ہوم << یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارہ، یہ محل (3) - ریحان خان

یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارہ، یہ محل (3) - ریحان خان

ریحان خان سلیم خان نے مصروف شاہراہ کا ایک موڑ کاٹا اور سامنے سرخ پتھر سے بنا آگرہ کا قلعہ نظر آنے لگا، جو ایک عالمی تہذیبی و ثقافتی ورثہ ہے، مغلوں کی تاریخ کا سب سے اہم قلعہ، یہ قلعہ ظہیرالدین محمد بابر سے اورنگ زیب عالمگیر تک کے تمام مغل شاہوں کا ایوانِ حکومت رہا ہے.
سلیم خان ایک جانب رکشا روکتے ہوئے قلعے کے تعلّق سے ہمیں ہدایات دینے لگا. میں آٹو سے باہر نکل کر قلعے کی جانب دیکھ رہا تھا. فوٹو گرافر، گائیڈ، ٹورسٹ گائیڈ بک فروخت کرنے والوں نے مجھے متوجّہ کرنا چاہا لیکن میں نے صرف ایک ٹورسٹ بک خریدنے پر اکتفا کیا جو قلعے کے متعلّق تھی.
14249140_671030816407108_835106469_n قلعے کے سامنے چوراہے کے سرکل پر جارحانہ انداز میں تلوار تھامے ایک شہسوار کا مجسمہ نظر آیا. جس کی پشت ہماری جانب تھی اور رخ قلعہ کی جانب. جب ہم نے اس سوار کی آگے سے زیارت کی تو بےاختیار قہقہہ لگانے پر مجبور ہوگئے. یہ کوئی مغل شہسوار نہیں بلکہ مراٹھا راجہ شیواجی کا مجسمہ تھا. شیواجی کا اس قلعہ سے کیا تعلق تھا اور یہاں اس کا مجسمہ لگانے کا کیا معنی تھا، وہ نہایت دلچسپ ہے. جب آگرہ قلعہ میں اورنگ زیب کی تاج پوشی ہوئی تو اس جشن میں شرکت کے لیے ہند کے تمام راجاؤں رجواڑوں کو دعوت نامہ بھیجا گیا. ان دنوں مہاراشٹرا کے افق پر شیواجی بھی ایک اہم طاقت کے طور پر ابھرا تھا چنانچہ اسے بھی جشنِ تاج پوشی میں مدعو کیا گیا. مغل تاج پوشی خطّے کے لیے کوئی معمولی واقعہ نہ تھی کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے، چنانچہ شیواجی اپنے بیٹے سنبھاجی اور چند ساتھیوں کے ہمراہ آگرہ روانہ ہوا کہ جشن میں شرکت کرسکے.
تاجپوشی کے دوران شیواجی اور دوسرے مہمانوں کو دوسری صف میں جگہ ملی. پہلی صف مغل وزراء اور فوج کے اعلی عہدیداروں کے حصّے میں آئی. فوج کے ان عہدیداروں میں کچھ ایسے تھے جو مختلف محاذوں پر شیواجی کے ہاتھوں پسپا ہوئے تھے یا شکست سے دوچار ہوئے تھے. شیواجی کو غصّہ آیا کہ وہ مہاراشٹر کا راجہ ہے اور اسے دوسری صف میں جگہ دی گئی جبکہ اس کے ہاتھوں ہزیمت خوردہ سپہ سالار اس سے اگلی صف میں کھڑے ہیں. اسی غصّے کے زیرِاثر شیواجی جشن تاج پوشی کو ادھورا چھوڑ کر دیوانِ عام سے نکل گیا جسے جمہوری اصطلاح میں واک آئوٹ کہتے ہیں. اورنگ زیب کو رنگ میں بھنگ ڈالنے کی اس حرکت کا علم ہوا تو اس نے شیواجی اور اس کے بیٹے کو گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا.
جشن کے سلسلے میں آگرہ قلعے میں مٹھائیوں کے بڑے بڑے ڈبّے آتے تھے. واپسی کے دوران مٹھائیوں کے ان خالی ڈبّوں میں چھپ کر شیواجی کسی طرح قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا. اس قلعے سے شیواجی کا بس اتنا سا تعلّق ہے کہ وہ یہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا. مگر اس کا مجسمہ قلعے کے عین سامنے اس انداز میں بنایا گیا ہے گویا وہ کبھی اس قلعے کا فاتح رہا ہو جبکہ اس نے کبھی آگرہ پر لشکر کشی بھی نہیں کی تھی.
ایک دوست غالب کی غزل گنگنانے لگا جس کا مقطع تھا...... ع
یار سے چھیڑ چلی جائے، اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
آگرہ قلعہ کے سامنے شیواجی کا یہ مجسمہ ”گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی“ کی بہترین مثال معلوم ہوا. ویسے بھی اس ملک کی حکومت جسے گرفتار کرنے میں ناکام ہوتی ہے، عدلیہ سے اس کے نام کا سمن جاری کرا کے خوش ہولیتی ہے. یہی اثر عوام پر بھی آیا اور ایک طبقہ آگرہ قلعہ کے سامنے شیواجی کا مجسمہ بنا کر خوش ہوگیا.
14182438_671030696407120_2071270015_n ہم قلعے میں داخل ہونے کے بعد دیوانِ عام کی جانب جارہے تھے. ایک دوست اپنے کیمرے میں غیر ملکی لڑکیوں کی تصویریں بنا رہا تھا. منع کرنے پر کہنے لگا،
”قبل اس کے کہ ان پری وشوں کا شمار بھی آثارِ قدیمہ میں ہونے لگے، میں انہیں محفوظ کرلینا چاہتا ہوں.“
”اگر کہیں پٹنے لگے تو مجھے بچانے والوں کی بجائے مارنے والوں میں تلاش کرنا..... وہ دیکھو اس کو.... بناؤ تصویر اس کی بھی“ہرن کی طرح قلانچیں بھرتی ایک فرنگن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا.
”اتیتھی دیوو بھوو“ ( مہمان بھگوان کا روپ ہوتا ہے) کا نعرہ بلند ہوا اور اس فرنگن کی تصویر بھی بنا لی گئی.
14191755_671030676407122_287628014_o اس قلعہ کی بنیاد راجپوتوں نے رکھی تھی، تب وہ اینٹوں سے بنا تھا. بابر نے اسے فتح کیا اور آگرہ کو اپنی راجدھانی بنایا. جلال الدین محمد اکبر کے دور میں اس قلعہ کی تعمیرِ جدید کی گئی اور اسی شکل میں یہ آج موجود ہے. جہانگیر نے یہاں سیاہ سنگ مرمر سے تختِ جہانگیری بنوایا اور اس تخت سے عرصے تک اپنی جہانگیری دکھائی. پھر آرکیٹیکچر مزاج رکھنے والے شاہجہاں کا دور آیا اور اس نے تختِ طاؤس بنوایا اور اس تخت سے حکومت کی. پھر شاہجہاں کی جانشینی کا جھگڑا اٹھا، اورنگ زیب نے داراشکوہ کو قتل کروا کر شاہجہاں کو نظر بند کیا اور تخت جہانگیری پر تختِ طاؤس رکھ کر اپنا جشن تاجپوشی برپا کیا. گویا یہ قلعہ غالب کی زبانی ”ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے“ کی مجسّم تفسیر ہے.

ایک جانب کسی مغل شہزادی کو جہیز میں دیا گیا پتھر کا پیالہ نظر آیا جس میں غسل سے لے کر کپڑے تک دھوئے جاسکتے ہیں. اگر کچھ نہیں کیا جاسکتا تو وہ یہ کہ اس پیالے سے چائے کی چسکیاں نہیں لی جاسکتیں، اور جس شے سے چائے کی چسکیاں نہ لی جاسکیں وہ پیالہ کیونکر ہوگئی، ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں.

14249271_671030879740435_426552074_n ہم قصر یاسمین کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے. پہلے زینے سے سامنے دریچے میں ایک نوکیلی چیز نظر آئی. دوسرے زینے سے وہ نوکیلی چیز ایک گنبد میں تبدیل ہوگئی. تیسرے زینے سے کچھ دور گنبد اور اس کے اردگرد چار مینار نظر آئے. آخری زینے پر پوری عمارت سامنے آگئی. یہ آگرہ قلعے سے تاج محل کا نظارہ تھا، جو قلعے سے ڈھائی یا تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے.
14191755_671030676407122_287628014_oا قصرِ یاسمین قلعے کے اس حصّے کا نام ہے جہاں اورنگ زیب نے شاہجہاں کو نظربند کیا تھا. اپنی زندگی کے آخری ایّام میں شاہجہاں اسی قصر کے اسی دریچے میں بیٹھ کر حسرت آمیز نگاہوں سے تاج کی جانب دیکھا کرتا تھا. جمنا اس وقت تاج سے بالکل لگ کر بہتی تھی اس لیے قصرِ یاسمین میں سے جمنا کے پانی میں تاج کا عکس بھی نظر آتا تھا.
اس دریچے سے تاج کو دیکھ کر ہماری شوخ طبیعت مضمحل ہوگئی.

Comments

Click here to post a comment