ہوم << جو پاس ہے اس کی قدر کرو - راحیلہ ساجد

جو پاس ہے اس کی قدر کرو - راحیلہ ساجد

واہ ، کیا لہجہ تھا ، کتنی ملائمت تھی لہجے میں، اور بات کرنے کا انداز کتنا دلکش تھا؟ حامد تو شام سے ہی اسی سحر میں کھویا ہوا تھا۔ اس کی بیوی نے کھانا لا کر سامنے رکھ دیا تو اس نے چپ کر کے کھا لیا، نہ کوئی اعتراض نہ غصہ۔ چائے لا کر دی تو چپ کر کے پی لی، نہ چینی کم کا واویلا اور نہ زیادہ کی شکایت۔ حمنہ حیران تو بہت ہوئی مگر کہا کچھ نہیں۔ آج میاں صاحب کہیں اور ہی گم تھے۔
قصہ کچھ یوں تھا کہ 6 ماہ پہلے وہ اس کی فرینڈ لسٹ میں شامل ہوئی تھی۔ پہلے تین ماہ تو لائکس اور کمنٹس تک ہی بات رہی، پھر ان باکس میں ہلکی پھلکی سلام دعا شروع ہوئی جو روزانہ کی گپ شپ میں بدل گئی۔ اب کام سے واپس آ کر کھانا کھاتا، چائے پیتا اور موبائل پر فیس بک کھول کر بیٹھ جاتا۔ جونہی حلیمہ آن لائن ہوتی تو وہ اسے سلام بھیج دیتا اور بس، پھر وہ ہوتا اور حلیمہ۔ باتوں میں دو گھنٹے گزر جاتے اور جب دونوں تھک جاتے تو ایک دوسرے کو خداحافظ کرتے۔ اس دوران کسی قسم کی ڈسٹربنس اسے غصہ دلا دیتی اور بیوی کو خواہ مخواہ کی جھاڑ پلا دیتا۔
حمنہ اس کے بدلتے رنگ ڈھنگ دیکھ رہی تھی۔ کچھ دن تو خاموش رہی لیکن ایک دن حامد کا اچھا موڈ دیکھ کر پوچھ ہی لیا کہ ”کیا وجہ ہے، آپ اب میری طرف بہت کم دھیان دیتے ہیں، بہت غصہ کرتے ہیں اور روزانہ اتنا وقت موبائل پر لگا دیتے ہیں.“ حامد نے کہا ”دیکھو ڈئیر! تم بہت اچھی ہو، میں تم سے بالکل بھی ناراض نہیں ہوں۔ بس ڈسٹرب کرتی ہو تو غصہ آ جاتا ہے۔ میں تمہارے سارے کام تو کرتا ہوں۔ سودا سلف بھی لا دیتا ہوں، بچوں کے ساتھ بھی وقت گزارتا ہوں، تمہارے حقوق بھی پورے کرتا ہوں اور اگر اس کے بدلے میں شام کا کچھ وقت موبائل پر مصروف رہتا ہوں تو مجھے اس کی اجازت تو ہونی چاہیے نا.” حمنہ یہ سن کر خاموش ہو گئی۔ لیکن اس کے دل کی خلش نہ گئی۔
دن گزرتے گئے حامد، حمنہ اور بچوں کی طرف سے لاپرواہ ہوتا گیا اور گھر پر توجہ کم ہوتی گئی۔ حلیمہ سے بات کا دورانیہ بڑھنے لگا۔ حلیمہ نے اسے بتایا کہ وہ اکیلی رہتی ہے، اس کا آگے پیچھے کوئی نہیں، شام کو فیس بک پر وقت گزارتی ہے۔ دن میں آفس میں ہوتی ہے۔ دن گزرتے گئے، شناسائی بڑھتی گئی۔ پھر تصاویر کا بھی تبادلہ ہوا۔ حامد نے اسے 30 سال کی عمر والی تصویر بھیجی اور خوب داد سمیٹی۔ حلیمہ کی عمر بھی کوئی 22، 23 سال کی ہوگی. حامد تو دل و جان سے اس پر فدا ہو گیا۔ اسے حمنہ بری لگنے لگی۔ نہ پہننے کا سلیقہ، نہ اوڑھنے کا۔ بڈھی مائی کی طرح سر ڈھانپی رکھتی ہے۔ رنگ دیکھو جیسے مہینوں منہ نہ دھویا ہو۔
اب وہ حلیمہ سے میسنجر پر بات کرنا چاہتا تھا۔ حلیمہ نے بھی کوئی خاص پس و پیش نہ کی۔ اور یوں آج ان کی بات ہوئی اور بس تب سے حامد ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔ اس کی آواز کی ملاحت اس کے کانوں میں ابھی تک رس گھول رہی تھی۔ اب تو روزانہ وہ موبائل لے کر چھت پر چڑھ جاتا اور اس سے باتیں کرتا رہتا۔ حمنہ یہ سب دیکھ رہی تھی اور سمجھ بھی چکی تھی کہ کسی عورت کا چکر ہے۔ وہ رونے کڑھنے کے علاوہ صرف اللہ سے میاں کی واپسی کی دعا کر سکتی تھی جو وہ کر رہی تھی۔
حامد جس فرم میں کام کرتا تھا، اس کی طرف سے اسے آج لاہور جانا تھا، وہ دشمن جاں بھی لاہور میں ہی رہتی تھی۔ حامد نے سوچا، لاہور پہنچ کر اسے بتاؤں گا اور ملنے کے لیے کہوں گا۔ ڈوسرے دن وہ ڈائیوو سے لاہور پہنچ گیا۔ کام سے فارغ ہو کر وہ اور اس کا دوست شام کو فورٹریس کی طرف گھومنے پھرنے نکلے۔ ان سے آگے آگے ایک فیملی چل رہی تھی۔ خاتون کے کپڑے چڑمڑ ہو رہے تھے جیسے بغير استری کے پہن لیے ہوں۔ اور بال بندھے ہونے کے باوجود ادھر ادھر سے ہوا میں لہرا رہے تھے۔ اس نے بچہ اٹھایا ہوا تھا، وہ کبھی ایک ہاتھ سے بچے کو سنبھالتی اور کبھی دوسرے ہاتھ سے لٹ کو کان کے پیچھے اڑستی۔ مرد نے ایک بچے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور تیسرا بچہ ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ اچانک بچہ ہاتھ چھڑا کرایک آوارہ اڑتے غبارے کے پیچھے بھاگا۔ خاتون چیخی۔”احسن پکڑو اسے۔ ایک بچہ نہيں سنبھالا جا رہا تم سے۔ مجال ہے جو کوئی فکر ہو۔“ حامد کو آواز کچھ جانی پہچانی لگی۔ لیکن وہ اسے وہم سمجھا۔
وہ فیملی دکان میں گھس گئی۔ حامد کا دوست بھی اسی دکان ميں داخل ہوا تو حامد کو بھی جانا پڑا۔ اچانک اپنے پیچھے سیلزمین سے بات کرتی خاتون کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی، وہی لہجہ، وہی آواز، وہی انداز۔ چونک کر مڑا تو دیکھا کہ وہی بچوں والی خاتون سیلزمین سے بات کر رہی تھی اور اب تو وہ سائیڈ سے چہرہ بھی دیکھ سکتا تھا۔ یہ تو وہی تھی، حلیمہ۔ لیکن یہ ویسی تو نہ تھی جیسی تصویر میں تھی۔ تصویر تو شاید 22 سال کی عمر کی تھی اور اب وہ کم ازکم 40 کے آس پاس اور قدرے موٹی تھی۔ رنگ بھی شاید کچھ سنولا گیا تھا۔ حامد تو حیران پریشان اپنے خوابوں کے محل ٹوٹتے دیکھ رہا تھا۔ اس نے تو نجانے کیا کیا پلان کر لیا تھا، اپنی توند اور گنجے ہوتے سر اور 40 کی عمر کو بھلا کر وہ خود کو 28، 30 سال کا جوان سمجھ بیٹھا تھا اور حلیمہ کو سہارا دینا چاہتا تھا۔
وہ دوست کو اشارہ کر کے باہر نکل آیا۔ اب وہ جلد از جلد یہاں سے دور جانا چاہ رہا تھا مبادا وہ اسے دیکھ لے۔ دوسرے دن وہ گھر پہنچا۔ حمنہ اسے اسی طرح ملی انتظار کرتی ہوئی، تیار، سر پر دوپٹہ رکھے، مسکراتی ہوئی۔ آج اسے حمنہ پہلے کی طرح سمارٹ اور خوبصورت دکھائی دی۔ اس نے بچوں کے گفٹس ان کو دیے، مل کر کھانا کھایا اور گپیں لگاتے رہے. اور اس کے بعد حمنہ نے اسے کبھی موبائل پر لمبے وقت کے لیے مصروف نہیں دیکھا۔
ممکن ہے کچھ لوگوں کو یہ افسانہ لگے لیکن یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کا شکار آج کل کے کئی شادی شدہ جوڑے بن رہے ہیں۔ خدا کے لیے موبائل، انٹرنیٹ کو اپنی زندگی پر اتنا اثر انداز نہ ہونے دیجیے اور نہ ہی دوسروں سے وہ رشتے بنائیں جس کی نہ اسلام میں اجازت ہے نہ معاشرتی لحاظ سے۔ اور ان رشتوں کی قدر کیجیے جو آپ کے آس پاس، آپ کے ساتھ ساتھ ہیں۔

Comments

Click here to post a comment