ہوم << دیوارِپاکستان-محمد بلال غوری

دیوارِپاکستان-محمد بلال غوری

m-bathak.com-1421246902muhammad-bilal-ghouri
جنرل رضوان اختر ڈی جی آئی ایس آئی تعینات ہوئے تو پہلے دن آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر جانے کے بجائے افغان صدر اشرف غنی سے ملنے کابل چلے گئے۔ ملاقات کے دوران انہوں نے افغان صدر کو بتایا کہ ہماری عسکری قیادت اس بات پر یکسو ہے کہ پاک افغان تعلقات میں کشیدگی کا فائدہ دہشتگرد اٹھا رہے ہیں،لہٰذا ماضی کی تلخیاں بھلا کر ایک نئے دور کا آغاز کرتے ہیں۔انہوں نے پیشکش کی کہ ہم نہ صرف افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پرلانے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے بلکہ انٹیلی جنس شیئرنگ بھی ہو گی اور آئی ایس آئی جو رپورٹ اپنے آرمی چیف اور وزیراعظم کو بھیجتی ہے اس کی ایک کاپی افغان صدر کو بھی موصول ہوا کرے گی۔یہ ملاقات بہت مثبت اور خوش آئند رہی ۔اس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے چند روز بعد افغان انٹیلی جنس (NDS)کے سربراہ نبیل رحمت اللہ پاکستان آئے تو خلاف روایت انہیں آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرزکا دورہ کروایا گیا۔
بات چیت کے دوران طے ہوا کہ اس اتفاق رائے کو ایک مفاہمتی یادداشت کی شکل دیدی جائے۔چنانچہ MOU پر دستخط ہو گئے ۔یہ کوئی ایسا عالمی معاہدہ نہ تھا جسے پارلیمنٹ میں لے جایا جاتا مگر اشرف غنی اس معاملے کو افغان پارلیمنٹ میں لے گئے،وہاں بھارت نواز ارکان پارلیمنٹ نے اس کی مخالفت کی اور یوں یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔مگر اس کے باوجود پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت کی طرف سے طالبان سے مذاکرات کے ضمن میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا گیا۔افغان قیادت نے خواہش ظاہر کی کہ چین کو بھی مذاکراتی عمل میں شریک کیا جائے جبکہ پاکستانی حکام نے گزارش کی کہ جب تک بات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو ،میڈیا کو اس کی بھنک نہ پڑنے دی جائے۔لیکن چند روز بعد ہی ایک امریکی اخبار نے صدارتی محل کے ذرائع کے حوالے سے یہ خبر شائع کر دی۔خبر نکل جانے پر کچھ دن کی تاخیر تو ہوئی مگر بات چیت کا سلسلہ ختم نہ ہوا۔آخر کار اُرمچی (Urumqi)میں مذاکرات کا پہلا رائونڈ ہوا جس میں امریکی حکام نے آخری وقت پر شرکت سے انکار کر دیا۔اس میں طے پایا کہ بات چیت کا عمل خفیہ نہ رکھا جائے اور مری میں آئندہ نشست کیلئے تمام فریقین کو اعتماد میں لیا جائے۔
مری میں ہونے والے مذاکرات میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ پہلے مرحلے میں کابل اور اس سے ملحقہ علاقوں پر مشتمل Peace Zone بنایا جائے جہاں مکمل طور پر جنگ بندی ہو، مذاکرات کا اگلا رائونڈ کابل میں ہو تاکہ افغانستان کی قسمت کے فیصلے افغان سرزمین پر ہی ہو سکیں۔ یہ عمل نہایت تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا کہ افغان حکام نے ملا عمر کی موت کی خبر جاری کر کے خود کش حملہ کر دیااور یوں سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا۔ افغان طالبان کی قیادت، افغان حکومت، امریکی حکام اور پاکستان کی فوجی قیادت سمیت سب کو مُلا عمر کی موت کا علم تھا مگر مصلحتا ً اس بات کو چھپایا گیا تھا لیکن اس موقع پر یہ اعلان کر کے خطے کا امن تباہ کر دیا گیا۔ افغان حکومت پر تو ناحق تہمت ہے، یہ خبر تو دراصل امریکی حکام نے جاری کی جن کا خیال تھا کہ طالبان سے مذاکرات کامیا ب ہو گئے تو ان کی یہاں موجودگی کا جواز نہیں رہے گا۔ افغان حکومت کی لاچارگی اور بے بسی کا تو یہ عالم ہے کہ کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض جب ڈی جی ملٹری آپریشنز تھے تو وہ افغان صدر سے ملنے کابل گئے۔
پروٹوکول آفیسر جس نے لاہور سے تعلیم حاصل کی تھی اس سے گپ شپ ہوئی تو بے تکلفی سے کہنے لگا، اس صدارتی محل کا سالانہ خرچہ 50ملین ڈالر ہے جو امریکہ سے آتا ہے، اس کے علاوہ بھی بیشمار اخراجات ہیں۔ اگر آپ کا ملک یہ اخراجات اٹھا سکتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ پانی میں مدھانی مارنے کا کوئی فائدہ نہیں۔اس کے بعد افغان این ڈی ایس اور بھارتی ’’راـ‘‘ کا گٹھ جوڑ ہوا تو پاک افغان تعلقات کشیدہ تر ہوتے چلے گئے۔ پہلے طورخم بارڈر پر ’’بابِ پاکستان‘‘ کی تعمیر سرحدی جھڑپوں اور فائرنگ کے تبادلے کی بنیاد بنی اس کے بعد جب مودی کیخلاف بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تو جواب آں غزل کے طور پر اسپین بولدک میں پاکستان کے خلاف مظاہرہ ہوا ۔افغانستان پر بھارتی اثرات ملاحظہ فرمائیں کہ مودی کے خلاف بلوچستان میں مظاہرے ہوئے تو مشرقی سرحد کے بجائے مغربی سرحد سے افغانیوں نے جواب دیا۔نہ صرف پاکستانی چیک پوسٹوں پر پتھرائو کیا گیا بلکہ پاکستانی پرچم بھی نذر آتش کیا گیا۔اس پر فوجی حکام نے چمن بارڈر سے متصل پاک افغان باب دوستی کو بند کر دیا اور 14دن بعد یہ دروازہ تب کھولا گیا جب افغان حکام نے معافی مانگی۔اس کے جواب میں دو روز قبل افغان صدارتی محل سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں کی طرف جانے والی پاکستانی گاڑیوں کو افغانستان سے گزرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔بتایا گیا ہے کہ یہ پابندی چمن بارڈر بند کئے جانے کے ردعمل میں لگائی گئی ہے کیونکہ چمن بارڈر بند ہونے سے افغان میوہ جات کو واہگہ بارڈر سے افغانستان نہیں پہنچایا جا سکا اور تاجروں کو نقصان اٹھانا پڑا۔اس سے پہلے افغان حکومت نے پاکستان سے گندم کی درآمد پر پابندی لگائی اور پھر قندھار میں پاکستانی کرنسی کے استعمال کو غیر قانونی قراردیا گیا۔
دشنام تو یہ ہے کہ اس خطے میں پراکسی وار پاکستان نے متعارف کروائی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بھارت کی پراکسی وار کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوا تو اس کے بعد افغانستان سے دراندازی کا آغاز ہوگیا۔ 8فروری 1975ء کو پراکسی وار کے نتیجے میں وزیراعلیٰ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) حیات محمد خان شیر پائو قتل ہوگئے تو بھٹو نے تنگ آکر گلبدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی کو پناہ دی اور افغانستان کو معلوم ہوا کہ پراکسی وار دوطرفہ تلوار جیسی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ میں گزشتہ ہفتے کوئٹہ میں تھا تو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے حوالے سے بحث و تمحیص کے دوران وہاں سے ایک رکن صوبائی اسمبلی نے دوٹوک انداز میں کہا، جس دن پاکستان نے افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ سمجھنا چھوڑ دیا، اس دن سب مسائل حل ہوجائیں گے۔
تمسخر اڑانے اور پھبتیاں کسنے کی حد تک تو یہ بات کہی جاسکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ جب تک ہم افغانستان کو بھارتی اور امریکی ریاست سمجھ کر دفاعی حکمت عملی ترتیب نہیں دیتے، اس وقت تک دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن نہیں۔ آئی جی فرنٹیئر کانسٹیبلری میجر جنرل شیر افگن نے بتایا کہ بارڈر کو محفوظ بنانے کیلئے ایف سی میں 45نئے ونگ بنانے کی تجویز ہے جس میں سے 23ونگ بارڈر پر تعینات کئے جائینگے۔ وزیراعظم نے 15نئے ونگ بنانے کی منظوری دیدی ہے۔ میں نے عرض کیا، افرادی قوت بڑھانے اور نئے ونگ بنانے کی افادیت اپنی جگہ لیکن جب تک پاک افغان بارڈر پر باڑ نہیں لگائی جاتی، دراندازی نہیں تھمے گی۔ آپ نے طورخم اور چمن بارڈر پر گیٹ تو تعمیرکر لئے لیکن دیوار کھڑی کئے بغیر دروازے بنانے کا کیا فائدہ؟ جس طرح چینی باشندوں نے جارحیت سے بچنے کیلئے دیوار چین تعمیر کی، اسی طرح ہمیں بھی پراکسی وار کی مہلک ترین یلغار سے بچنے کیلئے دیوار پاکستان بنانا ہو گی۔