂ خیال کیا تھا اور ’’کوہسارگنجو ٹکّر‘‘ کے علاقے میں تین سو ایکڑ پر مشتمل اراضی کی HEC کو منتقلی کا فیصلہ بھی ہوچکا تھا لیکن چند نامعلوم وجوہات کی بنا پر حیدرآباد انتظامیہ نے یونیورسٹی کے قیام کے لیے سنجیدہ رویے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اور اس غیر سنجیدگی کی وجہ سے HEC نے بھی حیدرآباد میں پہلی یونیورسٹی کے قیام کا پروجیکٹ مؤخر کردیا جس کے ناخوشگوار اثرات بہت دیرپا ہوں گے۔

Comments

Click here to post a comment