ہوم << اُنکی بدہضمی، میری بے چینی-انصار عباسی

اُنکی بدہضمی، میری بے چینی-انصار عباسی

Ansar-Abbasi-1
دو روز قبل چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کو کبھی ایک سیکولرا سٹیٹ بنانے کے حامی نہ تھے بلکہ وہ اس ریاست کو قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق چلانا چاہتےتھے۔ چیف جسٹس کے خطاب کے اس حصہ کوپاکستان کے میڈیا نے عمومی طورپر دبا دیا یا خبر کے اس حصہ کو پی ہی گئے۔
اُسی روز خیبر پختونخوا اسمبلی نے متفقہ طورپر صوبے میں سودی کاروبار کے خاتمےکےلیے ایک قانون پاس کیا لیکن اس خبر کو بھی عمومی طورپر میڈیانے کوئی خاص اہمیت نہ دی۔ چھ ستمبر کے موقع پر اپنے خطاب میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مشرف دور کی امریکا نوازپالیسیوں کا ذکر کیے بغیر پاک فوج کا اسلام سے کچھ اس طرح تعلق جوڑا جو ہمیشہ سے ہماری فوج کی پہچان رہا۔ آپریشن ضرب عضب کا حوالہ دیتے ہوئے جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کا نام ہم نے رسول پاکﷺ کی تلوار سے اس لیے منسوب کیا تھا کہ اپنی بقاء کی اس جنگ میں ہمارا ہر قدم اللہ کے حکم اور نبیﷺ کی سیرت کے مطابق اٹھے۔ آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ یہ تلوار صرف مظلوموں اور معصوموں کے دفاع اور فساد فی الارض کے خاتمے کےلیے اُٹھ سکتی ہے۔ میڈیا نے عمومی طورپر اس اہم بیان کی بھی نمایاں تشہیر نہ کی۔ جو اصول آرمی چیف نے بیان کیا اگر اُس پر جنرل مشرف نے عمل کیا ہوتا تو نہ صرف ہم ایک مسلمان ملک پر حملے کےلیے کسی غیر مسلم طاقت کا ساتھ دینےکے گناہ میں شامل ہونے سے بچ جاتے بلکہ 9/11 کے بعد جو مارا ماری پاکستان میں ہوئی اُس سے بھی بچا جا سکتا تھا۔
آرمی چیف کے اس بیان نے پاک فوج کے اسلام سے نہ ٹوٹنے والے اُس رشتہ کی تجدید کی جسے مشرف نے امریکا کی ایما پر دھندلانے کی کوشش کی تھی۔ آرمی چیف کا یہ بیان پاکستانی میڈیا پر مسلط سیکولر طبقے کی بدہضمی کاباعث تھا اسی لیے اس کو بھی دبانے کی ہی کوشش کی گئی۔ چند ہفتہ قبل کور کمانڈر سدرن کمانڈنے کہا تھا کہ پاکستان کا مستقبل ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست ہے جس کی بات کرنے میں شرمانے کی ضرورت نہیں اور جہاں تمام شہریوں کے حقوق کی ضمانت ہو گی۔ اُس موقع پر میں نے اپنے ایک کالم میں کمانڈر سدرن کمانڈ کے اس بیان پر سراہا اور امید ظاہر کی کہ دوسرے بھی اسلام کی بات کرنےمیں ہمت پکڑیں گے کیوں کہ پاکستان اور اسلام ایک دوسرے کےلیے لازم و ملزوم ہیں۔ مشرف دور سے پاکستان کو اُس کی اسلامی اساس سے دور کرنے اور سیکولر بنانے کے ایجنڈہ پر جو کام ہو رہا ہے اور جس میں میڈیا کا بھی اہم کردار ہے اُسے ناکام بنانےکےلیے اسلامی پاکستان کے حق میں زیادہ سے زیادہ آوازیں اٹھنی چاہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی11 ستمبر 1947 کی تقریر کو اپنے مقاصدکے حصول کےلیے استعمال کرنے والے سیکولر طبقے کو چیف جسٹس نے خوب جواب دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قیام پاکستان کی بنیاد اس نظریہ پر رکھی گئی کہ برصغیر کے مسلمانوں کےلیے ایک علیحدہ ملک ہوجہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکیں، جہاں شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں، جہاں ذات پات، رنگ نسل، عقیدہ و مذہب کی بنیاد پر زیادتی اور نا انصافی نہ ہو، جہاں نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اپنے اپنے عقائد پر عمل کرنے میں آزاد ہوں۔ چیف جسٹس نے قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ اپنے اس خطاب میں محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ آج سے آپ سب آزاد ہیں، ریاست پاکستان میں آپ سب اپنے مندروں میں ، اپنی مساجد میں اور دیگر عبادت گاہوں میں جانےکےلیے آزاد ہیں۔ آپ چاہے کسی بھی مذہب سے ہوں، اس سے ریاست کی کارروائی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے،
ہم اس بنیادی اصول پر کاربند ہیں کہ ہم ایک ہی ریاست کے شہری ہیں اور برابر حیثیت کے شہری ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس تقریر میں قائد اعظم کا مقصد ہرگز یہ نہ تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ملک ہو گا بلکہ اُن کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے اور ریاست قرآن و سنت کی روشنی میں غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قائد اعظم کی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین پاکستان میں مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ نہ صرف قراداد مقاصد بلکہ آئین کے دوسرے حصوں میں بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا نظام قائم کیا جائے گا جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طورپر اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزار سکیں اور جہاں اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے مذاہب پر قائم رہ سکیں اور اس کے مطابق عمل کر سکیں۔
جب کوئی اسلامی نظام کی بات کرتا ہے تو ایک مخصوص سیکولر طبقہ سوال اٹھاتا ہے کہ اسلامی پاکستان میں پھر اقلیتوں کا کیا مستقبل ہو گا۔ اس کا جواب آئین میں موجود ہے اور اس کی وضاحت چیف جسٹس صاحب نے بھی اپنے تازہ بیان میں کر دی۔ اگر اسلام سے بغض رکھنے والا یہ سیکولر طبقہ اسلام کوپڑھ لے تو سب واضح ہو جائے گا۔ لیکن جب نیت ہی خراب ہو تو کوئی کیا کہے۔ ورنہ میثاق مدینہ کو ہی پڑھ لینےسے پتا چل جاتا ہے کہ ایک اسلامی فلاحی ریاست میں اقلیتوں کو کس قدر اپنے مذاہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے پاکستان کی نظریاتی اساس اور اس ملک کے اسلامی آئین کی درست تشریح کی۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ ہم کب اس آئین پر عمل کریں گے تا کہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔
چلیں شکر ہے کہ کم از کم سود کے معاملے پر خیبر پختونخوا اسمبلی نے چند روز قبل ایک قانون پاس کیا جس کے تحت صوبہ بھر میں پرائیویٹ سود کا کاروبار کرنا ایک جرم تصور ہو گا۔ امیدہے کہ اس قانون کا دائرہ کار سرکاری اور نجی بینکوں تک بھی بڑھایا جائے گا جس کے لیے شاید وفاقی حکومت کا کردار اہم ہے۔ چلیں اللہ کا شکر ہے کہ ایک صوبے کی اسمبلی نے اللہ اور رسولﷺ کے ساتھ جاری جنگ کو روکنے کا اہتمام کیا۔ اسلام کے خلاف یہ کھلی جنگ دوسرے صوبوں اور وفاق کی سطح پر کب روکی جاتی ہے اس کا بے چینی سے انتظار رہے گا۔

Comments

Click here to post a comment