یہ 1987ء کی فروری کا ایک سرد دن تھا جب بھارت کے دارالخلافہ دہلی میں بن بلائے مہمان کی اچانک آمد کی اطلاع سے کھلبلی مچ گئی۔ راجیوگاندھی کو اطلا ع دی گئی کہ پاکستانی صدر ضیاء الحق کا طیارہ نئی دہلی کے ائیرپورٹ پر لینڈ کرنے والا ہے۔ راجیو گاندھی کے لیے یہ اطلاع حیران کن تھی، ان دنوں پاکستان اور بھارت کے مابین سرد مہری نقطہء انجماد کو چھو رہی تھی۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں کھنچاؤ اتنا بڑھ چکا تھا کہ معاملہ سرحدوں پر فوجی نقل و حرکت تک آن پہنچا تھا۔ بھارتی سرکار نے راجھستان کی سرحد پر فوج کو الرٹ کر دیا تھا۔ پاکستان کی پہلی ڈیفنس لائن آئی ایس آئی نے راولپنڈی میں جنرل ضیاء الحق کو بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے جارحانہ عزائم کی اطلاع پہنچا دی تھی۔ اس کھنچاؤ اور تناؤ کے ماحول میں جنرل ضیاء الحق کا اڑان بھر کر دہلی آ پہنچنا بھارتی نیتاؤں کے لیے حیران کن تو ہونا ہی تھا۔
اندرا گاندھی کے مغرور بیٹے راجیو گاندھی کو بتایا گیا کہ ضیاء الحق کرکٹ میچ دیکھنے آ رہے ہیں۔ ان دنوں پاکستان کرکٹ ٹیم عمران خان کی قیادت میں بھارت کے طویل دورے پر تھی۔ سیریز میں پاکستان کو بھارت سے پانچ ٹیسٹ اور چھ ون ڈے کھیلنا تھے، دو ٹیسٹ میچ ہو چکے تھے جو دونوں کے دونوں بنا کسی نتیجے کے ختم ہوئے تھے۔ تیسرا ٹیسٹ میچ کھیلا جا رہا تھا اور ادھر راجھستان میں بھارت پاکستانی سرحدوں سے کھلواڑ کرنے کو بے چین تھا۔
ضیاء الحق کی اس طرح آمد سے اندرا گاندھی کے مغرور بیٹے کے غرور کا وزن کچھ اور بڑھ گیا، اس نے ضیاء الحق سے ملنے سے انکار کر دیا لیکن بھارتی اپوزیشن اور کابینہ نے راجیوگاندھی کو سمجھایا کہ آپ کے ایسا کرنے سے دنیا کو اچھا پیغام نہیں جائے گا، یہ سفارتی آداب کے بھی خلاف ہے۔ بادل نخواستہ راجیوگاندھی ضیاء الحق سے ملنے کے لیے تیار ہوگئے اور جنرل کے استقبال کے لیے ائیر پورٹ چلے آئے۔
ائیرپورٹ پر راجیوگاندھی نے ضیاء الحق کا توہین آمیز سرد مہری سے استقبال کیا، ادھر جنرل تھا کہ مسکرائے جا رہا تھا۔ راجیو نے جنرل کو دیکھے بغیر بےجان مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھا دیا اور اپنے معاون خصوصی سے کہا کہ جنرل میچ دیکھنے چنائے جانا چاہتے ہیں، ان کا خیال رکھنا۔ راجیو گاندھی کا سرد رویہ اور میزبانوں کے ستے ہوئے چہرے بھی ’’بن بلائے مہمان ‘‘ کے اعصاب چٹخا سکے نہ لبوں سے مسکراہٹ نہ چھین سکے۔ وہ ان سب کے درمیان کھڑا مسکرا رہا تھا، پھر درمیانے قد و قامت کے بظاہر عام لیکن فولادی اعصاب رکھنے والے جرنیل نے راجیو گاندھی کی پیشانی عرق آلود کر دی۔ جنرل چنائے کے لیے جاتے جاتے راجیوگاندھی کی جانب بڑھے اور اسی طرح مسکراتے ہوئے گڈ بائی کہنے کے بعد گویا ہوئے:
’’مسٹر راجیو! آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، کر گزریے لیکن یاد رکھیے کہ اس کے بعد دنیا ہلاکو خان اور چنگیز خان کو بھول جائے گی اور صرف ضیاء الحق اور راجیوگاندھی کو یاد رکھے گی کیوں کہ یہ ایک روایتی نہیں، ایٹمی جنگ ہوگی، ہوسکتا ہے پاکستان مکمل طور پر تباہ ہوجائے لیکن مسلمان پھر بھی زمین پر باقی رہیں گے لیکن بھارت کے خاتمے کے بعد دنیا میں ہندو ازم کہیں نہیں رہے گا‘‘۔
کہتے ہیں کہ ضیاء الحق کی اس دھمکی سے راجیوگاندھی کی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے جو اس کی اندرونی کیفیت بیان کر رہے تھے۔ وہاں موجود راجیوگاندھی کے معاون خصوصی بہرامنم کے الفاظ کو بھارتی میگزین انڈیا ٹوڈے کا نمائندہ راجیوگاندھی اسپیشل کی اشاعت میں شامل کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’میری کمر میں سنسناہٹ دوڑ گئی، یہ وہ چند لمحے تھے جب ضیاء الحق ایک خطرناک ا نسان لگ رہا تھا، اس کے چہرے کے تاثرات اور آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ جو کہہ رہا ہے کر گزرے گا، چاہے پورا برصغیر ایٹمی جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آجائے‘‘۔
جنرل ضیاء الحق یہ وارننگ دے کر اسی طرح مسکراتے ہوئے کرکٹ میچ دیکھنے چنائے چل پڑا۔ سیلانی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس کے بعد راجیو گاندھی نے راجھستان کی سرحد پر موجود بھارتی فوج کو کیا حکم دیا تھا. راولپنڈی سے گئے طبیب کے نبض پر ہاتھ رکھنے سے ہی اس کے جنگی جنون کا بخار اتر گیا تھا۔
سیلانی کو 1987ء کا یہ واقعہ بھارت کی حال میں خراب ہونے والی طبیعت پر یاد آگیا۔ مقبوضہ کشمیر کے اڑی سیکٹر میں بھارتی سورماؤں کے محفوظ بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر چار جوان دو ہاتھوں اور دو ٹانگوں کے ساتھ حملہ کرتے ہیں۔ وہ علی لصبح بریگیڈ ہیڈکوارٹر میں کسی ٹینک اور بکتر بندگاڑی میں بیٹھ کر نہیں گھستے بلکہ عام سی کلاشن کوفیں لیے خاردار تاریں کاٹ کر داخل ہوتے ہیں اور پھرگھنٹوں تک بھارتی نیوز چینلوں کے اینکر پرسن مقبوضہ کشمیر کے نمائندوں اور دہلی کے تجزیہ نگاروں کو مصروف رکھتے ہیں۔ یہ چار جوان جب خاموش ہوتے ہیں تب تک بھارت بریگیڈ کے سترہ جوان خاموش کرا چکے ہوتے ہیں۔ اڑی سیکٹر کوسترہ تابوتوں کا آرڈر دینا پڑجاتا ہے۔ اس کے بعد سے بھارتی میڈیا کی زبانیں ویلڈنگ برنر بن کر وہ آگ اگلنا شروع کرتی ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لیتیں۔ پاکستان کے پیمرا نے بھارتی نیوزچینلز کو پاکستانیوں کے ٹیلی ویژنوں سے دور کر رکھا ہے لیکن نیٹ پر بھارتی میڈیا کے کرتوت دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ سارابھارتی میڈیا ماسی فسادی بنا ایک ہی بات کر رہا ہے کہ بھارتی سینا آگے بڑھے اور پاکستان کو تباہ کرکے رکھ دے۔
بھارتی حکومت نے بھی بنا کسی تحقیق کے اڑی سیکٹر کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا، سرحد پار سے آنے والے آتنک وادیوں کو اس کا الزام دے دیا گیا۔ سیلانی اس پوزیشن میں نہیں کہ بدحواس بھارتیوں کے اس الزام کی تحقیق کرے لیکن ایک بات اسے سمجھ نہیں آتی کہ جس ملک کے لنڈا بازاروں میں نیٹو فوجیوں کی وردیاں آسانی سے دستیاب ہوں، جہاں دو بڑی عالمی طاقتوں نے میز رکھ کرکہنیاں ٹکا کر پنجے لڑائے ہوں، وہ اڑی سیکٹر میں فدائی حملے کے لیے انہیں روسی مصری کلاشن کوفیں بھی نہیں دے سکتا؟
بھارت کا واویلا ہے کہ سترہ سورماؤں کو تابوتوں میں پیک کرنے والے ’’آتنک وادیوں‘‘ کے پاس سے ملنے والا اسلحہ پاکستانی تھا اور اس پر پاکستانی ساختہ ہونے کے نشانات ہیں۔ اور یہی بات سیلانی کو کھل رہی ہے کہ ہم تو خود کلبھوشنوں کی برسوں کی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ لگ بھگ تیس برس تک وار زون میں رہنے کی وجہ سے یہاں اسلحہ عام رہا ہے۔ عالمی طاقتوں کی رسہ کشی نے پاکستان میں سبزیوں کی دکانوں کی طرح اسلحے کی دکانیں کھلوائی تھیں۔ کڑوا ہے مگر سچ یہی ہے کہ جہاں پستول کلاشن کوف کا حصول کسی بھی شخص کے لیے زیادہ مشکل نہ ہو تواس ملک کی انٹیلی جنس اداروں اور اس کی دنیا کی مانی ہوئی انٹیلی جنس ایجنسی کے لیے کسی دوسرے ملک کی 4 رائفلیں حاصل کرنا کیا مشکل کا م ہے؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ واقعی مشکل کام ہے لیکن یہ پاکستانی ادارے اتنے احمق ہیں کہ وہ پاکستانی ساختہ اسلحے سے پاکستانی نشانات بھی نہ مٹا سکیں؟
سیلانی کے گھر میں بھی بھارتی ٹی وی زی شی، پی شی اوراین ڈی، پین ڈی نہیں آتے، اس لیے اسے بھارت کے جنگی بخار کی شدت کا نہیں پتہ تھا، اسے غائبانہ دوست عامر خاکوانی کی تحریر سے پڑوسی کے مرض کا علم ہوا. ان کے کالم سے پتہ چلا کہ لالا جی کو پھر پاکستان دشمنی کا تاپ چڑھ گیاہے اور وہ تپتے ہوئے بدن کے ساتھ ہذیان بک رہا ہے۔ اس پر بھارتی میڈیا ٹھنڈے پانی میں بھیگی پٹیاں رکھنے کے بجائے اسے الٹی سیدھی پٹیاں پڑھا رہا ہے۔ زی ٹی وی ہو یا این ڈی ٹی وی، ہر نیوز چینل نے پرائم ٹائم اسی کام کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔ بھارتی فوج کے ریٹائرڈ دیش بھگت افسروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اسکرین پر لایاجا رہا ہے جن کے نزدیک پاکستان پر چڑھائی احمد آباد، گجرات میں مسلمانوں کی کسی بستی پر چڑھائی کی طرح ہی آسان ہے۔
اور پھر سیلانی کا لیپ ٹاپ عامر خاکوانی کے بیان کی گواہی دینے لگا۔ خود کو بالغ نظر اور پاکستانی میڈیا کو ’’بےبی‘‘ کہنے والا میڈیا اڑی سیکٹر پر فدائی حملے کے بعد بھارت کے جنگی جنون کے بخار میں اضافہ کر رہا تھا۔ این ڈی ٹی وی، زی ٹی وی، آج تک اور انڈیا ٹوڈے سمیت سارے چینلوں نے اسٹوڈیو میں عالمی عدالتیں لگا رکھی تھیں۔ ایک نیوزچینل میں اسے اسکرین پر ایک طرف کھڑکی میں چرب زبان اینکر منہ میں انگارے بھر ے سامنے میز پر مٹی کے تیل کا گلاس رکھے بیٹھا دکھائی دیا۔ بیچ میں اڑی سیکٹر میں مارے جانے والے بھارتی فوجیوں کے قطار میں رکھے سترہ تابوت تھے اور اس کے ساتھ والی کھڑکی میں کوئی ایک بوڑھا ریٹائرڈ افسر نریندر مودی کو آگے بڑھنے کا مشورہ دے رہا تھا۔ اس کے نزدیک پاکستان کو سبق سکھانا اب ضروری ہو چکا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ممبئی حملوں پر ہی جواب دے دیا جاتا تو پٹھان کوٹ حملوں کی نوبت نہ آتی، اور پٹھان کوٹ ائیربیس پر کارروائی کا جواب دے دیا جاتا تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتے؟
سیلانی نے ریموٹ سے چینل بدل دیا لیکن یہ تبدیلی صرف اسٹوڈیو، اسٹیج، مہمان میزبان کی تبدیلی تک ہی رہی۔ یہاں بھی اینکر صاحب وہی کام کرتے دکھائی دیے جو پنجاب کے گاؤں دیہات میں چوہدریوں کے پاس بیٹھے مراثی کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں بھی پاکستانی اور بھارتی فوج کا موازنہ کیا جا رہا تھا۔ ریٹائرڈ بابے بتا رہے تھے کہ بھارت کو کہاں کہاں سرجیکل اٹیک کرنے چاہییں۔ اینکر لقمے دے دے کر ان کے جوش میں اضافہ کر رہے تھے۔ ایسا ہی منظر انڈیا ٹوڈے میں بھی دکھائی دیا، وہاں بھی’’ عسکری تھنک ٹینک‘‘ اسکرین پر نئی دہلی کو آپشن دے رہا تھا کہ ہمیں چاہیے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کر دیں، اسے دہشت گرد ملک قرار دلوائیں، یورپ اور امریکہ کو بتائیں کہ یہ سدھرنے والی قوم نہیں ہے، اور ایک آپشن جو بہت ضروری ہے وہ پاکستان پر چھوٹے چھوٹے حملوں کا ہے۔ سیلانی بالغ نظر میڈیا کے جری صحافیوں کی صحافت دیکھ کر سر دھنے بنا نہ رہ سکا۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ کرکٹ یا کبڈی میچ کی کمنٹری کر رہے ہیں۔ یہ سو کروڑ کے ملک سے میڈیا کے لیے چنے گئے دماغ تھے جنہیں علم ہی نہیں تھا کہ وہ کیا بول اور کیا تول رہے ہیں؟ پاکستان رقبے میں بھارت سے بہت چھوٹا ہے، وسائل بھی ویسے نہیں، لیکن لوہے کا چنا ہے۔ اگر 1947ء سے اب تک قائم دائم رہ کر بھارت کے سینے پر مونگ دل رہا ہے تو اس کی کوئی تو وجہ ہوگی، وگرنہ برہمن ذہنیت کب پاکستان کو برداشت کرتی ہے۔ اگر بھارت کے پاس جوہری ہتھیار ہیں تو پاکستان نے بھی ایٹمی بم میوزم میں سجانے کے لیے نہیں بنائے۔ بھارت نے کوئی حماقت کی اور بٹن دبایا تو پاکستانی ریڈاروں کے خطرے کا سائرن بجتے ہی یہاں سے بھی بٹن دبنے میں کتنے دیر لگے گی، پھر کیا ہوگا؟
بھارتی میڈیا بنیے کی شہہ پر آج آتنک وادی اور گھس بیٹھیے کا الاپ ضرور لگائیں لیکن یہ سوال کرنے والے وہاں بھی کم نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بندوق اٹھانے والے برہان وانی کا تعلق لاہور یا سیالکوٹ سے نہیں تھا۔ آدھی سے زیادہ زندگی اسیری کاٹنے کے باوجود آزادی کا نعرہ لگانے والے علی گیلانی کی جیب میں پاکستان کا شناختی کارڈ نہیں۔ سری نگر میں سبز ہلالی پرچم لہرانے والی آسیہ اندرابی نے ساہیوال میں آنکھ نہیں کھولی۔ بھارتیوں سے آزادی کی جنگ لڑنے والے آسام، جھاڑکھنڈ، منی پور اور خالصتان پاکستان کے صوبے نہیں ہیں۔ بھارت میں چلنے والی تیس علیحدگی پسند تحریکوں کے کارکن وہیں کے مقامی ہیں، ان سب کو بھارت کی پالیسیوں نے بندوق اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔ بھارت کو سب سے زیادہ خطرہ چانکیہ کے چیلوں اور ان برہمنوں سے ہے جو اکھنڈ بھارت کے بوسیدہ خوابوں کی دکان کھولے بیٹھے ہیں۔ بھارت کو خطرہ اس کی اپنی پالیسیوں سے ہے جو پندرہ پندرہ برس کے طالب علموں کو برہان وانی بناتی ہیں۔ آ ج وقت پہلے سے زیادہ نازک ہے۔ بھارت خبردار رہے کہ پاکستان اور بھارت میں اب کرکٹ سیریز بھی نہیں ہوتیں کہ کوئی ضیاء الحق جا کر نریندر مودی کے مرگی کا علاج کر سکے، جوتا سنگھا سکے۔ کلینڈر بدلے ہیں لیکن وقت آج بھی نہیں بدلا۔ ہوسکتا ہے کہ بھارت پاکستان کو کھنڈر کر دے لیکن اسے بھی شمشان گھاٹ بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اس کے مندروں میں مورتیاں رہیں گی نہ گھنٹے بجانے والے ہاتھ اور نہ ہی بھجن گانے والے پجاری۔ ہندوازم تاریخ کا حصہ بن کرلائبریریوں میں رہ جائے گا۔ وہ حصہ جس پر بچے کھچے ہندو بین کرتے دکھائی دیں گے۔ ہاں اسلام پھر بھی موجود رہےگا، مسلمان دنیا کے ہرگوشے میں اسی طرح اللہ اکبر کی صدا لگا تے رہیں گے، وحدہ لاشریک کے سامنے سرجھکاتے رہیں گے۔ بھارت یاد رکھے کہ اب کوئی ضیاء الحق وارننگ دینے نہیں آئے گا۔ سیلانی یہ سوچتا ہوا بھارتی میڈیا کو جلتی پر تیل کا کام کرتے دیکھنے لگا اور دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
تبصرہ لکھیے