مولانا حسین احمد مدنی عظیم عالم دین اور تحریک آزادی ہند کے نامور لیڈروں میں سے تھے، انھوں نے ساری زندگی اتحاد کی دعوت دینے اور انگریز کے خلاف لڑائی لڑتے گزاری. چار سال مالٹا میں قید رہے، کراچی میں ان پر مقدمہ چلا، کئی مرتبہ جیل ہوئی. مولانا ہندو مسلم اتحاد کے بڑے داعی تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان سے انگریز کی بے دخلی
تبھی ممکن ہوگی جب ہندو اور مسلمان متحد ہوں گے. انھوں نے خود ہندو اور مسلمانوں کو متحد کر کے انگریز کے خلاف تحریک چلائی. وہ کسی بھی ایسی سرگرمی کو سخت ناپسند کرتے تھے جس سے ہندو مسلم اتحاد کو نقصان پہنچے.
مولاناحسین احمد مدنی کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ لوگوں نے اتحاد کی ان کوششوں کا یہ مطلب نکالا کہ مولانا ایک قوم پرست لیڈر ہیں اور وہ جدید قومی ریاستوں کو درست سمجھتے ہیں حالانکہ انھوں نے کبھی بھی رائج الوقت قومیت کی دعوت نہیں دی. یہ ضرور تھا کہ وہ انگریز کے مقابلے کے لیے ہندو مسلم اتحاد کو ضروری سمجھتے تھے. یہ ایک خالص مقامی اور داخلی ضرورت تھی جس کے پیش نظر انھوں نے بعض اوقات قومیت کی بات کی لیکن اس قومیت کا جدید قومی ریاستوں سے کوئی تعلق نہیں تھا. بعض قوم پرستوں نے اپنے نظریات کو مسلم معاشرے میں معتبر بنانے کے لیے مولانا مدنی کو بھی ایک قوم پرست لیڈر قرار دیا حالانکہ وہ کبھی بھی قومیت کے داعی نہیں رہے. وقت کی ضرورت سمجھتے ہوئے ہندو مسلم اتحاد کے قائل صرف مولانا مدنی ہی نہیں تھے بلکہ ابتداء میں قائداعظم بھی اس خیال کے حامل تھے، حضرات علمائے کرام میں سے مولانا ابوالحسن علی ندوی، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا اور مجلس احرار کے علماء بھی یہی سمجھتے تھے. مگر ہندو مسلم اتحاد کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو اتحاد کی بات کرے گا وہ معروف معنوں میں قوم پرست بھی ہوگا.
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے مولانا مدنی کے خلاف جو اشعار کہے تھے وہ ان کے قوم پرستانہ افکار کی وجہ سے کہے تھے. ہمارے دوستوں کو اشعار یاد رہے لیکن مولانا مدنی اور علامہ اقبال کی وہ خط و کتابت یاد نہ رہی جس میں مولانا مدنی نے قوم پرستی سے برأت کا اعلان کیا تھا. مولانا مدنی نے ایک جگہ تقریر کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ " آج کل قومیں وطن کی بنیاد پر بنتی ہیں " تو علامہ اقبال نے خفا ہو کر یہ تین شعر موزوں کر دیے تھے
عجم ہنوز نہ داند رموز دیں ورنہ
ز دیوبند حسین احمد این چہ بوالعجبی ست
سرود برسر منبر کہ ملت از وطن ست
چہ بے خبر ز مقام محمد عربی ست
بمصطفی پرساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اونر سیدی تمام بولہبی ست
علامہ اقبال کے ان اشعار کے بعد مولانا مدنی اور ان کے درمیان مولانا طالوت کے واسطے سے مراسلت ہوئی . علامہ اقبال نے کہا کہ " اگر مولانا نے مسلمانان ہند کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ جدید نظریہ وطنیت کا اختیار کریں تو دینی پہلو سے اس پر مجھ کو اعتراض ہے." اس پر مولانا مدنی نے لکھا کہ " میں یہ عرض کر رہا تھا کہ موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں . یہ اس زمانے کی جاری ہونے والی نظریت اور ذہنیت کی خبر ہے . میں نے یہ نہیں کہا کہ ہم کو بھی ایسا کرنا چاہیے. ایک امر واقعہ کی خبر دی گئی ہے نہ کہ اس
کا حکم ہے. پھر اس کو مشورہ قرار دینا کس قدر غلطی ہے" مولانا مدنی کی اس وضاحت کے بعد علامہ اقبال نے لکھا کہ " خط کے مندرجہ بالا اقتباس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ مولانا اس بات کا صاف انکار کرتے ہیں کہ انھوں نے مسلمانان ہند کو جدید نظریہ قومیت اختیار کرنے کا مشورہ دیا. لہذا میں اس بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ مولانا کے اس اعتراف کے بعد مجھے ان پر کسی قسم کے اعتراض کا کوئی حق نہیں رہتا "....
یہ تھی اس اختلاف کی حقیقت جسے لے کر مولانا مدنی کو وقتا فوقتا ایک قوم پرست لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے. حقیقت یہ ہے کہ مولانا جدید قومی ریاستوں کو
مسلمانوں کے لیے درست نہیں سمجھتے تھے. انھوں نے جہاں کہیں بھی قومیت کی بات کی اس سے مراد انگریز سے آزادی کےلیے ہندو مسلم اتحاد تھا اور بس.
ان لوگوں کا بس چلے تو میثاق مدینہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عرب قبائل سے کئے گئے درجنوں مشترکہ دفاع(بجز اس جنگ کے جو اختلاف دین کی بنا پر ہو )کے معاہدے بھی قومی ریاست کا فتوی لگا کر مسترد کر دیں ۔
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ھے کہ ناقص ھے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
درست کہا ھاشمی صاحب . شکریہ
اس موضوع پر اقبال کی زندگی کے آخری ایام میں حسین احمد مدنی سے ہونے والے مذہب اور قومیت کے عنوان سے اس کتاب کا بھی مطالعہ کیجے تاکہ حقیقت پوری طرح منکشف ہو۔آپ کی تحریر نامکمل اور جانبدارانہ ہے توجہہ وتاویل نہیں دلیل پیش کیجے اگر ناگوار نہ گزرے تو ضرور لنک میں دی گی کتاب کا مطالعہ کریں
https://archive.org/details/IqbalKaAkhriMarqa
دلیل اور کسے کہتے ہیں میں نے ان دونوں کی گفتگو نقل کی ہے . ( اسیران مالٹا ص : 233)
کسی کی گفتگو اور کہی ہوءی بات دلیل نہیں ہوتا نہ اس کا اطلاق تاریخی حوالے کے طور پر کیا جاسکتا ہے اس دور کے اخبارات اور کسی مستند تاریخی کتاب سے حوالہ عنایت کریں تو بہتر ہے ورگر نہ یہ صرف آپ کی راءے تو ہوسکتی ہے مگر درست تاریخ کی ترجمانی نہیں
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ علمائے دیوبند کی ایک بڑی تعداد وطن پرستی کے نظریے سے متاثر رہی ہے جسکا مظاہرہ آج بھی ہمیں انڈیا کے علمائے دیوبند میں دیکھنے کو مل جاتا ہے۔
اگرر براہ نہ لگے تو ایک بات اور واضع کرتا چلوں کہ اسلامی ریاست کا تصورکبھی بھی علمائے دیوبند میں نہیں رہا۔ مولانا حسین احمد مدنی اپنے خطوط میں موجودہ دور میں مدینہ جیسی اسلامی ریاست کے خیالات پر تعجب کا اظہار کرچکے ہیں۔
جودہ دور میں مدینہ جیسی ریاست پر ہر ایک کو تعجب ہو گا اس لیے کہ یہ عملا ممکن نہیں . دیوبند نے پہلے اور اج بھی سیکولرازم کو ایک کم برائی کے طور پر قبول کیا ہے اس لیے کہ وہاں گر کانگریس کی طرف ہاتھ نہ بڑھاتے تو پھر انتہاپسند ھندو کا سامنا ہوتا . آپ پاکستان میں دیکھ لیں یہاں دیوبندی جضرات سیکولرازم کے سب سے بڑے ناقد ہیں
حیرت ہے پاکستان سے انڈیا تک دیکھے تو آپ کی بات کے برعکس نظر آتا ہے
موجودہ دور میں مدینہ جیسی ریاست کے قیام پر آپ کے اکابر اور آپ کو تو تعجب ہوسکتا ہے اور عملاً امکانات آپ سب کے نزدیک نہ ہونے کے برابر ہوسکتے ہیں مگر ایسا ممکن ہے ہمارا ماننا ہے کہ رب کی قدرت کاملہ کی بدولت آج بھی مدینہ جیسی ریاست قاءم کی جاسکتی ہے
لیکن علماء دیوبند ہندوستان کے لیڈر نے تو صاف فرمایا ہیں کہ سیکولرازم کے لئے آخری دم تک لڑیں گے
تقسیم ہند کے وقت اقبال مسلمانانِ ہند کے ساتھ دو قومی نظریے کے حامی تھے اور اسی کی بنیاد پر پاکستان عالم وجود میں آیا۔ علامہ اقبال جب بسترِ علالت پر تھے، اس وقت ایک بڑا دلچسپ واقعہ پیش آیا کہ مولانا حسین احمد مدنی جو کہ مسلمانوں کے ہندوستان میں رہنے کے حامی تھے نے دہلی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنا چاہئے کیونکہ یہ ان کا پیدائشی ملک ہے اور وہ ہندوستانی ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ اقبال کو یہ بات پسند نہ آئی۔ انہوں نے مولانا کی اس سوچ کے خلاف اشعار کا ایک قطعہ لکھ کر اخبارات میں شائع کروا دیا جس کے بعد ایک بڑا علمی، مذہبی اور سیاسی مباحثہ شروع ہوا۔
اس مسئلے پر اقبال کی زندگی اور اس کے بعد بھی بحث چلتی رہی۔ اس سلسلے میں اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے والدِ محترم کو تصور میں لے کر خط لکھے جن سے ہمیں اقبال کے ملت کے تصور کو جاننے میں بڑی مدد ملے گی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی کتاب” اپنا گریبان چاک “ میں” دوسرا خط “ کے عنوان سے جو خط لکھا، اس سے کچھ اقتباس ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں؛
والد مکرم السلام علیکم
ہم مسلمانوں کے قومی تشخص کے بارے میں آپ کی جو بحث مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ ہوئی۔ ان کا موقف تھا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کی قومیت ہندی ہے۔ آپ نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ” قوم “ اور” ملت “ کے ایک ہی معنی ہیں۔ مسلم قوم وطن سے نہیں بلکہ” اشتراکِ ایمان “ سے بنتی ہے۔ اپنے نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے چند مثالیں بھی دی تھیں یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اپنے آبائی وطن سے ہجرت نہ کرتے اور کفار کے ساتھ تصفیہ کر لیتے کہ نسل، زبان اور علاقے کے اشتراک کی بنا پر ایک ہوتے ہوئے وہ اپنے خدائوں کی پرستش جاری رکھیں اور مسلمان اپنے خدا کی عبادت کرتے رہیں گے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلےنیشنلسٹ قرار پاتے۔ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کو اشتراکِ ایمان کی بنیاد پر ایک ملت، امت ،یا قوم بنایا۔
پس ملتِ اسلامیہ اشتراک وطن سے نہیں بلکہ اشتراکِ ایمان سے بنتی ہے “۔
ایک اور جگہ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں؛
؛”آپ نے اشتراکِ ایمان کی بنیاد پر مسلم قومیت کا تصور پیش کر کے برصغیر میں” دو قومی نظریہ “ کی حقیقت کو تقویت بخشی۔ چنانچہ مسلم قوم وجود میں آئی اور پھر اس قوم کے لئے وطن بصورت پاکستان حاصل کر لیا گیا۔ بلکہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ سمجھنے میں بھی یہی جذبہ کام کر رہا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست کے طور پہ سامنے آیا اور اپنی اسی نظریاتی اساس کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے پاکستان نے اقوام متحدہ میں مسلم امہ کی کوکھ سے نکلی ہوئی کئی قومی ریاستوں کی نوآبادیاتی طاقتوں سے آزادی کی خاطر تگ و دو میں حصہ لیا۔ فلسطین کی آزادی اور کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لئے کوششیں جاری رکھیں۔ افغانستان سے غیر مسلم حملہ آوروں کو نکالنے کے لیے پاکستان نے افغان مجاہدین کے شانہ بشانہ حصہ لیا۔ بعد ازاں پاکستان ہی کی مدد سے وہاں اسلامی حکومت قائم ہوئی اور اسے تسلیم کیا گیا۔ “۔
زبردست
اچھا ..اگر مدنی صاحب کا ہندو مسلم اتحاد کا نظریہ مسلمان عوام میں مقبول ہو جاتا اور تقسیم نا ہوتی تو پھر متحدہ ہندوستان میں کون سا عمرانی معاہدہ قابل عمل ہوتا ؟؟؟جدید قومی ریاست والا نہیں تو پھر کون سا ؟؟
وہ معاہدہ یہ ہوتا کہ دفاع اور کرنسی پورے ملک کی ایک ہی ہو گی باقی صوبوں کو خود مختار کیا جائے گا ،، مسلمان اکثریتی صوبوں میں ان کے مذہب کے مطابق قوانین ہوں گے ... مولانا آزاد نے تو قائد اعظم کو اس پر راضی کر لیا تھا لیکن پھر کچھ نہ ہو سکا .
کب اور کہاں راضی کرلیا تھا ذرا تاریخی حوالہ بھی عنایت فرمادیں یا یہ بھی کسی کی گفتگو سے ماخوذ ہے
دیکھے ڈاکٹر صفدر محمود کیا لکھتے ہیں
”
جنگ عظیم اول نے قومی ریاست کے تصور کو نہایت پرزور انداز سے اچھالا اور وطن کو قوم کی بنیاد قرار دے کر اور وطنیت کے فلسفے کو ہوا دے کر حب الوطنی کے جذبے کو ابھارا جسے جنگ میں شریک قوموں نے اپنے جنگی مقاصد کے لئے خوب استعمال کیا۔ 1920ء کی دہائی کے ارد گرد یہ فلسفہ ہندوستان کی علمی فکری حلقوں میں زیر بحث تھا۔1916ء کے میثاق لکھنٴو کے کانگریسی حلقے پچھتاوے کا شکار تھے اور اگر آپ گاندھی جی کے بیانات اور ان کے رسالے ینگ انڈیا کا مطالعہ کریں تو آپ کو گاندھی جی اکثر یہ کہتے ملیں گے کہ چند کروڑ لوگوں کے مذہب تبدیل کرنے سے الگ قوم نہیں بنتی۔ یہ ہم ہی میں سے ہیں کوئی باہر سے نہیں آئے۔ میں ان(Converts)کو الگ قوم نہیں مانتا۔ طویل عرصہ قبل میں نے کہیں پڑھا اور محظوظ ہوا کہ گاندھی جی ان دنوں جھنجلا کر کہتے تھے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جب نتھو رام مسلمان ہوجاتا ہے تو راتوں رات کیسے اس کی کایا پلٹ جاتی ہے اور وہ ڈرپوک سا ہندو اسلام قبول کرتے ہی مرنے مارنے پر کیوں تل جاتا ہے۔اس نظریاتی مباحث کے دور میں جب فلسفہ وطنیت کے ذریعے مسلمانوں کی منفرد نظریاتی شناخت میں سرنگ لگائی جارہی تھی تو علامہ اقبال نے مسلمانوں کو انتباہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
مختصر یہ کہ مسلمان قوم رسول ہاشمی ہونے کی وجہ سے اپنی ترکیب، اپنے وجود، اپنی فکر، اپنی تہذیب اور اپنے مذہب کے حوالے سے دوسری اقوام سے بالکل الگ ہے اس لئے اس کا دوسری قوموں سے موازنہ بے معنی ہے۔ علامہ اقبال کا یہ مصرعہ ہر پڑھے لکھے مسلمان کا حرزجاں بن گیا کہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی، یعنی اس کے قومی اجزائے ترکیبی ہی دو سری اقوام سے الگ ہیں، مختلف ہیں۔ میرے خیال میں اس نقطے کی وضاحت کی ضرورت نہیں بہرحال کانگریسی جمعیت علماء ہند کے قائد مولانا حسین احمد مدنی سے علامہ اقبال کا بیانگ دہل اختلاف بھی اسی فکری فلسفے اور سیاسی لہر کاشاخسانہ تھا۔ مولانا مدنی کا کہنا تھا کہ قومیں اوطان(وطن) سے بنتی ہیں جبکہ علامہ اقبال نے ان کو یہ جواب دے کرکانگریسی علماء کے منہ بند کردئیے کہ قومیں مذہب سے بنتی ہیں ،وطن محض ان کی جغرافیائی پہچان ہوتی ہے۔ ارمغان حجاز میں علامہ کا مولانا حسین احمد کو جواب بار بار پڑھنے کے لائق ہے۔“
خاص ہے ترکیب میں… August 21, 2011
حوالہ(http://drsafdarmahmood.blogspot.com/2012/05/august-21-2011.html)
دراصل یہ لوگ نہ مدنی ؒ کے ہمدرد ہیں نہ اقبال کے۔۔۔۔۔۔۔۔ ان دونوں سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں اس لیے اقبال ؒ کو آڑ بنا کر مدنی ؒ پر حملہ آور ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ایسے بھونکنے والوں کی وجہ سے مدنی ؒ کی شان میں کمی نہیں اتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو یہ تک سمجھ نہیں اتا قیام پاکستان کے بعد مدنیؒ نے پاکستان کو مسجد سے تعبیر کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے کچھ بھی کہ جاتے ہیں یہ دشمنان اقبال و مدنی
جناب دلیل کاجواب دلیل سےعنایت فرماءیں کون کس کادشمن ہےسب تاریخ میں محفوظ ہے
زندگی بھرمسلمانوں اور قاءد اعظم اورپاکستان کی مخالفت کی اورمسلمانان برصغیرکی ازادی کی
راہ میں روڑے اٹکاءے اورقیام پاکستان کےبعدجب سارے حربےناکام ہوگےتومسجدقراردےکرمخالفت کاداغدھونےکی کوشش کرتےہیں
کیاخوب طرزعمل ہےواہ جناب واہ
مسجد قرار دے کر ساری زندگی کی مخالفت حمایت میں تبدیل ہوگی کمال ہے جناب