ہوم << نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا - رضوان الرحمن رضی

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا - رضوان الرحمن رضی

رضوان رضی میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہو رہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری حکومت کو حاصل ہوا، ورنہ وردی والی جمہوریت کے دور میں تومعاملہ کبھی ملک میں موجود ’’نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کے خلاف عالمی مدد کی بھیک مانگنے کی جدوجہد سے آگے نہیں بڑھ پایا جو کہ دراصل دہشت گردی میں ملوث ہونے کا بالواسطہ اعتراف ہوا کرتا تھا۔
گذشتہ پندرہ سال تو ہمیں وہ پچیس لاکھ افغان مہاجرین بھی بھولے رہے، جن کی ہم اب تک میزبانی کرتے رہے ہیں۔ اور کشمیر کا تو ذکر ہی کیا کہ اس پر کمانڈو جنرل پرویز مشرف نے وہ وہ قلابازیاں کھائیں اور اس کے اتنے ایک حل تجویز کر دیے کہ محسوس ہونے لگا کہ مسئلہ کشمیر اب دفن ہوگیا ہے۔ لیکن کشمیری بہت سخت جان نکلے اور برہان مظفر وانی نے خون دے کر اپنی آزادی کی جدوجہد کو جو مہمیز بخشی تو اب یہ لازم تھا کہ پاکستان کے عوام کی منتخب قیادت اس پر اپنے ووٹرز کے جذبات کے عین مطابق عمل کرتی۔ جس طرح بھارتی فوجیون نے شہید کا گلا کاٹنے کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالی اور بھارتی عوام نے اس پر تالیاں بجا کر داد دی تو پوری چناروادی میں آگ سی لگ گئی۔ اب وہاں کا ہر جوان برہان مظفر بننے گھر سے نکل پڑا ہے۔
بھارت نے اس کو جنگی جنون بنانے کی کوشش کی اور پاکستان کی بحثیت ریاست اور اس کے عوام کا ردعمل جاننے کے لیے ایک ماحول بنایا تو اسے سرحد سے اس پار سے مسکت جواب گیا جس سے اس کی ’تسلی‘ ہو گئی۔ اس کے میڈیا کی کذب بیانی سے دیا گیا تاثر کہ نیپال، بنگلہ دیش اور افغانستان بھی پاکستان مخالفت میں اس کے ساتھ ہیں، چوبیس گھنٹے کی عمر بھی نہ جی پایا۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے سوشل میڈیا پر پاک فوج کے ایک جرنیل کے کپتان صاحبزادے کے ہاتھوں موٹروے پولیس کے انسپکٹرز کی درگت بنانے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ہمارے اداروں کے بارے میں جن جذبات کا اظہار ہو رہا تھا، وہ سب پس منظر میں چلے گئے اور قوم نے یک زبان ہو کر بتایا کہ ہم کس طرح یک جان ہیں۔ یہ پیغام نئی دہلی میں بہت تشویش کے ساتھ سنا اور سمجھا گیا۔
وزیراعظم کی تقریر سے محض ایک دن قبل برطانوی فوج کے سربراہ کی اسلام آباد آمد، پاکستان کے آرمی چیف سے ملاقات اور اس کے بعد آرمی چیف کا میاں نواز شریف کو امریکہ فون کرنا اس امر کی غمازی کرتے تھے کہ بھارتی خواہش پر امریکہ نے اپنا کوئی بالواسطہ پیغام بھیجا ہے۔ دراصل امریکی خواہشات کے ہم تک پہنچانے کے لیے گذشتہ ڈیڑھ دہائی سے یہی راستہ استعمال ہوتا رہا ہے۔ لیکن ظاہر ہے سامنے ایک فون پر ڈھیر ہوجانے والی قیادت نہیں تھی، اس لیے تقریر سے تو یہی پتہ چلا کہ بات نہ بن سکی۔ اور آخرکار امریکی دفترِ خارجہ کا ایک غیرجانبدار سا بیان آ گیا کہ دونوں ملک اپنے مسائل کو باہمی گفت و شنید سے حل کریں، حالاں کہ پاکستان کی قیادت یہ باور کروا چکی تھی کہ باہمی مذاکرات سے مسئلہ حل نہ ہونے کی وجہ سے ہی ہم سے عالمی فورم پر لے کر آئے تھے۔
میاں نواز شریف نے اقوامِ متحدہ روانہ ہونے سے پہلے مقامی طور پر کچھ اداروں سے بھی رعایتیں طلب کی تھیں جو عطا کر دی گئیں۔ عمران خان صاحب جو اس سے قبل رائیونڈ دھرنے کی تاریخ بیس سے بائیس ستمبرکے درمیان رکھنے پر مُصر تھے، انہوں نے اس کو دس دن آگے بڑھا دیا اور قادری صاحب جو برطانیہ پدھارنے سے پہلے یہ کہتے ہوئے پائے گئے تھے کہ وہ وہاں جا کر یورپی یونین کے سامنے موجودہ نواز شریف حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مہم چلائیں گے، ان کو بھی ایک سخت ’’شٹ اپ‘‘ کال دی گئی۔ کال اتنی سخت تھی کہ موصوف تا دمِ تحریر نہ صرف بولنے سے انکاری ہیں بلکہ ان کی عمرانی دھرنے مین شرکت بھی مشکوک نظر آتی ہے۔
میاں نواز شریف نے کمال ہوشیاری اور عقل مندی سے خود پر ’مودی کا یار‘ ہونے والے الزامات لگانے والوں کو مودی کی بغل میں کھڑا کردیا ہے۔ وہ اپنے اوپر پڑنے والا مقامی دبائو بڑی چالاکی سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس ڈائس پر چھوڑ آئے ہیں جہاں انہوں نے کھڑے ہو کر تقریر فرمائی تھی۔ اب ان کے سیاسی مخالفین کو ان کے خلاف ماحول بنانے کے لیے معاملہ پھر صفر سے شروع کرنا پڑے کرے گا جس کے لیے ’بہاماس‘ سے نئی کمک پہنچ چکی ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بھی پہلی مرتبہ پیشہ ورانہ دیانت داری کے ساتھ اس اہم موقع کی تیاری کی اور شاید ان کے لیے بھی پہلا موقع تھا کہ انہیں معاملات کو خالص پیشہ ورانہ انداز میں دیکھنے کی ’’اجازت ‘‘ ملی تھی۔ اور ’جس کا کام اسی کو ساجھے‘ کے مصداق جب یہ کام پیشہ ورانہ ہاتھوں میں آئے (جن میں سے کسی کو دعویٰ نہیں تھا کہ اسے سب پتہ ہے) تو سائیڈ لائن پر او آئی سی کا اجلاس بھی ہوا، جس میں پاکستان کی ’ہرقسم‘ کی حمایت کا نہ صرف زبانی اعادہ کیا گیا بلکہ اس کے عملی ثبوت بھی نظر آئے۔ دنیا بھر کی اہم قیادت سے ملاقاتیں بھی ہوئیں اور ان تک اپنا نکتہ نظر بھی موثر انداز میں پہنچایا گیا۔
جب اجلاس سے پاکستانی وزیراعظم نے خطاب کرلیا اور اس ضمن میں امریکی و بھارتی خواہشات کو بھی خاطر میں نہیں لائے تو پھر ایران کے صدر کو بھی پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کرنا یاد آ گیا۔ اور اس کے بعد ایران نژاد پاکستانی لابی، سوشل میڈیا پر روبہ عمل ہو گئی جس کا واحد مقصد سعودی عرب کو شیریں مزاری اور مشاہد حسین ٹائپ کی پارلیمانی تقریر کے موافق سوشل میڈیائی گدڑ کٹ لگانا اور گالم گلوچ کرنا تھا۔ حالاں کہ طے شدہ معاملات کے مطابق او آئی سی، جس کی نمائندگی سعودی عرب کے پاس تھی، اس نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سائیڈ لائن پر اجلاس طلب کر کے پاکستان کو جو سفارتی کمک فراہم کی تھی، اس نے بھارت کا سارے کا سارا بیانیہ اڑا کے رکھ دیا تھا، شاید اسی کا اندازہ کرتے ہوئے بھارت نے اپنے نودریافت شدہ ’متر‘ امریکہ کو اس معاملے میں اتارا۔
سوشل میڈیا پر اور تو کچھ نہیں ہوسکا لیکن سب سے پہلے یہ بیانیہ چھوڑا گیا کہ نواز شریف نے جی ایچ کیو کی لکھی ہوئی تقریر پڑھی۔ حالاں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ جی ایچ کیو ادھر ہی واقع ہوا کرتا تھا جب بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف نے کشمیر پر قلابازیاں لگانے کی انتہا کر دی تھی۔ تو پھر انہوں نے اتنی اہم تقریر اپنے چیف کو کیوں نہیں لکھ کر دی؟ حیرت ہے۔
بھارت نے بھی میاں نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے بعد جنگی جنون سے مراجعت کا سفر اختیار کر لیا ہے، مناسب ہوگا کہ ان کے مقامی ناقدین بھی کچھ دنوں تک اپنے خیالات سے مراجعت نہ بھی کریں تو کم ازکم میاں نوازشریف کی وطن واپسی کا انتظار کرلیں ۔ان سے گذارش ہے کہ میاں صاحب بھی ادھر ہی ہیں اور سیاست بھی کہیں نہیں جاتی، اور اب قدرے تاخیر سے ہی سہی لیکن اگر ایرانی قیادت کی طرح، جناب عمران خان کو بھی کشمیریوں کا بہتا خون نظر آ گیا ہے تو پھر کیوں نہ چند روز کے لیے وہ کان بند کر لیں، کہ بعض موقعوں پر خاموشی بھی بہت بڑی عقل مندی ہوتی ہے۔

Comments

Click here to post a comment