ہوم << اسلام اور سیکولرزم - فیصل مجید اعوان

اسلام اور سیکولرزم - فیصل مجید اعوان

فیصل اعوان سیکولرزم، اصل میں لاطینی زبان کا لفظ ہے، جس کا عربی میں ”علمانیۃ“ اور اردو میں ”لادینیت“ ترجمہ ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العزت نے ایسے حیرت انگیز اور معجزانہ علمِ وحی سے مالامال کیا تھا کہ جس کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت مبارکہ سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام فتنوں سے امت کو باخبر کردیا تھا، تاکہ امت ضلالت اور گمراہی سے مکمل اجتناب کرے، الحاد اور بےدینی جو سیکولرزم کے نام سے اس وقت دنیا میں فتنہ برپا کیے ہوئے ہے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ روایت منطبق ہوتی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”دعاۃ علی ابواب جہنم من اجابہم الیہا قذفوہ فیہا“ یعنی ایک زمانہ میں امت پر ایسا وقت آئے گا جس میں شرپسندوں کے ٹولے جو جہنم کے دروازے پر کھڑے ہوں گے، انسانوں کو اور خاص کر مسلمانوں کو اس کی طر ف بلائیں گے، جو ان کی بات تسلیم کرلے گا، وہ اسے اس میں یعنی جہنم میں جھونک دیں گے، قربان جائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعبیر بیان پر، کتنے مختصر الفاظ میں کتنی عظیم خبردی، لفظ ”دعاۃ“ کے ذریعہ بےدین ملحد، زندیق، سیکولر دین دشمنوں کی کثرت کی طرف اشارہ کیا، جس کا دنیا مدتوں سے مشاہدہ کر رہی ہے، غالب گمان یہ ہے کہ اس حدیث سے اسی سیکولرزم کے داعیوں کی طرف اشارہ ہے، لہٰذا ہم سردست سیکولرزم کے بارے میں مختصر معلومات پیش کرنے جارہے ہیں، امید ہے کہ دل کی آنکھوں سے اس کا مطالعہ کر کے سیکولرزم کے فتنے سے اپنے آپ کو اور پورے معاشرہ کو بچانے کی فکر کریں گے.
سیکولرزم در اصل ایک ماسونی یہودی تحریک ہے، جس کا مقصد حقوقِ انسانی، مساوات، آزادی، تحقیق و ریسرچ، قانون دولی (International Law) اور تعلیم کے نام پر، دین کو زندگی کے تمام شعبہ جات حیات سے نکال دینا، اور مادیت کا گرویدہ بنا کر، روحانیت سے بے زار کر دینا ہے، یہ کہہ کر کہ دین کی پیروی انسانی آزادی کے منافی ہے، لہٰذا سیاست اور دین، معیشت اور دین، اوع معاشرت اور دین یہ سب الگ الگ ہیں۔ دین، طبیعت اور فطرت کے خلاف ہے، لہٰذا کسی بھی دین کی پیروی درست نہیں. ان کی صورت حال ایسی ہی ہے، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے: [pullquote]و اذا قیل لہم تعالوا الی ما انزل اللہ و الی الرسول رایت المنافقین یصدون عنک صدودا۔ (سورة النساء: پ۵/۶۱)[/pullquote] یعنی جب ان سے کہا جاتاہے آجائو اس چیز کے طرف جو اللہ نے نازل کی ہے (یعنی دین اسلام) اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی (تعلیمات) کی طرف (یعنی شریعت پر مکمل طور پر عمل پیرا ہونے کی طرف تو (اے مسلمان) تو دیکھے گا، منافقوں کو کہ وہ لوگوں کو آپ (یعنی شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر عمل کرنے سے روک رہے ہوں گے۔ یہاں قرآن کریم کا مضارع کا صیغہ ”یصدون“ لانا اس بات کی طرف اشارہ ہے، کہ یہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک خاص نہیں بلکہ استمرار کے ساتھ ہر زمانہ میں ایسا ہوگا، اور پھر آگے”صدودا“ کہہ کر اشارہ کیا کہ وہ اس پر مصر بھی ہوں گے۔
سیکولرزم دراصل یورپ کی پیداوار ہے، اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب اسلام نے آ کر علم کے دروازے کھولے اور اسلام کا اثر و رسوخ مشرق سے نکل کر مغرب میں غرناطہ اور بوسنیا تک پہنچا، تو اہل مغرب کی آنکھیں کھلیں، اس لیے کہ سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں کنیسا اور چرچ کو مکمل اثر و رسوخ حاصل تھا، جب سترھویں صدی میں اہلِ یورپ نے مسلمانوں کی علمی آزادی اور ترقی کو دیکھا اور عیسائی پادریوں اور بادشاہوں کی تنگ نظری اور تعصب کو دیکھا اور اس کے نتیجے میں علمی تحقیقات پر پابندی اور کوئی رائے پیش کرنے والے کو ظلم کا شکار ہوتے دیکھا تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ عیسائیت ہی دراصل ہماری ترقی کے لیے روڑا اور رکاوٹ ہے، لہٰذا سترھویں صدی میں اہلِ مغرب نے مذہب سے بے زاری کا اعلان کردیا، اور یہ پسِ پردہ دنیا کی خفیہ ترین تخریبی تحریک ماسونیت کی کارستانیوں اور سازشوں کا نتیجہ تھا، اس طرح جب ان سیکولرزم کے حاملین کو کامیابی ملی، تو انہوں نے اعلان کیا کہ ”اب عقل کو آزادی ہوگی اور مذہب کے قید وبند سے انسان آزاد ہوگا اور طبیعت اور نیچریت کا بول بالا ہوگا“۔
جب یورپ میں سیکولرزم کو غلبہ حاصل ہوا، تو اب وہ دنیا پر راج اور سلطنت کے خواب دیکھنے لگے، اس طرح انہوں نے مشرق کا رُخ کیا اور 1789ء میں مصر پر حملہ کیا اور انیسویں صدی کے آنے تک پورے مشرق کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، کچھ ناعاقبت اندیش، مادہ پرست مسلمانوں کو بھی اپنے چنگل میں لے لیا۔
مشرق و مغرب میں سیکولرزم کے علمبردار
سیکولرزم کو پھیلانے میں جن بدباطن اور کج فکر، لوگوں نے اہم رول اور کردار ادا کیا، ان میں سے، مغرب میں ڈارون جس نے تحقیق کے نام پر ”نظریہ ارتقاء“ کی بنیاد ڈالی، جو دنیا کا سب سے بڑا فریب شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح فرائیڈ نے”نظریہ جنسیت“ پیش کیا، اسی طرح ڈیکارٹ نے ”نظریہ عقلیت“پیش کیا، جان پول سارتر نے ”نظریہ وجودیت“ کی تحدیدکی، پھر آدم اسمتھ نے ”کیپٹل ازم“سرمایہ دارانہ نظام، اور کارل مارکس نے ”کمیونزم“ کی بنیاد ڈالی، جو پچھلے تمام مادی افکار کا نچوڑ اور خلاصہ تھا اور مشرق میں ان کے پروردہ لوگوں نے ان افکار کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا، اور اب اسی کو گلوبلائیزیشن یعنی”عالمگیریت“ کا نام دے دیاگیا ہے۔
سیکولرزم کا اصل ہدف امتِ مسلمہ کو موجودہ دور میں اسلام سے بے زارکر کے، مادیت سے وابستہ کرناہے، تاکہ مغرب کی بالادستی، برابر اس پر باقی رہے، اس لیے کہ اسلامی فکر، اسلامی روحانیت اور اسلام سے وابستگی یہی مسلمانوں کی کامیابی اور بالادستی کی شاہِ کلید ہے، لہٰذامسلمانوں کو اپنی پوری توجہ، ایمان اور اس کے تقاضوں پر مرکوز کرنا چاہیے، نہ کہ مادیت کے مکر و فریب کے جال میں پھنسنا چاہیے۔
سیکولر فکررکھنے والوں کی اقسام وانواع
سیکولرزم سے متاثر افراد کو تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
(۱) پہلی قسم: ان کافر اور بےدین لوگوں کی، جوصراحتا اور اعلانیۃ اسلام کا ہی نہیں، کسی دین کا انکار کرے، اگر وہ مسلمان ہو اور ایسی بات کرے تو مرتد شمار ہوگا۔
(۲) دوسری قسم: ان منافقوں کی، جو نام کے مسلمان ہوں یعنی بظاہر اسلام کو تسلیم کرتے ہوں، مگر دل میں کفر کو چھپائے ہوئے ہوں، ان کا پورا میلان اندر سے اسلام مخالف، بلکہ اسلام دشمن نظریات کی جانب ہو، اس وقت مسلم معاشرہ میں یہ لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں، چند نشانیوں سے ان کو پہچانا جا سکتا ہے، وہ نشانیاں یہ ہیں:
(الف) وہ اپنے آپ کو مصلحِ ملت، مفکرِاسلام یا مجددٹھہراتے ہیں، حالاں کہ اسلام اور اسلام کی بنیادوں کوڈھانے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کی حالت اسلامی تعلیمات اور مطالبات کے بالکل برعکس ہو، یہی لوگ اسلام اور مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
(ب) وہ یہ آواز لگاتے ہوں کہ اسلامی تعلیمات، عصرِحاضر میں جاری کرنے کے قابل نہیں، اس لیے کہ (العیاذباللہ) وہ فرسودہ ہیں، وہ قابلِ اعتبار نہیں، لہٰذا عالمی قانون کو مسلمان تسلیم کرلے، اس لیے کہ (العیاذباللہ) وہی مسلمانوں کے لیے شریعتِ اسلامیہ کے مقابل زیادہ نفع بخش اور مفید ہے۔
(ج) وہ اباحیت پسندی کے شکار ہوں،حرام کو حلال کرنے اور حلال کوحرام کرنے کے درپے ہوں، اور ان کو اپنے گناہ کی سنگینی کا احساس بھی نہ ہو۔
(د) دین پر عمل کرنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں اور دینی شعائر مثلاً، ڈاڑھی، ٹوپی، کرتہ وغیرہ کا مذاق اڑاتے ہوں اور دیندار کو کم عقل تصور کرتے ہوں۔
(ھ) اس کے فکری رجحان کی کوئی سمت متعین نہ ہو، جدھر کی ہوا ادھرکا رُخ، اس کی طبیعت ثانیہ ہو، مثلاًجب تک روس کو غلبہ تھا کمیونزم کے حامی، اور اب امریکہ کو غلبہ حاصل ہے، تو سرمایہ داریت کے شیدائی۔
(۳) تیسری قسم: ان مسلمانوں کی ہے، جو سیکولرزم اور حقوقِ انسانی، آزادی نسواں، آزادی رائے، دین اور سیاست میں تفریق جیسی اصطلاحات سے متاثر ہوں، جن کو آج کل مغربیت زدہ مسلمان، کہا جاتا ہے، یہ اسلام کو مانتے ضرور ہیں، اس کی حقیقت کے بھی قائل ہیں، مگردینی علم سے دوری یا کمی کی وجہ ان خوشنما اصطلاحات سے متاثر ہوگئے ہیں۔
سیکولرزم کو عام کرنے کے اسالیب
اسلام دشمن طاقتوں نے خاص طورپر صہیونی، صلیبی اشتراک، جس کوماسونیت بھی کہا جا سکتا ہے، سیکولرزم کومسلمانوں میں عام کرنے کے مختلف طریقے اپنائے۔
(۱) الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ اسلام، یہ دور انحطاط کی کھوج ہے، اور اس کی تعلیمات، روایات قدیمہ کی حامل ہیں، (العیاذ باللہ) مادی ترقی کے دور میں قابل عمل نہیں رہا، حالاں کہ ایسا ہرگز نہیں، الحمدللہ! کسی بھی زمانہ میں انسان کی حقیقی ترقی، جس کو روحانی ترقی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، اس کا حامل اگر ہے تو یہی اسلام، اس لیے کہ انسان کی حقیقی ترقی یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کو راضی کرلے، اور دنیا میں اس کا تقرب حاصل کرلے، اور جو لوگوں کو اور مخلوق کو تکلیف دینے سے مکمل اجتناب کرتا ہو، یہ ہے اصل ترقی کا زینہ۔
(۲) العیاذ باللہ یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ اسلام خونی مذہب ہے، یعنی اس کی تاریخ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے، حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، اگر تاریخ کا غائرانہ مطالعہ کریں، تو معلوم ہوگا کہ پچھلے سو سال میں جمہوریت اور سیکولرزم کے نام پر دنیا میں جتنا ظلم ہوا اور قتل و غارت گری ہوئی، اسلام میں، اس کی ایک بھی نظیر نہیں ملتی، ایک سروے کے مطابق مشہور صحافی اوریا مقبول جان تحریر فرماتے ہیں کہ پچھلے سو سال میں تقریباً سترہ کروڑ انسانوں کو جمہوریت کے بھینٹ چڑھا دیا گیا، اس سے سولہویں صدی میں ریڈ اینڈینز کو سو ملین کی تعداد میں نئی دنیا کی دریافت کے نام بےقصور موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، غرناطہ میں تیس لاکھ مسلمانوں کو صلیبیت کے نام پر قربان کردیا گیا، فلسطین میں لاکھوں مسلمانوں اور یہودیوں کو عیسائیوں نے بلاجرم قتل کردیا، جبکہ اسلامی تاریخ میں مسلمان امراء کی فراخ دلی، رعایا سے ہمدردی اور انصاف کوئی پوشیدہ چیز نہیں، نیک مسلمان سلطانوں اور امراء نے تو ظلم کیا ہی نہیں، بلکہ فاسق و فاجروں بھی نے کیا بھی ہوگا، تو وہ اس ظلم کے سویں حصہ کیا، یا ہزارویں حصہ کے برابر بھی نہیں ہے، ہماری تاریخ خونی اور ظالمانہ نہیں، اگر ظالمانہ تاریخ ہے، تو تاریخ، انہی سیکولرزم کی نعرہ دینے والوں کی ہے، مگر اپنا عیب چھپانے کے لیے وہی اپنا قصور مسلمانوں پر تھوپ دیا.
(۳) قرآن و حدیث کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ وہ ایک خاص جماعت اور نسل کے لیے نازل کیا گیا تھا، یا یہ کہنا کہ قرآن و حدیث کی، العیاذ باللہ کوئی حقیقت نہیں، وہ تو انسان ہی کا مرتب کردہ ہے، جبکہ حقائق اس کا صراحت کے ساتھ انکار کرتے ہیں.
(۴) ایمان بالغیب کا انکار کرنا اور اس کا مذاق اڑانا اور یہ کہنا کہ نیچریت اور طبیعت اس کو تسلیم نہیں کرتی، اور اس کے بارے میں یہ کہنا کہ ملائکہ، جن، جنت، دوزخ، حساب، برزخ، قدر، معراج، معجزات، انبیاء وغیرہ، یہ سب محض خرافات ہیں، اس کی کوئی حقیقت نہیں، حالاں کہ قرآن نے پہلے پارے کے پہلے ہی رکوع میں متقی مسلمانوں کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔اور اس طرح نقل کو عقل پر ترجیح کے قائل ہیں۔
(۵) مسلمان معاشرہ میں موجود اخلاقی قدروں کو ملیامیٹ کرنا اور اباحیت پسندی کو فروغ دینا، تعلیمی نصاب میں ایسا مواد سمو دینا، جس سے ابنائے قوم طفولیت ہی سے ایمان باللہ، ایمان بالقیامۃ سے محروم رہے، اور جنسیت، مادیت، فیشن پرستی کا دلدادہ ہو جائے، ماحول ایسا بنا دیا جائے کہ عشق بازی، حیاسوزی، نوجوانوں کی عادت بن جائے، ایسی ایسی فلمیں اور سیریلز بنائی جائیں، جس میں مار پیٹ، لڑائی، جھگڑا، فتنہ، فساد، عشق و محبت، بداخلاقی و بدکرداری کو فروغ حاصل ہو، حالاں کہ بداخلاقی، بدکرداری، عشق بازی، فتنہ فساد سے، تعلیمات اسلامیہ مکمل اجتناب کا درس دیتی ہیں!

Comments

Click here to post a comment