ہوم << کیا قصور صرف ایم کیو ایم کا ہے؟-حامد میر

کیا قصور صرف ایم کیو ایم کا ہے؟-حامد میر

hamid_mir1
الطاف حسین کے ساتھ پہلی باقاعدہ ملاقات مجھے آج بھی یاد ہے۔ وہ لاہور میں وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کے مہمان تھے۔ انہیں ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا جہاں وہ مختلف اخبارات و جرائد کو انٹرویو دے رہے تھے۔ ایک دن مجھے بتایا گیا کہ میں الطاف حسین کا انٹرویو لینے والے پینل میں شامل ہوں۔ یہ پینل روزنامہ جنگ کے سینئر صحافیوں پر مشتمل تھا۔ مجھے کوچۂ صحافت میں قدم رکھے دو سال بھی مکمل نہ ہوئے تھے لیکن جنگ کے آف ڈے میگزین کیلئے کچھ اچھے انٹرویز کرنے کے باعث مجھے اس پینل میں شامل کرلیا گیا۔
میں نے الطاف حسین کیلئے جو سوالات تیار کئے ان میں پہلا سوال یہ تھا کہ آپ نے 14اگست1979کو مزار قائد کراچی پر پاکستان کا پرچم کیوں نذر آتش کیا؟ جب ہم انٹرویو کیلئے روانہ ہونے لگے تو ایک سینئر ساتھی نے مجھے پوچھا کہ تم نے جو سوالات تیار کئے ہیں وہ دکھائو۔ میں نے اپنے سوالات ان کے سامنے رکھ دئیے۔ وہ پہلا سوال دیکھ کر پریشان ہوگئے، کہنے لگے یہ سوال کوئی اور کرلے گا تمہیں مشکل سوال پوچھنے کا اتنا ہی شوق ہے تو یہ پوچھ لینا کہ آپ دن کے وقت کالے شیشوں کی عینک اور ہاتھوں کی انگلیوں میں بہت سی انگوٹھیاں کیوں پہنے رکھتے ہیں؟
انٹرویو شروع ہوا، میری باری آئی تو میں نے کالے شیشوں والی عینک اور انگوٹھیوں والا سوال کرڈالا۔ اس سے پہلے کہ جواب آتا الطاف حسین کے پیچھے کھڑے ایک صاحب بولے ذرا تمیز سے بات کیجئے۔ میں نے اپنا لہجہ مزید نرم کیا اور چہرے پر مسکراہٹ لاکر سوال دہرایا۔ الطاف حسین نے اپنی عینک کے کالے شیشوں کے پیچھے سے چند لمحوں تک مجھے گھورا۔ پھر مسکرائے اور کہا اتنا تیز مت چلو کہیں ٹھوکر کھا کر گر نہ جانا۔ دو گھنٹے کے بعدانٹرویو ختم ہوا تو پتہ چلا کہ مجھے تمیز کا مشورہ دینے والے کوئی آفاق بھائی تھے۔ اگلے دن الطاف حسین نے مینار پاکستان کے سائے میں اسلامی جمہوری اتحاد کی قیادت کے ہمراہ جلسے سے خطاب کیا اور پاکستان کو دنیا بھر کے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز قرار دے دیا۔ سب بھول گئے کہ الطاف حسین نے مزار قائد پر پاکستان کا پرچم جلایا تھا۔
1992میں ایم کیو ایم کے اندر پہلی بغاوت ہوئی۔ آفاق احمد اور عامر خان اپنے ساتھیوں سمیت لاہور میں آچھپے۔ ایک دن مجھے اسائنمنٹ ملی کہ میں ایم کیو ایم کے باغیوں کو تلاش کرکے ا ن کا انٹرویو کروں۔ میں نے کچھ دوڑ بھاگ کے بعد آفاق احمد اور عامر خان کو لاہور کی ایک کچی آبادی مکہ کالونی میں تلاش کرلیا اوران دونوں کا انٹرویو’’ جنگ‘‘ میں شائع ہوگیا جس پر’’جنگ‘‘ کو بہت برا بھلا کہا گیا۔1995میں اقوام متحدہ کی 50ویں سالگرہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے امریکہ جانے والے وفد میں یہ ناچیز بھی شامل تھا۔ یہ وفد لندن میں کچھ دیر کیلئے رکا تو میں اور نجم سیٹھی صاحب لندن میں مقیم الطاف حسین کے پاس جاپہنچے اور ان کا انٹرویو کرلیا۔
واپس آئے تو مرحوم اظہر سہیل نے وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو ہماری شکایت کردی۔ وزیر اعظم صاحبہ نے ہمیں کہا کہ آپ ایک سرکاری وفد کا حصہ بن کر آئے اور غداروں کے انٹرویو کررہے ہیں۔میں نے کہا کہ کچھ لوگ ا ٓپ کو بھی غدار کہتے ہیں۔ انہوں نے زور سے انگریزی میں کہا کہ میں نے یوم آزادی پر پاکستان کا جھنڈا نہیں جلایا۔ بینظیر صاحبہ کا خیال تھا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کا جھنڈا جلانے والے الطاف حسین کو جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کیلئے ا ستعمال کیا گیا لیکن اب ملک دشمن طاقتیں الطاف حسین کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہی ہیں۔ بینظیر بھٹو صاحبہ کے دور میں وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کی نگرانی میں پولیس کے ذریعہ آپریشن کیا گیا اور ایسے لوگ بھی گرفتار ہوئے جنہوں نے بھارت میں عسکری تربیت حاصل کرنے کا اعتراف کیا۔1996میں صدر فاروق لغاری نے بینظیر حکومت کو برطرف کیا تو بہت سی وجوہات میں کراچی میں ماورائے عدالت قتل و غارت کو پیپلز پارٹی کی حکومت کا جرم بنا کر پیش کیا گیا۔
2002کے انتخابات کے بعد ایم کیو ایم جنرل پرویز مشرف کی آنکھ کا تارا بن گئی۔ 2005میں الطاف حسین کو ہندوستان ٹائمز کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں تقریر کیلئے دہلی بلایا گیا۔ یہاں الطاف حسین نے مسئلہ کشمیر پراقوام متحدہ کی قراردادیں نظر انداز کرنے پر جنرل پرویز مشرف کی بڑی تعریف کی اور یہ بھی کہہ دیا کہ متحدہ ہندوستان کی تقسیم انسانی تاریخ کا بہت بڑا المیہ تھا۔ دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن اس تقریر پر بہت پریشان تھا لیکن انہیں اسلام آباد سے حکم دیا گیا کہ آپ الطاف حسین کے اعزاز میں ایک عشائیے کا اہتما م کریں۔ پاکستانی ہائی کمشنر عزیز احمد خان اور ان کے نائب منور بھٹی نے اسلام آباد سے آنے والے حکم پر عملدرآمد کیا اور قیام پاکستان کو جھٹلانے والے شخص کو دہلی میں حکومت پاکستان کے خرچ پر ایک پرتکلف کھانا کھلایا۔ یہ خبر مجھ تک پہنچی تو میں نے الطاف حسین کی تقریر کے کچھ حصے حاصل کئے اور جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں ان متنازع حصوں کو نشر کرکے عمران خان اور خواجہ محمد آصف سے ردعمل حاصل کیا جس پر مشرف صاحب مجھ سے ناراض ہوگئے۔ مچھ پر انتشار پھیلانے کا الزام لگادیا گیا۔
کچھ عرصے کے بعد آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں زلزلہ آگیا۔ زلزلے کے کافی دن بعد وادی نیلم کے ایک پہاڑی گائوں میں ایک بچے نے مجھے کہا کہ اسے کوئی امداد نہیں ملی۔ اس بچے کی اپیل نشر کرنے پر مشرف صاحب نے اپنا حساب برابر کردیا۔ انہوں نے ایک اعلیٰ فوجی افسر کو پی ٹی وی کے پروگرام نیوز نائٹ میں بھیجا اور انہوں نے مجھے ریاست کا دشمن قرار دے ڈالا۔ بھلا ہو اس زمانے کے وائس چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل احسن سلیم حیات کا انہیں میرے خلاف بیان دینے کیلئے کہا گیا لیکن انہوں نے بات نہ مانی۔
اس واقعے کے بعد بھی میں نے بار بار الطاف حسین کی دہلی میں تقریر کا متنازع حصہ کیپٹل ٹاک میں نشر کیا۔ کبھی بابر غوری اور کبھی وسیم اختر اپنے قائد کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے لیکن ناکام رہتے۔ایک دفعہ الطاف حسین نے قائد اعظم کے بارے میں کچھ متنازع باتیں کیں۔ میں نے جواب دینے کی گستاخی کرڈالی تو انہوں نے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ میری ان سے کوئی ذاتی لڑائی نہ تھی لہٰذا میں ان کو ملنے لندن گیا۔ انہوں نے پوچھا آپ کا میرے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ میں نے کہا ٓپ محب وطن جرنیلوں کو انقلاب برپا کرنے کی تجاویز دینا بند کردیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل پاشا کے ساتھ ڈاکٹر فاروق ستار کے ذریعہ رابطہ رکھنا کوئی جرم نہیں۔
بہت سی باتیں ہوئیں اور میں ان کی حلیم کھا کر واپس آگیا۔ کچھ دن بعد انہوں نے میرے خلاف جنگ میں ایک مضمون لکھ مارا۔ ستمبر2014تک الطاف حسین بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر پاکستان کے اہل اختیار کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ کبھی وہ لندن میں بیٹھ کر اہل اختیار کو اپنے سیاسی مخالفین اور ناقدین کے خلاف استعمال کرتے کبھی اہل اختیار انہیں اہل سیاست کو بلیک میل کرنے کیلئے استعمال کرتے لیکن ستمبر 2014کے بعد صورتحال بدلنے لگی۔ الطاف حسین اور اہل اختیار میں ڈیڈ لاک ہوگیا۔ ایم کیو ایم نے سندھ حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرکے وفاقی حکومت کے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔
پھر کراچی کے سابق میئر مصطفیٰ کمال میدان میں آئے۔ انہوں نے الطاف حسین کے خلاف بغاوت کردی۔ اب ڈاکٹر فاروق ستار نے الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے۔ مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار نے ایک ہی کام کیا ہے لیکن دونوں کا لہجہ اور طریقہ مختلف ہے۔ مصطفی کمال نے نئی پارٹی بنالی۔ فاروق ستار ایم کیو ایم میں رہ کر الطاف حسین سے علیحدگی کا اعلان کررہے ہیں۔ میڈیا دونوں سے طرح طرح کے سوالات پوچھتا ہے۔ بہت سے سوالات جائز بھی ہیں کیونکہ الطاف حسین نے پہلی دفعہ پاکستان کے خلاف تقریر نہیں کی۔ انہوں نے پاکستان کا پرچم1979ءمیں جلایا اور پاکستان کے خلاف دہلی میں تقریر 2005ءمیں کی لیکن مصطفی کمال اور فاروق ستار کو ان باتوں کی سمجھ 2016میں آئی ہے۔
کیا صرف ان دو سے ہی سارے سوالات پوچھے جائیں؟ کیا ان سے بھی کچھ پوچھا جانا چاہئے جنہوں نے2005 میں دہلی میں الطاف حسین کی تقریرکے بعد اپنے ہائی کمیشن کو حکم دیا کہ الطاف حسین کے اعزاز میں ایک پرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا جائے؟ شاید یہ سوال نہ پوچھا جاسکے کیونکہ یہ سوال پوچھنے والوں کو بھی غدار کہا جاسکتا ہے۔ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ کل کو پالیسی بدل گئی تو الطاف حسین دوبارہ کسی کے منظور نظر نہ بن جائیں لیکن اب اردو بولنے والوں کو مزید بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار اپنے لئے نہیں پاکستان کیلئے اور پاکستان بنانے والوں کی اولادوں کی خاطر ایک دوسرے کے قریب آجائیں۔ جس دن یہ دونوں قریب آئیں گے تو الطاف حسین اردو بولنے والوں سے بہت دور چلے جائیں گے۔

Comments

Click here to post a comment

  • اقتدار موجودہ دور کی نام نہاد مسلمان حکمرانوں کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور اس کے لیے وطن کے دشمنوں سےساز باز بھی کوئی نئی بات نہیں