ہوم << ایک خواب جو پورا نہ ہو سکا - ریحان اصغر سید

ایک خواب جو پورا نہ ہو سکا - ریحان اصغر سید

ریحان اصغر سید یہ مئی دو ہزار تیرہ کا وسط ہے، جنرل الیکشنز کا انعقاد ہو چکا ہے، مسلم لیگ ن سادہ اکثریت سے قومی اسمبلی میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے، عمران خان صاحب کو قومی اسمبلی میں 32 کے قریب جنرل سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے، الیکشنز کے دوسرے دن عمران خان صاحب نے ہسپتال میں میڈیا سے جو گفتگو کی ہے وہ بہت ہی حوصلہ افزا اور خوش کن ہے۔ جناب نے صحافیوں کے وفد کو بتایا کہ وہ اس کامیابی پر اللہ کے شکرگزار ہیں کہ ایک ایسی پارٹی جس کو کچھ عرصہ پہلے تک طنزا تانگہ پارٹی کہا جاتا تھا جو پچھلے الیکشن کا بائیکاٹ کر چکی تھی، کو قومی اسمبلی میں اتنی سیٹیں اور ایک صوبے میں اتنی واضح اکثریت مل جانا کہ ہم اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں، ناقابل یقین ہے. میں عوام کا شکرگزار ہوں کہ جھنوں نے ہم پر بےپناہ اعتماد کیا، ہم عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ لیکن اس کے ساتھ میں یہاں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ بہت سی سیٹوں پر ہمیں دھاندلی اور انتحابی بےضابطگیوں کی شکایات موصول ہو رہی ہیں، بےشک جب تک ہم انھیں عدالت میں ثابت نہ کر دیں یہ الزام ہی رہے گا لیکن یہ بات میں ذاتی تجربات کے بعد کہہ رہا ہوں کہ ہماری الیکشن مشینری اور الیکشن کمیشن میں بے پناہ خرابیاں اور سقم ہیں، ہمیں ان کو اگلے جنرل الیکشن سے پہلے پہلے ہر حال میں درست کرنا ہوگا۔ آخر میں، میں میاں صاحب کو مبارکباد دینا چاہوں گا اور یہ کہنا چاہوں گا میاں صاحب! قوم نے آپ پر بےحد اعتماد کیا ہے، آپ نے الیکشن کمپین میں اپنا جو منشور پیش کیا تھا اور جو وعدے کیے تھے، اب ان کو پورا کر کے دکھانے کا وقت آ گیا ہے۔ ملکی مفاد اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے آپ ہمیں اپنے ساتھ کھڑا دیکھیں گے لیکن اگر کہیں عوامی مفادات کو زک پہنچتی نظر آئی تو آپ ہم سے نرمی کی توقع نہ رکھیں، اسمبلی کے اندر اور باہر متحدہ اپوزیشن ہر حال میں عوام کے مفادات اور حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔
اگلے کچھ ہفتے شدید مصروفیت کے تھے. تحریک انصاف خبیر پختونخوا میں ایک اتحادی حکومت بنانے میں کامیاب رہی جس میں ن لیگ کی دانش مندی کا بھی عمل دخل تھا. عمران خان صاحب نے صوبے میں ایک نوجوان لیکن انتہائی قابل اور ایماندار نوجوان کو وزیراعلی بنانے کا فیصلہ کیا تھا، جس نے حلف اٹھاتے ہی 90 روز میں بلدیاتی انتخاب کروانے، صوبائی محکموں کو کرپشن سے پاک اور منظم کرنے کے لیے فوری طور پر ایک کمیٹی بنا دی جس میں صوبے کے ہر شعبہ زندگی کے ایماندار اور قابل لوگ شامل تھے، وی آئی پی کلچر کا فوری خاتمہ کر دیا گیا، تمام ممبران اسمبلی سے سرکاری سکیورٹی یہ کہہ کر فوراً واپس لے لی گئی کہ جب عوام کو سیکورٹی دینے کے قابل ہو جائیں گے تو آپ کو بھی سیکورٹی مل جائے گی۔ صوبائی حکومت کا پہلا بجٹ ہی انقلابی تھا جس میں صحت، تعلیم، نظام انصاف اور امن امان کے لیے پچاس فیصد سے بھی زیادہ وسائل مہیا کیے گئے تھے۔ نظام انصاف کو مئوثر، برق رفتار اور کرپشن فری کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جا رہے تھے۔ دہشت گردوں سے مقابلہ کے لیے ایک انتہائی جدید اور مضبوط فورس تیار کی گئی تھی، انٹیلی جنس کے نظام کو انتہائی مضبوط کیا گیا اور حکومت پوری طاقت سے دہشت گردوں کو کچلنے میں مصروف تھی جس میں فوج کا بے پناہ تعاون بھی حاصل تھا۔
دوسری طرف خان صاحب قومی اسمبلی میں ایک معزز اور سنجیدہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر ابھر رہے تھے. جناب قومی اسمبلی کے ہر اجلاس میں پوری تیاری کے ساتھ شرکت کرتے اور پورے اعداد و شمار کے ساتھ بڑی پرمغز تقریریں کرتے۔ جنرل الیکشن میں ہارنے کے بعد خان صاحب نے ہار کی وجوہات جاننے کے لیے ایک بااختیار اور طاقتور کمیشن تشکیل دیا جس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اکثر سیٹوں پر ٹکٹ غلط بانٹے گئے تھے اور کئی سیٹوں پر تو بیچے گئے تھے، کارکن ناتجربہ کار تھے۔ الیکشن کمپین منفی تھی، اور اپنی خوبیوں سے زیادہ دوسروں کی خامیوں کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔
کمیشن کی روشنی میں فوری عملی اقدامات کیے گئے، انٹرا پارٹی الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کے کمیشن کی رپورٹ کو بھی انتہائی سنجیدگی سے لیا گیا اور اس کی سفارشات پر بھی بہت تیزی اور سنجیدگی سے عمل کیا گیا جس کے نتیجے میں تحریک انصاف میں ٹکٹ بیچنے اور پیسے کے بل بوتے پر اوپر آنے والے سیاست دانوں کو پارٹی سے نکال دیا گیا، دوبارہ تنظیم سازی پر توجہ دی گئی، بلوچستان، اندرون سندھ اور کراچی میں جان توڑ محنت کے بعد پارٹی ڈھانچے کو تعمیر اور مضبوط کیا گیا، دوبارہ پارٹی الیکشن کروائے گئے جس سے اہل اور نوجوان قیادت میرٹ بیس پر نکھر کے اوپر آ گئی۔ خان صاحب نے کارکنوں کی اخلاقی اور سماجی تربیت پر خصوصی توجہ دی اور ان کی کردار سازی پر بہت محنت کی، گلی گلی محلے محلے میں تحریک انصاف کے نوجوانوں کی ویلفیئر تنظیمیں بنائی گئیں جو مقامی طور پر غربت، جہالت صفائی، انصاف اور علاج معالجے کے لیے اپنے طور پر فلاحی خدمات انجام دینے لگی ہیں. آج تحریک انصاف کا کارکن خوش اخلاقی، خدمت اور کام کا دوسرا نام بن چکا ہے۔ خان صاحب نے الیکشنز میں ہونے والی دھاندلی پر حکومت پر بننے والے دبائو میں کمی نہیں آنے دی، عوامی اور عدالتی دبائو بھی بڑھتا جا رہا تھا، آخر کار حکومت انتحابی اصلاحات کے لیے آمادہ ہو گئی، ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں تحریک انصاف کے انتہائی قابل ارکان اسمبلی بھی شامل تھے، فوری مردم شماری ہوئی اور اس کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں کی گئیں، نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا، نئی حلقہ بندیوں کی بدولت کراچی اور شہری سندھ کو قومی اسمبلی میں جائز نمائندگی کا حق ملنے کے روشن امکان پیدا ہوئے۔ الیکٹرانک ووٹنگ سمیت تمام جدید اور مثبت اصلاحات نافذ کر دی گئیں اور ضمنی انتحابات میں ان کا استمعال شروع کر دیا گیا۔
مشرف اور خارجہ پالیسی کے معاملے میں تحریک انصاف نے ڈٹ کر حکومت کا ساتھ دیا اور جمہوریت اور جمہوری حکمرانوں کو کمزور نہیں ہونے دیا لیکن حکومت کو اس کا یہ مطلب نہیں لینے دیا کہ وہ خارجہ پالیسی کا محور حکمرانوں اور ان کے شہزادوں کے کاروباری مفادات کے تحفظ کو بننے دیں۔ مہنگائی، بےروزگاری اور بیرونی قرضوں سمیت ہر قومی معاملے میں تحریک انصاف نے حکومت پر دبائو برقرار رکھا اور جہاں موقع ملا حکومت کی کلائی مروڑ کے اس سے ملکی مفادات کے مطابق فیصلے کروائے. تحریک انصاف کی نہ صرف شیڈو کبینٹ فنکشنل تھی بلکہ ہر وزارت کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم تھی جو مسلسل پالیسیاں اور منصوبوں پر کام کر رہی تھی تا کہ حکومت میں آتے ہی ان پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے.
اس کے ساتھ ساتھ خان صاحب صوبائی حکومت کی کارکردگی اور صوبے کا مسائل پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے، صوبے میں بلدیاتی ادارے نہایت مضبوط اور مربوط طریقے سے کام کر رہے تھے. صوبے کے صوبائی اور قومی اسمبلی ممبران کو گلیوں اور نالیوں کی سیاست سے نکال کے ملکی اور صوبائی اسمبلیوں تک محدود کر دیا گیا تھا۔ عمران کی ذاتی کوششوں سے صوبے میں اوورسیز پاکستانیوں کی بےپناہ سرمایہ کاری ہو رہی تھی. نجی سیکٹر میں پن بجلی کے سینکڑوں منصوبے فنکشنل تھے۔ صوبے میں نجی تعلیم کے جن کو ویلفیئر اور بہترین سرکاری سکول اور کالجوں کے جال کے ذریعے قابو کر لیا گیا تھا. آج خبیر پختونخوا میں حکومت بنانے کے صرف تین سال بعد صوبے کی شکل اور نقشہ بدل گیا ہے، امن و امان اور صفائی مثالی ہے. بیرون ملک سرمایہ کاری سے صوبے میں انڈسٹری اور روزگار کی کثرت ہے، سیاحت کے شعبے میں بھی بے پناہ سرمایہ کاری ہوئی، جس سے سیاحت صوبے کی دور دارز مقیم عوام کی تقدیر بدل رہی ہے. نظام انصاف بہت سستا، برق رفتار اور رواں ہو چکا ہے. پنجاب تک سے لوگ خبیر پختونخوا میں نہ صرف کام کے لیے آ رہے ہیں بلکہ انڈسڑی اور سرمایہ بھی لا رہے ہیں۔ وفاقی، پنجاب اور خبیر پختونخوا کی حکومت میں گویا کام کرنے اور عوام کا دل جیتنے کا ایک مقابلہ سا لگا ہے، خان صاحب ملک کے سب سے مقبول لیڈر ہیں. یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ نہ صرف اگلی پنجاب حکومت تحریک انصاف کی ہو گی بلکہ مرکز میں بھی تحریک انصاف واضح اور شاید دو تہائی اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
ابھی مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر خان صاحب لندن میں بڑے دبنگ انداز میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں. دنیا بھر کا نمائندہ میڈیا وہاں موجود ہے کہ اچانک شور سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں جانے کب ٹی وی دیکھتا دیکھتا سوگیا تھا. جمائی لیتے ہوئے ٹی وی سکرین کی طرف دیکھا جہاں خان صاحب آنکھوں میں وحشت لیے مولا بخش سٹائل میں نوازشریف کو للکار رہے تھے اور رائیونڈ کو گھیرنے کی دھمکی دے رہے تھے. میں نے مایوسی سے ٹی وی بند کر دیا اور آنکھیں بند کر کے دوبارہ بستر پر گر گیا.

Comments

Click here to post a comment