ساون کا مہینہ تھا۔گرمی کا زور ٹوٹ رہا تھا۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح پنجاب اور بلوچستان کے بارڈر پر کوہ سلیمان پر بارش ہو رہی تھی۔ پہاڑی ندی نالوں میں قدرے طغیانی تھی۔ ٹھنڈی ہوائیں دلوں کو راحت دیتی تھیں۔ ایسے موسم میں گھر بیٹھنے کو دل نہیں کرتا۔ بہائو الدین زکریا یونیورسٹی کے زمانے کے جگری یار عمران ستار کو فون کیا کہ جلدی تیار ہو جائو کہیں باہر چلتے ہیں۔ آج کوٹ مٹھن کے مشرق میں دریائے سندھ کے مشہور نشتر گھاٹ پر عرصہ داراز سے بننے والے پل کو دیکھنے کو دل کر رہا تھا۔ 15منٹ بعد میں اور عمران انڈس ہائی وے پر تھے۔ عمران نے یہاں سے چلتے ہی وہاں اپنے ایک دوست زاہد کو فون کر دیا تھا۔ کوٹ مٹھن پہنچے، چوک کمال فرید سے زاہد کو گاڑی میں بٹھایا اور نشترگھاٹ کے لیے عازم سفر ہوئے۔ نشترگھاٹ پل کو انڈس ہائی وے سے ملانے والی زیرتعمیر سڑک کو بھی دیکھنا تھا لہذا ایسا راستہ اختیار کیا جو اس زیر تعمیر سڑک سے ہوتا ہوا دریا پر زیر تعمیر پل کو جاتا ہے۔ کوٹ مٹھن سے قصبہ ونگ کو جانے والی سڑک پر جائیں تو درمیان میں نشتر گھاٹ کو انڈس ہائی وے سے ملانے والی سڑک آتی ہے ۔یہ ایک خوبصورت سڑک ہے جس کے دونوں طرف لہلہاتے کھیت ہیں۔ اس زیر تعمیر اور نامکمل سڑک پر سفر کرنا ایک ایڈونچر اور سیاحت سے کم نہیں ہے۔ ابھی کچھ دیر اس سڑک پر چلے ہی تھے کہ اچانک سڑک دریا کے پہلے حفاظتی بند پر آ کر ختم ہوگئی۔ وہاں موجود انجینئرز جو سڑک پر کام کروا رہے تھے، کی زبانی پتہ چلا کہ حفاظتی بند سے دریا پر تعمیر شدہ ستونوں تک 5 کلومیٹر کے فاصلے تک بننے والی سڑک کا ابھی تک ٹینڈر بھی نہیں ہوا۔ اب ہم حفاظتی بند پر کچی سڑک پر چلتے ہوئے سٹیل کے پل اور پتن کی طرف ہولیے۔ حفاظتی بند پر دھول سے پر راستے پر سفر کرتے ہوئے دس منٹ ہوئے تھے کہ اچانک حفاظتی بند کے ساتھ سیلابی پانی اور کیچڑ میں دھنسا ہوا دیو ہیکل لوہے کا بحری جہاز نما ڈھانچہ نظر آیا جس کے اوپر کچھ مٹے ہوئے لفظ پڑھے جا سکتے تھے۔ میں نے حیرانگی سے اپنے میزبانوں کو کہا کہ یہ تو انڈس کوئین Indus Queen ہے۔ انڈس کوئین سے کچھ فاصلے پر دو تیار شدہ کشتیاں پڑی تھیں اور کچھ ہی فاصلے پر انگریز دور کا یک سٹیمر بھی کیچڑ میں دھنسا ہوا تھا۔ یہ سٹیمر کسی دور میں غازی گھاٹ پر مظفرگڑھ اور ڈیرہ غازی کے درمیان مسافروں کو آرپار پہنچانے کا کام کرتا تھا۔
یہ منظر کسی بحری جنگ کا منظر پیش کرتا تھا۔ ایسا دریا کا کنارہ جس پر دشمن فوج شکست کے بعد اپنے تباہ شدہ بحری جہاز اور کشتیاں چھوڑ کر میدان جنگ سے بھاگ کھڑی ہوئی ہو۔ یہ حقیقت میں کوٹ مٹھن شہر فرید سے بطرف مشرق نشترگھاٹ کے قریب تباہ شدہ سٹیل کے پل، پولیس کی چوکی اور لوگوں کے دریا کے گزرنے کے راستے (پتن) کے قریب میدان جنگ ہی ہے جہاں قوم اپنے قیمتی ورثے کو کیچڑ اور دلدل میں تباہ ہونے کے لیے گذشتہ 22 سال سے چھوڑ گئی ہے۔ یہاں انڈس کوئین، انگریز دور کا ایک تاریخی سٹیمر اور دو لکڑی کی بڑی کشتیاں کیچڑ میں پڑی ہیں۔ یہ منظر دیکھتے ہی دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اپنے بزرگوں کی نشانی اور ایک تاریخ ہے جو تباہ ہو رہی ہے، ایک عہد ہے جو ختم ہو چکا ہے۔ یہاں دریا کے کنارے عظیم سپت سندھو کے کنارے انڈس کوئین مر رہا ہے۔ کبھی انڈس کوئین ستلج اور سندھ کے پانیوں پر پورے جاہ و جلال کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتا تھا۔ نصف صدی زائد کا عرصہ ہوتا ہے۔ انڈس کوئین کو دریائے سندھ کے پانیوں پر راج کرنے کے لیے ستلج سے یہاں لایا گیا تھا۔
انڈس کوئین نواب آف بہاولپور نواب صادق خان عباسی کی ملکیت تھا۔ اس کا پرانا نام’’ ستلج کوئین‘‘ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جب پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریا ستلج، بیاس اور راوی بھارت کے حوالے کر دیے گئے تو ستلج میں پانی ہی نہ رہا تو نواب صادق خان عباسی نے پانیوں میں چلنے والا یہ جہاز ’’ستلج کوئین‘‘ حکومت پاکستان کو دے دیا۔ ستلج کوئین دریائے سندھ میں آنے کے بعد انڈس کوئین ہو گیا۔ یہ انڈس کوئین 1996ء تک غازی گھاٹ سے نشتر گھاٹ اور کوٹ مٹھن سے چاچڑاں کے درمیان پوری شان و شوکت سے چلتا رہا حتیٰ کہ 1996ء میں ہائی وے ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کی عدم توجہی کا شکار ہو کر چلنے کے قابل نہ رہا اور تب سے لے کر اب تک دریائے سندھ کے کنارے پڑا ہے۔ 2010ء کے بڑے سیلاب میں پانی اس کے اوپر سے گزر گیا جس کی وجہ سے یہ مکمل تباہ ہو گیا۔
جب ہم گاڑی سے اتر کر انڈس کوئین (لوہے کی سیڑھی کے ذریعے) میں پہنچے تو وہاں ایک آدمی جو کہ ہائی وے ڈیپارٹمنٹ پنجاب کا ملازم تھا، چار پائی ڈال کر سویا ہوا تھا اور کچھ مقامی نوجوان اس کے سب سے اوپر والے پورشن میں ہلا گلا کر رہے تھے۔ اس کے اندر جا کر عجیب احساس ہوتا ہے۔ تصویروں میں دیکھا تھا کہ کس طرح انڈس کوئین کے ذریعے ہزاروں مسافروں، جانورں،گاڑیوں اور سامان کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچایا جاتا تھا۔ اس جہاز کے تین حصے تھے۔ نیچے والے حصے میں انجن، جنریٹر اور اوپر ملازمین کے کمرے تھے۔ درمیانی حصہ مسافروں کے بیٹھنے کے لیے تھا، ایک حصہ عوتوں اور ایک مردوں کے لیے مختص تھا۔ درمیانی حصہ کے اوپر لوہے کی چادر کا شیڈ بنا ہوا ہے، اور شیڈ کے اوپر سب سے اوپر والے حصہ میں مسافروں کے لیے ایک چھوٹی سی مسجد اور سامنے والے حصہ میں بالکل آگے کپتان کا کمرہ ہے جس میں جہاز کو چلانے والی چرخی لگی ہوئی ہے جس سے کپتان جہاز کی سمت کا تعین کرتا تھا۔ یہ ایک خوبصورت اور کافی بڑا جہاز تھا جسے اب 22 سال سے تباہ و برباد ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ ہم نے ریاست بہاولپور کی یادگاروں، بہاولپور ریاست کے عوام، ریاست کے آثار قدیمہ (قلعہ ڈیراور)، ریاست کی تاریخی عمارتوں و یادگاروں اور اداروں کے ساتھ جو امتیازی سلوک روا رکھا ہے، اس کی ایک مثال انڈس کوئین ہے جسے مکمل بے پروائی کے ساتھ نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
جہاز کے چوکیدار کی اجازت سے میں جہاز کے اوپر والے حصہ میں چلا گیا اور جوتا اتار کر تھوڑی دیر مسجد میں بیٹھا رہا جو اب ویران ہو چکی ہے۔ کبھی دریائوں کے پانی میں تیرتے ہوئے اس جہاز کے مسافر اور عملہ یہاں نماز ادا کرتے ہوں گے۔ دیوہیکل جثے کا حامل یہ جہاز کبھی سندھ کے پانیوں کو شکست دیتا ہو گا مگر آج خود شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اگر یہ کسی دوسرے ملک میں ہوتا تو اسے قومی یادگار کے طور پر محفوظ کیا جا چکا ہوتا، اس کی بہتر دیکھ بھال کی جاتی اور یہ اس حالت کو نہ پہنچتا۔ نہ ریاست بہاولپور رہی نہ وہ باذوق حکمران رہے۔ اب تو بس شوبازی ہے ہر جگہ۔ کچھ برس پہلے انڈس کوئین کو بحال کرنے کی خبریں تھیں۔ اس وقت کے ڈی سی او راجن پور غازی امان اللہ نے کراچی سے ماہرین بھی بلائے تھے، لگ بھگ ۷ کروڑ روپے درکار تھے اس تاریخٰی ورثے کو بحال کرنے کے لیے مگر اربوں روپے کے پراجیکٹ لگانے والے تخت لاہور کے حکمرانوں نے فنڈز نہیں دیے۔ کروڑوں روپے سے بننے والی پنجاب ان لینڈ واٹر ٹرانسپورٹ کمپنی کے حکام ایک نظر ادھر بھی ڈالیں اور اس کارآمد قومی ورثے کو ختم ہونے سے بچائیں۔ تھوڑی سی توجہ سے انڈس کوئین دوبارہ پوری آب وتاب سے مائٹی انڈس کے پانیوں پر راج کر سکتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ تخت لاہور کے حکمران ریاست بہاولپور اور سرائیکی خطے کے عوام اور اس خطے کی تاریخ، یادگاروں اور ثقافتی ورثے کے ساتھ امتیازی سلوک بند کریں۔
تبصرہ لکھیے