ہوم << مسئلۂ تکفیر: نادر عقیل انصاری کے مضمون پر اعتراضات کا جائزہ - کاشف علی خان شیروانی

مسئلۂ تکفیر: نادر عقیل انصاری کے مضمون پر اعتراضات کا جائزہ - کاشف علی خان شیروانی

جاوید غامدی صاحب کے ”جوابی بیانیے“ پر نادر عقیل انصاری صاحب کا ایک تنقیدی مضمون بعنوان ”مسئلہ تکفیر: غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ“، دلیل میں شائع ہوا تھا۔ تاحال غامدی صاحب کے متنازعہ ”جوابی بیانیے“ پر جو تحریریں سامنے آئی ہیں، ان میں یہ سب سے زیادہ محققانہ مضمون ہے،جس نے غامدی صاحب کے استدلال کی کمزوری محکم دلائل سے واضح کر دی ہے۔ غامدی صاحب نے ”جوابی بیانیے“ میں تکفیر کے جواز کا انکار کیا ہے۔ نادر عقیل انصاری صاحب کا موقف ہے کہ علماء اور امت کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ مبتدعہ اور گمراہ افراد اور گروہوں کی تکفیر کر سکیں۔ ان کا استدلال ہے کہ قرآن مجید میں تکفیر کی ممانعت نہیں آئی، احادیث میں اس کا جواز ثابت ہے، اور عدالتی اور معاشرتی امور میں کئی شرائع اس پر موقوف ہیں۔ اور جس شے پر شرائع کا نفاذ موقوف ہو، وہ کیسے ممنوع ہو سکتی ہے؟ نیز یہ بتایا ہے کہ امین احسن اصلاحی تکفیر کے جواز کے قائل ہیں، اور خود غامدی صاحب صوفیائے کرام اور امت کی اکثریت کے ساتھ جو معاملہ کرتے ہیں، وہ تکفیر سے بھی اشدّ ہے۔ اہل علم نے بالعموم یہ رائے دی ہے کہ غامدی صاحب کی یہ مہم درحقیقت قادیانیوں کی تکفیر کو معرض شک میں ڈالنے کے لیے چلائی جا رہی ہے۔ غامدی صاحب کے دفاع میں لکھنے والوں نے اس مضمون پر کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا ایک مختصر جائزہ مطلوب ہے۔ ہم اپنی بحث کا دائرہ پست اور غیر علمی نکات سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف انہی باتوں تک محدود رکھیں گے، جن کے واضح نہ ہونے سے مسلمانوں میں کوئی غلط فہمی پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
نادر عقیل انصاری صاحب کے مضمون کی اشاعت کے بعد خود غامدی صاحب کا حلقہ دو واضح گروہوں میں بٹ گیا۔ سوال یہ تھا کہ کیا غامدی صاحب نے صوفیاء کی تکفیر کی ہے؟ ایک گروہ کا موقف تھا کہ غامدی صاحب نے صوفیاء کی تکفیر کی ہے، اور بالکل درست کی ہے۔ مثلاً غامدی صاحب کے ایک متبع نے مضمون پر بحث کے دوران ایک فیس بک فورم پر لکھا: ”قادیانی اور صوفیاء ایک برابر ہیں۔“ اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کی عبارت کا جو مطلب عامۃ المسلمین لے رہے ہیں، یعنی یہ کہ غامدی صاحب نے صوفیاء اور اکثر امت مسلمہ کی تکفیر کی ہے، وہی ان کے بہت سے متبعین بھی لے رہے ہیں۔ خود جاوید احمد غامدی صاحب کے مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ کا تیسرا پیرا اس گروہ کے اندیشے کی تصدیق کر رہا ہے۔ دوسرا گروہ یہ سمجھتا تھا کہ غامدی صاحب نے صوفیاء کی تکفیر نہیں کی ہے، نہ انہیں غیر مسلم کہا ہے۔ ہماری نظر میں پہلےگروہ نے اپنے علم اور ذہانت کی بدولت غامدی صاحب کے موقف کو درست طریقے پر سمجھا ہے۔ تاہم دوسرےگروہ نے، جس میں محمد حسن صاحب شامل ہیں، اس کا انکار کیا ہے۔ ہمارے خیال میں محمد حسن صاحب کا استدلال بے بنیاد ہے، بلکہ ان کی اس مدافعانہ کوشش سے جاوید غامدی صاحب کا موقف مزید کمزور پڑ گیا ہے۔
محمد حسن صاحب کے مضمون کو غامدی صاحب کے متبعین نادر صاحب کے مضمون کا جواب قرار دے رہے ہیں۔ ہم بہرحال اس مضمون کو نادر صاحب کے مضمون کا حقیقی جواب نہیں سمجھتے۔ ایک تو اس مضمون میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ یہ نادر عقیل انصاری صاحب کے مضمون کا جواب ہے۔ دوسرے اس مضمون میں نادر عقیل انصاری صاحب کے دلائل سے کم ہی تعرض کیا گیا ہے۔ تیسرے، ہمارا سابقہ تجربہ ہے کہ خود غامدی صاحب بھی اپنے ساتھیوں کی تحریروں سے برأت کا اعلان کرنے میں ذرہ برابر دیر نہیں کرتے۔ ماضی میں جب بھی المورد کے کسی اسکالر نے غامدی صاحب کے نظریات کا دفاع کیا ہے، اور اس پر علمی تنقیدوں میں اس کا ضعف واضح کیا گیا، تو اس پر غامدی صاحب نے صاف کہہ دیا کہ میں المورد کے دیگر مصنفین کی کمزوریوں کا ذمہ دار نہیں ہوں، نہ ہی میں انہیں اپنا ترجمان سمجھتا ہوں۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں غامدی صاحب نے فرمایا کہ اگر کوئی ان کا موقف جاننا چاہتا ہے تو وہ ان کی کتابوں کی طرف مراجعت کرے۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کا امکان ہی ختم کر دیا کہ کوئی اور ان کی فکر کی ترجمانی یا دفاع کرے۔ یہی وجہ ہے کہ مسئلہ تکفیر پر بامقصد مکالمے کو آگے بڑھانے کا طریقہ یہ ہوگا کہ جاوید غامدی صاحب اپنے ناقدین کو براہ راست جواب دیں۔ غامدی صاحب کی خاموشی کا تو یہی مطلب ہوگا کہ ناقدین کی بات درست تسلیم کر لی گئی ہے۔
ان تمہیدی کلمات کے بعد ہم ”دلیل“ میں غامدی صاحب کے مطبوعہ مضمون پر نظر ڈالتے ہیں۔ غامدی صاحب کے مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ کے بارے میں ہماری تنقید تین نکات پر مشتمل ہے۔ پہلا نکتہ ان کی تحریرات میں واضح تضاد کی نشاندہی ہے۔ غامدی صاحب نے اپنی کتاب ”برہان“ میں لکھا ہے کہ اہل تصوف اسلام سے متوازی دین پر کاربند ہیں۔ ان کے لیے کتاب ہدایت بھی قرآن مجید نہیں بلکہ گیتا، اپنشد، برہم سوتر اور فصوص الحکم ہیں۔ اس عبارات کو اگر ان کے مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ کے مقابل رکھ کر دیکھا جائےتو ان کا فکری انتشار واضح ہو جاتا ہے کیونکہ وہ یہ واضح ہی نہیں کر پاتے کہ وہ صوفیائے کرام کو کس درجے میں رکھتے ہیں۔
غامدی صاحب پیدائشی مسلمانوں کو، جو گمراہ ہو چکے ہیں، دو گروہوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق پہلا گروہ تو ان لوگوں پر مشتمل ہے جو ”اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کر لیں“، ان کے بارے میں غامدی صاحب کے مطابق بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ”غیر مسلم“ ہیں۔ جبکہ دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی گمراہی میں مبتلا ہیں، لیکن مسلمان ہونے کے مدعی ہیں، اور اپنی گمراہی کے حق میں قرآن و حدیث ہی سے استدلال کرتے ہیں۔ اس مضمون میں، غامدی صاحب کے نزدیک صوفیاء دوسرے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ”برہان“ میں تو صوفیاء کو اسلام کے متوازی، مختلف اور مقابل دین کا پیروکار بتایا ہے، جس کا مطلب ہے کہ صوفیاء کو پہلے گروہ میں شمار کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ ”دینِ تصوف“ کو اختیار کر چکے ہیں، جو عیسائیت اور یہودیت کی طرح اسلام کے ”متوازی، مختلف، اور مقابل“ دین ہے۔ لہذا صوفیاء کو اور اکثر امت کو ان پیدائشی مسلمانوں میں شامل ہونا چاہیے جو غیر مسلم (مرتد؟) ہوگئے، یعنی یہودی، ہندو یا صوفی ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جاوید غامدی صاحب کے نزدیک یہودیت اور ہندومت بھی اسلام کے متوازی اور مختلف دین ہیں، اور تصوف بھی۔ دوسری جانب، چونکہ صوفیاء قرآن و حدیث ہی سے استدلا ل کرتے ہیں، لہذا انہیں دوسرے گروہ میں، یعنی گمراہ مسلمانوں میں شامل ہونا چاہییے۔ اس تضاد کو کون حل کرے گا؟ یہ کیسی درجہ بندی ہے جس میں ایک فرد بیک وقت دو گروہوں میں شمار ہو سکتا ہے؟ عام طور پر یہ تضاد و انتشار اس صورت میں ہوتا ہے جب درجہ بندی کے مقاصد علمی کے بجائے سیاسی ہوں۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ یہ درجہ بندی ایک سیاسی مقصد کو سامنے رکھ کر گھڑی گئی تھی یعنی قادیانیوں کی تکفیر پر نظر ثانی کی راہ نکالی جائے لیکن اس سیاسی مقصد کو پورا کرتے کرتے غامدی صاحب کی تحریرات داخلی تضاد کا شکار ہو گئی ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غامدی صاحب نے اپنے مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ میں دین میں نئی اصطلاحات کا اضافہ کیا ہے اور لگتا ہے کہ جو سیاسی مقاصد نئی درجہ بندی کی تخلیق میں پیش نظر تھے وہی مقاصد نئی اصطلاحات وضع کرنے کا سبب بھی بنے ہیں۔ غامدی صاحب نے دینی روایت میں غیرمسلم کی ایک نئی اصطلاح متعارف کرائی ہے۔ ان کے نزدیک ”کافر“ اور ”غیرمسلم“ میں فرق ہے۔ اس پر دو سوالات ہیں: اول: ”غیر مسلم“ کی اصطلاح قرآن مجید میں کہاں استعمال ہوئی ہے؟ دوم: ”غیر مسلم“ اور ”کافر“ کا یہ فرق قرآن مجید کی کس آیت میں بیان کیا گیا ہے؟ دیکھ لیجیے دعوے کیے ہیں، لیکن قرآن مجید کی ایک آیت بھی نقل نہ کر سکے۔ اس کا مقصد بھی واضح طور پر علمی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ جاوید غامدی صاحب کے کام کا لازمی نتیجہ ہے کہ اسلام ”جدید قومی ریاست“ کے مفادات کے تابع رہے۔ کسی کو کافر قرار دینے کے واضح دینی، سیاسی اور معاشرتی نتائج ہیں جو ”جدید ریاست“ اورحقوق انسانی کے نام نہاد مغربی تصورات سے ہم آہنگ نہیں۔ غامدی صاحب کی غیر مسلم جیسی نئی اصطلاح وضع کرنے کا مقصد کافر وں سے متعلق دینی احکامات کو معطل کرنا ہے تاکہ جدید قومی ریاست کے غلبہ و استیلا کے لیے آسانیاں پیدا کی جا سکیں۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کے بقول لامذہب اور دہریوں کو بھی کافر نہیں کہا جا سکتا۔ ”مسلم اور غیر مسلم“ میں غامدی صاحب فرماتے ہیں:
اسلام کے سوا باقی تمام ادیان کے ماننے والوں کو غیر مسلم کہا جاتا ہے۔ یہی تعبیر اُن لوگوں کے لیے بھی ہے جو کسی دین یا مذہب کو نہیں مانتے۔ یہ کوئی تحقیر کا لفظ نہیں ہے، بلکہ محض اِس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ اسلام کے ماننے والے نہیں ہیں۔ اِنھیں بالعموم کافر بھی کہہ دیا جاتا ہے، لیکن ہم نے اپنی کتابوں میں بہ دلائل واضح کر دیا ہے کہ تکفیر کے لیے اتمام حجت ضروری ہے اور یہ صرف خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر فی الواقع اتمام حجت ہو گیا ہے اور اب ہم اُس کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ حق اب کسی فرد یا گروہ کو بھی حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے. (جاوید احمد غامدی، مسلم اور غیر مسلم)۔
غامدی صاحب کا یہ موقف قرآن مجید کے صریح خلاف ہے۔ سورہ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے:
اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا، اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتےہوئے پوچھا تھا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا: ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہ دینا کہ ہم تو اس سے باخبر تھے۔ یا یہ نہ کہنے لگو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا؟ (سورہ اعراف: ۱۷۲ تا ۱۷۳)۔
آیات کریمہ سے واضح ہے کہ دہریے اور لا مذہب کا یہ عذر ناقابل قبول ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا علم نہیں رکھتے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس نے تمام بنی نوع انسان کو یہ بات بتا دی تھی کہ ان کا رب اللہ ہے، اور یہ بات ان کے لیے قاطع اعذار ہو گئی۔ اب ان کے پاس کوئی عذر نہیں کہ وہ اللہ کا انکار کریں۔ اس پہلو سے قرآن مجید کے مطابق لامذہب اور دہریے پر اتمام حجت ہو چکا ہے۔ خود غامدی صاحب بھی ماضی قریب تک اسی موقف کے حامی رہے ہیں (البیان، جلد ۲، صفحہ ۲۴۲)۔ غامدی صاحب ویسے تو حاکمیت قرآن پر یقین رکھتے ہیں مگر جب قرآن مجید کی واضح آیتیں جدیدیت کے خلاف پڑتی ہیں تو وہ قرآنی موقف چھوڑنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتے۔ وجہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کا اصل الاصول حاکمیت قرآن نہیں بلکہ جدید دور میں کسی بھی شرط اور قیمت پر survive کرنا ہے۔ چنانچہ دینی ہدایت یا شرعی حکم اگر جدید عقلیت کے خلاف پڑے تو survivalism کا تقاضا ہے کہ اس دینی حکم کی تاویل یا انکار کر دیا جائے۔ تحریک تنویر اور انسان پرستی سے وجود میں آنے والی دُنیا دراصل انکارِ مذہب اور انکار خدا پر کھڑی تھی۔ انکار ِخدا شروع میں معاشرے کی سطح پر اتنا نمایاں نہیں تھا لیکن اب یورپ اور امریکا کے معاشروں میں بھی نمایاں ہو چکا ہے۔ دہریت ایک بڑھتا ہوا فکری رجحان ہے بلکہ اس کے سامنے یہودیت اور عیسائیت اب ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ مغربی معاشروں میں ہونے والے سروے بتاتے ہیں کہ وہاں دہریت روز بروز فروغ پا رہی ہے۔ پچھلی دہائی میں ہونے والے سروے بتاتے ہیں کہ ۲۵ /فیصد آسٹریلیائی، ۳۰ /فیصد کینیڈین، ۹/ فیصد امریکی، ۳۹ /فیصد برطانوی، ۴۸ /فیصد فرانسیسی، ۴۸ /فیصد ڈنمارک کے باشندے، ۴۲ /فیصد ولندیزی، ۵۰ /فیصد سے زائد جرمن اور ۶۱ /فیصد چیکوسلواکیائی باشندے خدا پر یقین نہیں رکھتے (۱)۔ ظاہر ہے کہ غامدی صاحب کی survivalist اور minimalist فکر کے لئے یہ لازم تھا کہ وہ دینی شرائع کی قیمت پر دہریت کے لئے بھی کچھ ”گنجائشیں“ نکالے۔ جوابی بیانیہ اسی فکری رجحان کی ایک مثال ہے۔
غامدی صاحب کا مضمون نادر عقیل انصاری صاحب کے مضمون کے جواب میں پیش کیا گیا، لیکن اس میں نادر عقیل انصاری صاحب کی کسی دلیل کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔ تاہم محمد حسن صاحب کے مضمون کے بارے میں شبہ ہوتا ہے کہ شاید اس میں نادر عقیل انصاری صاحب کے چند ایک دلائل سے تعرض کیا گیا ہے۔ نادر عقیل انصاری صاحب نے اپنے مضمون میں پہلا نکتہ یہ اٹھایا تھا کہ جس چیز کی قرآن مجید و احادیث شریفہ میں ممانعت نہیں آئی وہ مباح ہے۔ اگرقرآن و حدیث میں کوئی ایسا حکم نہیں جس کی رو سے تکفیر ممنوع ٹھہرتی ہو تو آخر غامدی صاحب کس دلیل کی بنا پر اسے ممنوع قرار دے رہےہیں؟ ایسی کوئی دلیل محمد حسن صاحب نے پیش نہیں کی۔ اسی طرح، دینی متون میں تکفیر کی ممانعت کہیں نہیں آئی۔ اور دینی اصول تو یہ ہے کہ جس چیز کی ممانعت نہ ہوئی ہو وہ مباح ہوتی ہے۔ دلیل حرمت کی چاہیے، اباحت کے لیے کوئی دلیل درکار نہیں ہوتی۔ رہا غامدی صاحب کا مزعومہ ”قانون رسالت“، جس کے ذریعے انہوں نے نبی ﷺ کے بعض احادیث کی تاویل کرنے کی کوشش کی ہے، تو معلوم ہے کہ اس کی کوئی بنیاد نصوص میں نہیں پائی جاتی۔
پھر ایک مزعومہ ”قانون اتمام حجت“ کی آڑ میں محمد حسن صاحب نے احادیث کی جو تاویلات کرنے کی کوشش فرمائی ہے، اس میں ہر قاری کے لیے عبرت کا وافر سامان ہے۔ نادر عقیل انصاری صاحب نے تکفیر کے جواز کے حق میں پانچ احادیث مبارکہ پیش کی تھیں۔ ان میں سے دو کو محمدحسن صاحب نے موضوع بحث ہی نہیں بنایا۔ تین احادیث مبارکہ ان کے ہاں زیر بحث آئی ہیں، اور تینوں کو انہوں نے ”قانون اتمام حجت“ سے ڈھیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ ”قانون اتمام حجت“ خود کیا چیز ہے؟ اور یہ قرآن مجید کی کس آیت میں بیان ہوا ہے؟ اس کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں کیا۔
پہلی حدیث شریف: غامدی صاحب کے نزدیک کسی کی تکفیر صرف اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے۔ جبکہ حدیث شریف میں ارشاد ہے: اگر کسی نے دوسرے کو کافر کہا، تو ان میں سے ایک نے کفر کیا۔ اگر دوسرا شخص کافر ہے تو اس کے ساتھی نے درست بات کہی، اور اگر وہ ایسا نہ تھا جیسا اس نے کہا (یعنی اگر وہ کافر نہ تھا) تو کافر کہنے والا کفر کے ساتھ لوٹا (امام بخاری، الادب المفرد)۔ اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے محمد حسن صاحب نے حدیث کے متن پر اپنی طرف سے ایک اضافہ کر دیا: اگر دوسرا شخص ”جانتے بوجھتے“ کافر ہے۔ حدیث کے الفاظ میں یہ ٹکڑا موجود ہی نہیں۔ یہ حدیث کے الفاظ میں صریح تصرف ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ حضورﷺ دراصل اپنے مخاطبین کو یہ تلقین کر رہے ہیں کہ کسی کے کفر کا فیصلہ کرتے ہوئے انتہائی احتیاط برتو ورنہ یہ نہ ہو کہ ”تم کسی کے بارے میں فیصلہ کرو“ اور وہ غلط ثابت ہوجائے۔ یہ بات بالبداہت غلط ہے۔ حدیث شریف کے الفاظ میں ایسا کوئی قرینہ نہیں کہ اسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ خاص کیا جائے۔ محمد حسن صاحب کسی قانون اتمام حجت کی جانب اشارے تو فرما رہے ہیں جس کی رو سے کسی کو کافر قرار دینے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، لیکن اسلام کی دینی روایت ایسے کسی ”قانون“ کو نہیں جانتی۔ اگر یہ فی الواقع قرآن مجید کی کسی آیت مبارکہ میں بیان ہوا ہے تو انہیں وہ آیت کریمہ پیش کرنی چاہیے تھی۔
دوسری حدیث شریف مسلمانوں کو حکمرانوں کی اس وقت تک اطاعت کرنے کا حکم دیتی ہے جب تک کہ ان سے کھلے کفر کا ارتکاب نہ ہو۔ محمد حسن صاحب کا دعویٰ ہے کہ اس حدیث میں حکمران کی تکفیر کا ذکر نہیں ہے بلکہ حکمران کے بارے میں”فعل کفر“ کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ معلوم نہیں محمد حسن صاحب قرآن مجید کی آیت مبارکہ (۴:۵۹) کی کیا شرح فرمائیں گے جس میں حکم ہے کہ مسلمان ان حکمرانوں کی اطاعت کے پابند ہیں جو تم میں سے (منکم) ہوں، یعنی مسلمان ہوں۔ اگر ہم کسی حکمران کی تکفیر کا فیصلہ ہی نہیں کر سکتے تو کسی حکمران کے”کفر“ کی وجہ سے اس کی اطاعت سے کیسے نکل سکتے ہیں؟ قرآن مجید میں اس کی کیا دلیل ہے؟ ارتداد سے متعلق حدیث شریف پر بھی انہوں نے جو معارضہ کیا ہے، اس کے حق میں کوئی نصوص پیش نہیں کیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ قرآن مجید سے ثابت کرتے کہ یہ آیت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ارتداد کی سزا آپ ﷺ کے عہد تک، یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور تک نافذ رہے گی، بعد میں منسوخ ہو جائے گی۔ دعویٰ کیا ہے، دلیل نہیں دی۔
احادیث کی رکیک تاویلات کرتے ہوئے محمد حسن صاحب نے ہم سے یہ فرمائش بھی کی ہے کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو کسی کو کافر قرار دینے کی دلیل کے طور پر کوئی ایسی روایت پیش کرو ”جس میں رسول اللہ قیامت تک کے مسلمانوں کو یہ حکم دیں کہ تمھیں حق ہے کہ تم لوگوں کو ان کے کفر کی وجہ سے کافر قرار دیتے رہنا۔“ عرض ہے کہ اگر دین کے احکام کے لیے یہ شرط عائد کر دی جائے کہ ان سب میں یہ الفاظ ہونے چاہییں کہ یہ حکم ”قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے ہے“، تو روزہ و حج سمیت ایک فیصدی احکامات بھی سلامت نہیں بچیں گے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے تمام احکام ابدی ہوتے ہیں، الا یہ کہ اس کے خلاف کوئی دلیل قرآن و حدیث میں موجود ہو۔ محمد حسن صاحب نے یہ اصول الٹا دیا ہے، تاکہ جب چاہیں شرائع میں سے کسی کو بھی ”عارضی“ قرار دے دیں، اور اس طرح دین کو تحکم کی بنا پر سکیڑنے کی گنجائش پیدا ہو جائے۔ یہ وہی ”Minimalism“ ہے جو تمام استعماری فرقوں کا امتیازی وصف ہے۔
قرآن و حدیث میں تکفیر کی حلت کے اتنے واضح دلائل ہیں کہ فکر فراہی کے ”۲/ عدد اکابرین“ میں سے ایک، یعنی امین احسن اصلاحی بھی تکفیر کے جواز کے قائل ہیں۔ نادر عقیل انصاری صاحب نے سورہ الکافرون کی ذیل میں تدبر قرآن سے اصلاحی صاحب کا ایک اقتباس نقل کیا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ اس سے ”ہمارے لیے یہ تعلیم نکلتی ہے“ کہ تکفیر جائز ہے۔ امین احسن اصلاحی جدید دور میں تکفیر کا اختیار سیکولر قومی ریاست کے بجائے علماء کو دیتے ہیں، بلکہ اسے علماء کی ذمہ داری قرار دیتے ہیں۔ وہ خود بھی قادیانیوں اور منکرینِ حدیث کی تکفیر کے قائل ہیں۔ تاہم محمد حسن صاحب نے امین احسن اصلاحی کا تذکرہ بہت سمجھداری سے نظرانداز کر دیا ہے، اس پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ ”اسلام اور ریاست۔ ایک جوابی بیانیہ“ میں غامدی صاحب کا ارشاد ہے: ”جو صورتحال انتہاپسند تنظیموں نے اپنے اقدامات سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے پوری دنیا میں پیدا کر دی ہے، یہ اُسی فکر کا مولود فساد ہے جو ہمارے مذہبی مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے“۔ تکفیر کا جواز بھی اسی انتہا پسند فکر کا حصہ ہے۔ اب کیا کیجیے کہ اس انتہا پسند فکر کے فروغ میں المورد کے ”دو عدد اکابرین“ میں سے ایک، یعنی مولانا امین احسن اصلاحی بھی شامل ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی کی اجتہادی شان اور ”امامت ثانیہ“ کا صور اتنے عرصے سے پھونکا جا رہا ہے کہ محمد حسن صاحب کے لیے یہ بات شاید پریشانی کا باعث تھی، کہ امین احسن اصلاحی کو انتہا پسندی کے مولود فسانے کا مصنف قرار دیں۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اعتراف کر لیں کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے والا مولود فسانہ لکھنے میں خود فکر فراہی کے اکابرین بھی شامل ہیں!
محمد حسن صاحب کی اس تحریر میں فقط اصلاحی صاحب سے احتراز نہیں برتا گیا، بلکہ نادر صاحب کی طرف سے پیش کی گئی دو روایتوں کو بھی موضوع بحث نہیں بنایا گیا۔ وجہ یہ ہے کہ ان احادیث شریفہ کی ویسی ٹوٹی پھوٹی تاویلات بھی کرنا ممکن نہ تھا، جیسی بقیہ تین احادیث کے حصے میں آئی ہیں۔ ان احادیث مبارکہ میں ایک صحابی کے الفاظ ہیں: ”فصاروا کفاراً“ یعنی یہ گروہ کافر ہو گیا ہے۔ اسی طرح دوسری روایت میں نبیﷺ نے امت کو کچھ ایسےگروہوں کی خبر دی ہے جو اسلام لانے کے بعد کافر ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ خبر دینے کا مقصد یہی ہے کہ مسلمان انہیں ”کافر“ قرار دیں، اور ان سے کافروں والا معاملہ ہی کریں۔ ان سے بھی تکفیر کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ ان روایات پر بھی ہم محمد حسن صاحب کے قیمتی تبصرے سے محروم رہے ہیں۔
جہاں تک صوفیاء اور عامۃ المسلمین کی تکفیر کا تعلق ہے تو اس پر جاوید غامدی صاحب کی عبارتیں بالکل واضح ہیں، کہ وہ تمام یا اکثر امت کو دائرہ دین سے خارج سمجھتے ہیں، اور ان کے ساتھ جو معاملہ کرتے ہیں وہ دراصل تکفیر سے شدید تر ہے، جس کے چار دلائل نادر عقیل انصاری صاحب نے پیش کیے ہیں۔ اس سلسلے میں جو تاویلات یہ لوگ پیش کر رہے ہیں وہ رکاکت کے سبب لائق التفات نہیں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ محمد حسن صاحب کچھ بھی کہیں، سب دیکھ رہے ہیں کہ اس فرقے کے متبعین میں سے اکثر لوگ جاوید غامدی صاحب کے فتوے کا وہی مطلب لے رہے ہیں جو نادر عقیل انصاری صاحب نے بیان کیا ہے، یعنی یہ کہ صوفیائے کرام دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ معلوم ہے کہ تمام صوفیاء کی تکفیر سے اکثر امت مسلمہ دین کے دائرے سے نکل جاتی ہے، کیونکہ امت کی اکثریت کسی نہ کسی صاحب دل صوفی سے وابستہ ہے۔ اور جو انتہاپسند ساری امت کی تکفیر کرے، اس کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس اعتبار سے خوارج، قادیانیوں، اور داعش سے فکری اشتراک رکھتا ہے، اور اُن جیسے انتہا پسندانہ اور متشددانہ نظریات کا پرچار کر رہا ہے۔
محمد حسن صاحب اور غامدی صاحب کے مضامین میں البتہ بہتری اور اصلاح کا ایک پہلو قارئین کو دیکھنا چاہیے۔ اور وہ یہ کہ دونوں حضرات اصل نزاع کے معاملے میں پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اپنے مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ میں غامدی صاحب نے صوفیاء کی گمراہی بیان کرتے ہوئے ”متوازی دین“ کی اصطلاح استعمال کرنے سے سختی سے پرہیز کیا ہے۔ اور محمد حسن صاحب بھی، اب نزول فرما کر ”متوازی دین“ کے بجائے ”متوازی فکر“ کی ترکیب پر آ گئے ہیں۔ یہ نادر عقیل انصاری صاحب کی تنقید کے اولین ثمرات ہیں۔ لیکن یہ کافی نہیں۔ ہماری رائے میں ان حضرات کو اپنے کلمات تکفیریہ سے علانیہ رجوع کرنا ہوگا، اور عامۃ المسلمین سے معذرت کرنی ہوگی۔ اُسی صورت میں امتِ مسلمہ کی تکفیر کا داغ ان کے دامن سے دُھل سکتا ہے۔
ہم نے اس مضمون میں نادر عقیل انصاری صاحب کے مضمون پر لائے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا ہے۔ جاوید غامدی صاحب اور محمد حسن صاحب نے نادر عقیل انصاری صاحب کے اٹھائے گئے زیادہ تر نکات سے تعارض نہیں کیا، بلکہ مسئلہ تکفیر پر اپنے اکابرین (امین احسن اصلاحی) کے موقف کا ارادتاً اخفا کیا ہے۔ محمد حسن صاحب نے قرآن مجید سے تکفیر کی ممانعت کے حق میں کوئی نص پیش نہیں کی، نہ اصل الاشیاء الاباحۃ پر کلام فرمایا ہے۔ جن احادیث مبارکہ کی انہوں نے تاویل کی ہے، اس کی کوئی دلیل قرآن مجید یا احادیث مبارکہ سے پیش نہیں کی۔ کیا یہی وہ مبلغِ علم ہے جس کی بنا پر امت کی محکم روایات سے خروج کی جسارت کی جا رہی ہے؟
حوالہ:
(۱): دیکھیے:
Phil Zuckerman, “Atheism: Contemporary Numbers and Patterns,” in The Cambridge Companion to Atheism, ed. Michael Martin (New York: Cambridge University Press, 2007), 47-68


Comments

Click here to post a comment