ہوم << الحادی فتنوں سے بچاؤ کیسے؟ محمد سعد

الحادی فتنوں سے بچاؤ کیسے؟ محمد سعد

تمام مذاہب کو اس وقت فکری محاذ پر سب سے بڑا چیلنج لامذہبیت کا درپیش ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایک منظم انداز میں آسمانی مذاہب کے خلاف شکوک و شبہات کی یلغار کی گئی ہے۔ ملحدین وجود باری تعالیٰ، تصوررسالت، عقیدۂ آخرت، کتاب اللہ اور انبیائے کرام علیہم السلام کی تاریخی حیثیت کو جھٹلاتے اور طرح طرح کے سوالات کے ذریعہ ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ جو مذاہب ان عقائد و مسائل میں پہلے ہی تضاد کا شکار اور کمزور بنیادوں پر کھڑے تھے، وہ ان کے فلسفیانہ وساوس کی یلغار کے سامنے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے اور الحاد ان کے معاشروں میں بہت آسانی سے جڑ پکڑتا چلا گیا۔ یہودیت، عیسائیت، ہندومت کا دہریت کے سامنے اتنی آسانی سے سجدہ ریز ہوجانا دہریوں کو اعتماد بھی دلا گیا، وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید تمام مذاہب ہی ایسے خودساختہ اور متضاد نظریات کی بنیاد پر کھڑے اور مکر و فریب کے ذریعے پیروکار جمع کیے ہوئے ہیں، لیکن الحادی نظریات کو مسلم معاشروں میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور پڑ رہا ہے۔ ملحدین کے لیے قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخی حیثیت کو چیلنج کرنا علمی، عقلی اور تاریخی طور پر ممکن نہیں تھا ۔ باقی عقائد توحید، آخرت وغیرہ کا تعلق مابعد الطبیعات سے ہے جنہیں مشاہداتی اور تجرباتی علم کی روشنی میں مکمل طور پر ثابت یا رد نہیں کیا جاسکتا، اور اسلام ان مسائل میں دوسرے مذاہب کی نسبت بہت واضح اور محکم دلائل و براہین بھی رکھتا ہے، اس لیے انہوں نے اسلام پر حملہ کرنے کی دوسری راہ نکالی مثلا کمزور اور من گھڑت روایات کا سہارا لے کر اکابرین اسلام کی کردار کشی، اسلام کا تمسخر، اسلامی سزاؤں کے خلاف پراپیگنڈہ، عقائد میں فلسفیانہ انداز میں شکوک و شبہات پیدا کرنا، مسلمانوں کے اختلافات کو ہوا دینا، مسلمان علماء کی کردار کشی کرنا وغیرہ۔ یہ ہر ملحد کے خاص موضوعات ہیں۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور ان کی دل آزاری کے لیے انتہائی گری ہوئی حرکات کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ پرنٹ میڈیا میں یہ تجزیہ نگاروں، کالم نگاروں، صحافیوں اور شاعروں کی شکل میں موجود ہیں جو مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے اسلام کے متعلق شکوک و شبہات میں ڈالتے، زہریلے مضامین، جھوٹی کہانیاں پیش کرتے اور معمولی قصے کو بڑھاچڑھا کر مذہبی منافرت پھیلاتے ہیں، سوشل میڈیا دیکھیں تو اسلام کے خلاف ایک پورا محاذ نظر آتا ہے۔ مختلف پیجز اور عجیب و غریب ناموں کی فیک آئی ڈیز سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ، فریبی اور گمراہ کن تحاریر اور ان سے بھی بڑھ کر گستاخانہ جملے، تصاویر تقریبا روز دیکھنے کو ملتی ہیں۔
گزشتہ دو سال سے میری دلچسپی کا محور یہی لوگ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے پیجز لائک کیے، ان کے گروپس میں شمولیت اختیار کی، ان سے دوستیاں لگا کے ان کے رویوں، نفسیات کا مطالعہ کیا۔ الحاد کے فروغ کے لیے کام کرنے والوں میں سیکولر، لبرل فاسشٹ، عیسائی، قادیانی لوگوں کے علاوہ کچھ ایسے مسلم جوان بھی نظر آئے جو اپنے دینی عقائد و نظریات کے علمی دلائل سے ناواقفیت اور ان کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے کی وجہ سے دین سے بدظن اور بےزار ہوئے یا سہل پسندی اور عیاشی کے حصول میں دین سے دور نکلتے چلے گئے اور چند ایسے بھی دیکھے جو تعلیم یافتہ اور منصف مزاج ہیں اور جن شکوک و شبہات کا وہ شکار ہیں، ان موضوعات پر غیرجانبداری سے لکھنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا انداز بھی باقیوں سے کافی بہتر اور علمی ہے۔ مجھے دینی راستے سے ان کے بھٹک جانے کی جو سب سے بڑی وجہ یا وہ کمی جس کی وجہ سے یہ مطالعہ اور تحقیق کے باوجود حق تک نہیں پہنچ سکے یا کنفیوژن کا شکار ہوئے، نظر آئی، وہ ایک صالح، علم و عمل والے شخص کی صحبت، ایک امین ناصح کے مشورے اور راہنمائی کا نہ ہونا تھی۔ بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے سینکڑوں بڑی اچھی اور تحقیقی کتابوں کا مطالعہ کیا، لیکن ہدایت نہیں پاسکے بلکہ الٹا مزید گمراہ ہوتے چلےگئے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں ایک طرف الحاد کی محنتیں عروج پر ہوں اور جدید سیکولر تہذیب کی چمک دھمک آنکھیں خیرہ کر رہی ہو اور دوسری طرف خود مذہب کا یہ حال ہو کہ کئی قسم کے مسالک و مکاتب فکر پیدا ہوگئے ہوں، بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہوں اور کتابیں تصنیف کی جا رہی ہوں، اس افراتفری کے ماحول میں اپنی مرضی سے چند اچھے برے رائٹرز کی اہم دینی موضوعات پر کتابیں منتخب کر کے ان کا مطالعہ شروع کر دینا، ہرگری پڑی کتاب کو پڑھ لینا، کتاب کا محض ٹائٹل اور پرنٹنگ خوبصورت دیکھ کر اسے پڑھنے بیٹھ جانا، نہ کتاب کے انتخاب میں کسی مربی اصلاح، اچھے علم والے سے مشورہ کرنا اور نہ شکوک و شبہات پیدا ہونے کی صورت میں کسی مصلح کی رہنمائی کی سعی کرنا، ایسی خشکی اور بوریت ہی پیدا کرسکتا ہے جو مذہب سے ہی بد دل یا بےزار کردے۔
یہ بےلگام مطالعہ کی عادت ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے حالانکہ غور کیا جائے تو یہی فتنوں کی اصل جڑ ہے۔ ایک بزرگ عالم لکھتے ہیں ”جتنے گمراہ فرقے پیدا ہوئے، ان کے بانی سب اہل علم ہیں، لیکن سب کے سب بغیر استاد اور رہبر والے، پس شروع شروع میں تو ٹھیک چلتے ہیں، لیکن جب موڑ یا چوراہا آتا ہے، وہیں بھٹک جاتے ہیں اور عجب و کبر میں مبتلا ہو کر کسی کی سنتے بھی نہیں ہیں۔“ (مجالس ابرار ج:۱،ص:۴۷) ایک اور جگہ لکھتے ہیں” ہر فتنے کے بانی پر غور کیجیے تو یہی معلوم ہوگا کہ یہ کسی بڑے کے زیر تربیت نہیں رہا ہے۔ جب آدمی بے لگام ہوتا ہے اور کوئی اس کا مربی اور بڑا نہیں ہوتا تو بگاڑ شروع ہوجا تا ہے اور وہ جاہ اور مال کے فتنے میں مبتلا ہوجاتا ہے۔“ (مجالس ابرار ج:۲،ص:۲۵)
مولانا عبدالماجد دریابادی رحمہ اللہ کی مثال سب کے سامنے ہے۔ مولانا ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے جنھوں نے جس موضوع پر قلم اُٹھایا حق ادا کردیا۔ مولانا ایک جید عالم دین، بے مثل ادیب، مرثیہ نگار، آب بیتی نگار، عظیم کالم نویس، صحافی اور مفسر قرآن تھے۔ کالج کے زمانے میں اسی آزاد اور بےلگام مطالعہ کی عادت میں کسی لائبریری میں موجود مستشرقین کی چند مشہور کتابیں پڑھ بیٹھے، پھر ایسے ملحد بنے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی گستاخیاں کرتے رہے، قابل گردن زنی قرار پائے، سالوں مذہب کے خلاف لکھا اور کھل کر لکھا۔ پھر علامہ شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی جیسے علم و عمل والے دوستوں کی صحبت اور کتابوں سے روشنی ملنی شروع ہوئی۔ ایک دوست نے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے ”مواعظ“ پڑھنے کو دیے، ان کو پڑھ کر بہت متاثر ہوئے۔ تھانوی رحمہ اللہ سے مراسلات شروع ہوئے، ایک سال تک مراسلات پر رہنمائی لیتے رہے، پھر خود تھانہ بھون پہنچ گئے۔ طویل نشستیں رہیں، بیعت کے لیے درخواست کی لیکن حضرت تھانوی نے ان کا میلان دیکھتے ہوئے مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کو کہا کہ وہ عبدالماجد کو بیعت کر لیں، آپ دیوبند گئے اور حضرت مدنی کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔ (مولانا کے دہریہ ہوجانے کی مکمل داستان اگلی تحریر میں پیش کی جائے گی۔ ان شاء اللہ)
آپ نوٹ فرمائیں کہ ایک جید عالم کو اپنی اصلاح کے لیے مستقل بیعت ہونا پڑا، عوام کو اس کی کتنی ضرورت ہوگی، حالانکہ یہ تو آج سے ستر اسی سال پہلے کی مثال ہے۔ اب تو حالات مزید بدتر ہوچکے ہیں۔ اس دور میں اتنی آزاد خیالی اور فتنے نہیں تھے، مطالعہ اور دینی تعلیم و تربیت کا رواج تھا جبکہ آج کے دور میں نہ دینی تربیت کا کوئی نظام ہے اور نہ مطالعے کا کوئی رجحان، لوگ علمی لحاظ سے بالکل کورے اور کھوکھلے ہیں، دوسری طرف کتابوں اور میڈیا کے ذریعے ایسے فتنے سامنے آ رہے ہیں جو علماء کو بھی پریشان کر دیں، ایسے ماحول میں تو عوام کو خصوصی طور پر پڑھنے، سننے میں بہت احتیاط اور بڑوں سے مشورے کی ضرورت تھی، لیکن افسوس پہلے سے بھی زیادہ بےاحتیاطی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ ایک عالم شیخ جمال زرابوزو لکھتے ہیں کہ
” آج کے دور میں بہت سے مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے مغرب میں پرورش پائی یا پھر اپنی تعلیم مغرب سے حاصل کی۔ یہ لوگ جو لٹریچر پڑھتے ہیں وہ زیادہ تر غیر مسلم مصنفین کا ہوتا ہے۔ اس لٹریچر میں بہت سے ایسے افکار بیان کیے جاتے ہیں جو بظاہر تو بہت مفید، بےضرر اور اسلامی تعلیمات کے عین مطابق نہ سہی تو اسلامی اصولوں سے زیادہ دور بھی نظر نہیں آتے۔ لیکن اگر ان افکار کا بغور جائزہ لیا جائے اور ان کے پسِ پشت فلسفہ کو سمجھا جائے تو کسی بھی سلیم فطرت انسان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ ان کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ بسا اوقات یہ آپ کو گمراہی اور الحاد کی طرف لے جاتے ہیں۔“
اس دور میں علم و عمل والوں کی صحبت کی اہمیت اور ضرورت پہلے سے زیادہ ہے لیکن بہت سے لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں بیعت، اصلاح، تصوف کے الفاظ سے ہی سخت چڑ ہے، وہ صوفیاء کی کرامات، شطحیات، جعلی صوفیاء کے واقعات اور تصوف کی مخصوص اصطلاحات کو اپنی مرضی کے مطالب اور معانی کے ساتھ پیش کرکے تصوف کا رد کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ اسلامی تصوف میں غیر اسلامی عقائد و نظریات کی آمیزش ہوئی اور جعلی خانقاہوں اور پیروں کی آمد سے بہت نقصان ہوا، بہت سی خانقاہیں جہاں مسلمانوں کو ایزد پرستی کا درس دیا جاتا تھا، ان کی روحانی اصلاح ہوتی تھی، آج شخصیت پرستی بلکہ قبر پرستی کا مرکز بنی ہوئی ہیں اور جہاں ہر طرف اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوے نظر آتے تھے، آج وہ خانقاہیں قوالی کی محفلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں بلکہ شرک و بدعت کا مرکز بن گئی ہیں، شاید اقبال نے بھی اسی حالت کو دیکھ کر فرمایا تھا۔
یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
لیکن دوسری طرف ہمیں یہی اقبال مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا روم کے متعقد بھی نظر آتے ہیں اور ان کی شاعری میں بھی تصوفانہ رنگ نظر آتا ہے۔ اصل میں ضرورت افراط و تفریط سے بچنے کی ہے۔ سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا جعلی ڈاکٹر وں کی وجہ سے کسی نے ڈاکٹروں کے پاس جانا اور علاج کروانا چھوڑا؟ جس طرح روحانی علاج کے شعبے میں ہزاروں جعلی ڈاکٹر موجود ہیں، اسی طرح جسمانی علاج کے شعبے میں بھی ہیں، جنہیں علاج یا اصلاح کی طلب ہوتی ہے، انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، وہ اپنامعالج ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ مزید جب دین کے کسی دوسرے شعبہ پر غلط لوگوں کے قبضےاور کمیوں کوتاہیوں کی وجہ سے اس شعبے کو نہیں چھوڑا جاسکتا، تزکیہ و احسان یا تصوف و سلوک تو دین اسلام کی روح اور جان ہے، اس کو کیسے چھوڑا جاسکتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ایسا رکن ہے جس کی تکمیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں شامل تھی، اس کا انکار کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس گئے گزرے دور میں بھی ایسی خانقاہیں اور مراکز موجود ہیں جہاں اہل علم وعمل بالکل اسلامی طریقہ پر لوگوں کی اصلاح فرما رہے ہیں۔
یہ اللہ کی سنت بھی ہے کہ جب بھی کوئی کتاب بھیجی ساتھ ایک رسول لازمی بھیجا جو لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا اور ان کا تزکیہ کرتا۔ اسی طرح لوگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے تو صحابہ بن گئے اور جو صحابہ کی صحبت میں رہے تابعین بن گئے، تابعین کی صحبت میں رہے توتبع تابعین بن گئے، یہ سلسلہ علم و دین ابھی تک چل رہا ہے۔ مولانا تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب سے ایک اقتباس پیش کرکے بات ختم کرتا ہوں۔ لکھتے ہیں:
”ہر شبہ کا جواب دینے سے شبہات رفع نہیں ہوسکتے، تم منشاء کا علاج کرو، جیسے ایک گھر کے اندر رات کو اندھیرے میں چوہے، چھچھوندر کودتے پھرتے تھے،گھر والا ایک ایک کو پکڑ کر نکالتا مگر پھر وہ سب کے سب دوبارہ اندر آجاتے۔ ایک عاقل نے کہا کہ میاں! یہ سب اندھیرے کی وجہ سے کودتے پھرتے ہیں، تم لیمپ روشن کر دو، یہ سب خود ہی بھاگ جائیں گے، چنانچہ لیمپ روشن کیا گیا تو وہ سب اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے۔ اسی طرح یہاں بھی سمجھو کہ یہ وساوس و شبہات جو آپ کو پیش آتے ہیں، ان کا منشاء ظلمت قلب ہے، جس کا علاج یہ ہے کہ قلب میں نور پیدا کر لو۔ وہ نور نورمحبت ہے۔ یہ محبت و عشق وہ چیز ہے کہ جب یہ دل میں گھس جاتی ہے تو پھر محبوب کے کسی حکم اور کسی قول و فعل میں کوئی شبہ وسوسہ نہیں پیدا ہوتا۔ اگر ایک فلسفی پروفیسر کسی عورت پر عاشق ہو جائے اور وہ عورت اس سے یوں کہے کہ سر بازار کپڑے اتار کر آئو تو میں تم سے بات کروں گی، ورنہ نہیں! تو فلسفی صاحب اس کے لیے بھی تیار ہوجائیں اور یہ بھی نہ پوچھیں گے کہ بی بی! اس میں تیری مصلحت کیا ہے؟ اب کوئی اس سے پوچھے کہ آپ کی وہ عقل اور فلسفیت اس عورت کے سامنے کہاں چلی گئی؟
عشق مولی کے کم از لیلی بود
گوئے گشتن بہر او اولی بود
میں نہایت پختگی سے دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ جن مسلمانوں کو آج کل مذہب میں شکوک و اوہام پیدا ہوتے ہیں، ان کے اس مرض کا منشاء قلت محبت مع اللہ ہے، ان کو اللہ و رسول کے ساتھ محبت نہیں اور محض برائے نام تعلق کو تعلق کہا جاتا ہے۔ تعلق مع اللہ کے حاصل ہونے کا واحد طریق صرف یہ ہے کہ اہل اللہ کی صحبت حاصل کی جائے، اہل محبت کی صحبت میں یہ خاصیت ہے کہ ا س سے بہت جلد محبت پیدا ہوجاتی ہے جیسا کہ اہل غفلت کی صحبت سے غفلت پیدا ہوتی ہے، پھر جب محبت اور تعلق مع اللہ حاصل ہوجائے گا، یہ لم و کیف باطل اور وساوس و شبہات سب جاتے رہیں گے۔“ (اشرف الجواب از مولانا اشرف علی تھانوی صفحہ 561، 562)

Comments

Click here to post a comment

  • شاء اللہ ، اور ہاں یہ روایتی اور بن دیکھے پڑھے الفاظ نہیں چھوڑ رہا ہوں، انتہائی انہماک سے پڑھا، تمام احباب سے درخواست ہے کہ اس تحریر کو باربار پڑھئے، خالص علمی انداز، سادہ اور عام فہم الفاظ ، حوالہ جات کیساتھ، اور ہاں مضبوط دلائل کسیاتھ ثابت کیا ہے کہ غامدیت فرقہ ہے لیکن سچی بات ہے ہمیں تو ''ٹولہ '' کے لفظ نے مزہ دیا، کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم اس کو غامدی ٹولہ سے موسوم اور مشہور کر دیں۔ اللہ تعالیٰ فاروقی صاحب کی عمر، علم ، اولاد،اور مال میں برکات عطا فرمائیں۔ آمین