ہوم << الیکشن کمیشن، عمران خان اور نون غنیت - آصف محمود

الیکشن کمیشن، عمران خان اور نون غنیت - آصف محمود

آصف محمود ٹیکسلا میں انتخابی ریلی سے خطاب کر کے، کہا جا رہا ہے کہ، عمران خان نے چوتھی مرتبہ الیکشن کمیشن کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ میرے پیش نظر سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کے اس ضابطے کو مسلسل پامال کرتے چلے جانا عمران خان کا ایک درست رویہ ہے؟
میں قانون کا ایک طالب علم ہوں اور قانون کی عملداری پر یقین رکھتا ہوں۔ میں نے اس سوال پر بہت غور کیا اور میری رائے یہ ہے کہ عمران خان اور کیا کرتے؟جس قانون کی بنیاد ہی بد نیتی پر ہو اس پر عمل کیسے کیا جا سکتا ہے؟ کیا عمران خان اپنے ہاتھ اور بازو اس لیے کاٹ پھینکیں کہ نون غنیت گاہے قانون کی شکل میں ظہور کرتی ہے؟
قانونی نون غنیت ملاحظہ فرمائیے۔
ایک مسلمہ ضابطہ یہ ہے کہ انتخابات کے دوران اعلی حکومتی شخصیات انتخابی حلقے میں کوئی ایسی سرگرمی نہیں کریں گی جو انتخابی عمل پر اثر انداز ہو۔ حکومت چونکہ تجربہ کاروں کی ہے اس لیے سر جوڑے گئے کہ نواز شریف توکسی انتخابی حلقے میں جا نہیں سکتے تو کوئی ایسا راستہ نکالا جائے کہ عمران خان بھی نہ جا سکیں۔ چنانچہ نیا ضابطہ متعارف ہو گیا کہ جس حلقے میں الیکشن ہوگا وہاں کسی بھی جماعت کا سربراہ نہیں جا سکے گا۔ اس ضابطے کی شان نزول بادی النظر میں بد نیتی ہے۔ اس پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔گویا آپ روز بد نیتی پر مبنی قانون بنواتے رہیں اور عمران خان ساری عمر انہیں چیلنج کر کر کے دھکے کھاتا رہے اور پیشیاں بھگتتا پھرے؟
قبلہ پرویز رشید عملا وفاقی وزیر برائے مذمت عمران خان بنے پھرتے ہیں اور اس پر ارشاد فرماتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو عمران کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی صاحب نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن تمام امیدواروں کو مساوی مواقع فراہم کرے۔ یعنی اگر ن لیگ کا سربراہ انتخابی جلسے میں نہیں جا سکتا تو عمران کو بھی نہ جانے دے۔
ملک نہ ہوا نون غنوں کی خاندانی جاگیر ہو گئی۔
مساوی مواقع، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
جب جہانگیر ترین کے انتخابی حلقے میں نواز شریف نے کروڑوں کی سکیموں کی رشوت ووٹرز کو پیش کی تھی، اس وقت کیا دونوں امیدواروں کے پاس مساوی مواقع تھے؟
باقی جملہ نون غنوں کو جان لینا چاہیے کہ اگرتحریک انصاف کا سربراہ جلسے میں جا رہا ہے تو آپ بھی کوئی ایسا سربراہ بنا لیں جو وزیر اعظم نہ ہو تو وہ بھی چلا جایا کرے۔ عہدے بھی سارے آپ نے نکے اور وڈے بھا جی ہی کی جیب میں ڈالنے ہیں اور واویلا مچا کر قوانین کو ایک تماشا بنانا ہے۔
پابندی سیاسی جماعت کے سربراہ پر نہیں اصل میں وزیر اعظم پر ہے کہ ان کے جانے سے انتخابی عمل متاثر ہوتا ہے۔ اب نون غنوں نے چونکہ پارٹی سربراہ اور وزیر اعظم کے عہدوں کو ایک ہی شخص کی جیب میں رکھنا ہے اس لیے نیا قانون بنا دیا کہ کسی بھی جماعت کا سربراہ جلسے سے خطاب نہیں کرے گا۔ ایسے میں عمران خان کیا کرے؟
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو تو نوٹس جاری کر دیے ہیں. کیا اس میں ہمت ہے کہ وہ ذرا ایک نوٹس نواز شریف کو بھی جاری کرے کہ جہانگیر ترین کے حلقے میں انتخابی عمل کے دوران بھاری مالیاتی پیکیجز کا لالچ ووٹرز کو انہوں نے کیوں دیا۔ (اس پیکیج کا رشوت ہونا اس سے بھی ثابت ہے کہ شکست کے بعد میاں صاحب نے وہاں ایک ٹکہ نہیں دیا جہاں کروڑوں کے وعدے فرما کر آئے تھے)۔
باقی جہاں تک اس دھمکی کی الیکشن کمیشن کے پاس توہین عدالت میں چھ ماہ قید میں ڈالنے کا اختیار موجود ہے تو جناب صرف اتنا عرض کر دوں کہ سماج کو خوف کی لاٹھی سے نہیں، انصاف، دیانت اور مساوات سے چلایا جاتا ہے۔

Comments

Click here to post a comment