ہوم << دینی جماعتوں نے کبھی سوچا؟ احسان کوہاٹی

دینی جماعتوں نے کبھی سوچا؟ احسان کوہاٹی

کبھی دینی جماعتوں نے سوچا کہ مساجد بھری ملتی ہیں، رمضان میں تراویح کے اجتماعات مساجد کی چھتوں اور صحنوں سے نکل کر اب میدانوں، کمیونٹی سینٹروں اور گھروں کے آنگنوں تک آ گئے ہیں، بازاروں میں بےنقاب چہروں کے ساتھ ساتھ باحجاب خواتین کثرت سے دکھائی دینے لگی ہیں، باریش نوجوان ہر جگہ مل جاتے ہیں، پھر دینی سیاسی جماعتوں کو دلوں میں جگہ کیوں نہیں ملتی؟
ایک تو سیاست اتنی غلیظ ہو چکی ہے کہ اگر طارق جمیل صاحب بھی الیکشن لڑیں تو لوگوں کا تبصرہ ہوگا
”چنگا بھلا مولوی سی، سیاست دان ہو گیا اے.“
فی زمانہ سیاست ایک تو گندی گلی کی سی ہو چکی ہے، پھر اس پر طرہ دینی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کے رویے، تھکی ہوئی دعوتی و سیاسی پالیسیاں۔
جمعیت علمائے اسلام سے بات شروع کریں تو اس نے کبھی شہروں میں دعوت کی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں، طلبہ، مزدوروں، وکلاء اور دیگر طبقوں میں نفوذ کے لیے قدم نہیں بڑھائے. ہاں یاد آیا کبھی جمعیت طلبہ اسلام نام کی تنظیم ہوا کرتی تھی۔
جمعیت کے برعکس جماعت اسلامی شہری علاقوں کی قوت رہی ہے، اس کی فکر کے لوگ طلبہ، وکلاء، ڈاکٹرز، انجینئرز، بینکرز ہر جگہ کم و زیادہ مل جائیں گے مگر جماعت کبھی دیہاتیوں میں مقبول نہیں رہی اور نہ اس نے دیہات کو دعوتی ہدف بنایا. اب تو شہری علاقوں میں بھی اس کا کام سکڑتا سمٹتا محسوس ہو رہا ہے جس کی بڑی وجہ دعوتی میدان میں سستی و کاہلی اور نشر و اشاعت میں سرکاری نوکریوں کے مزاج والے لوگوں کی موجودگی ہے. اس بڑی خامی کے باوجود جماعت کے لوگوں کی ثابت قدمی کمال کی ہے۔
جمعیت علمائے پاکستان کبھی کراچی کی جان ہوا کرتی تھی، کراچی میں قومی اسمبلی کی کئی نشستیں جیتتی رہی ہے، باقی ملک میں بھی اس کا بڑا ووٹ بنک تھا لیکن اس جماعت کو مولانا نورانی رح کے بعد لائق قیادت نہ مل سکی، رہی سہی کسر اب دعوت اسلامی نے دور کر دی، اسے مزارات، اولیاء اور خانقاہوں اور درگاہوں کے سجادہ نشینوں سے حمایت کی صورت میں جو تقویت ملتی تھی، اب وہ بھی نہیں رہی اور پھر تقسیم در تقسیم کے بعد رہی سہی کسر دعوتی میدان خالی چھوڑ دینے سے پوری ہو گئی۔
اہل تشیع نے ہمیشہ اپنی الگ شناخت رکھی ہے. شیعہ مسلک کے افراد میں یہ خوبی ہے کہ یہ جہاں بھی ہوں، جس جماعت میں بھی ہوں، پہلے شیعہ ہوتے ہیں. مذہبی اختلافات، ایران نوازی اور انتہا پسند ذاکرین نے انہیں الگ تھلگ کر کے ان کا سیاسی کردار محدود کر دیا ہے۔
اہلحدیث مسلک کی سیاسی جماعتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں قائدین زیادہ اور کارکنان کم ہیں، پھر تقلید کے مخالفین کی سعودی عرب کی اندھی تقلید نے بھی انہیں دعوتی و سیاسی میدان میں خاصا نقصان پہنچایا ہے۔
مسلک کوئی بھی ہو، فکر کچھ بھی ہو، نظریہ کیسا ہی ہو، یہ دعوت کے ذریعے ہی پھلتا پھولتا ہے، دعوت کے ساتھ داعی کا کردار اور حکمت اپنی جگہ اہم ہیں. دینی جماعتیں اسے نہیں سمجھ رہیں اور فرد سے رابطے کے بجائے افراد سے میڈیا کے ذریعے مخاطب ہو کر دعوت کا حق ادا کر رہی ہیں جس کا نتیجہ تحریکوں کا پارٹیاں بننے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے. پنجاب میں شیر دھاڑ رہا ہے، کہیں بلے کا شور ہے، کہیں تیر چل رہا ہے، کہیں پتنگ اڑ رہی ہے اور کہیں کہیں سائیکل بھی دکھائی دے رہی ہے مگر کوئی ترازو لے کر شیر، تیر، بلے، سائیکل اور پتنگ والوں کو نہیں تول رہا اور کتاب بھی کہیں کہیں ہی کھل رہی ہے. یہ اہل مذہب و سیاست کےلیے نہایت سنجیدہ و غور و فکر کا مقام ہے.

Comments

Click here to post a comment