کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ بانیان پاکستان کی اولاد کہلانے والے خود سے سوال کریں، اپنے گریبان میں جھانکیں اور سوچیں کہ انہوں نے قائد کے لیے کیا کیا نہ کیا۔۔۔ قائد نے کہا کہ ٹیلی ویژن ریفریجریٹر بیچ کر کلاشنکوفیں خریدو۔۔۔ اردو بولنے والے نوجوانوں نے بستے اتار کر کلاشن کوفیں اُٹھالیں۔
قائد نے کہا کہ پٹھان، پنجابی، سندھی دشمن ہیں تو شہر لسانی طور پر تقسیم ہوگیا۔ لالو کھیت لیاقت آباد میں رکشہ ٹیکسی والوں نے جانا چھوڑ دیا۔ سندھی ٹوپی پہننے والا غلطی سے چلا جاتا تو ’’بھائی‘‘ کے چاہنے والے ’’غلطی‘‘ نہ کرتے۔
قائد کو پیر ہونے کا شوق ہوا تو ’’پیر صاحب‘‘ کی تصویریں کروٹن کے پتوں پر نمودار ہونے لگیں۔ لوگ قطاریں باندھ کر زیارت کے لیے آنے لگے۔ مسجد کے سنگ مرمر پر بھائی کی شبیہہ کا شبہ ہوا تو مرید پورا سلیب ہی اکھاڑ کر لے گئے۔
قائد کی سالگرہ ہوئی تو کئی منزلہ کیک کاٹنے کے لیے ہاتھ میں سونے کی تلوار دی گئی۔
قائد جو جو کہتے رہے، ’’قوم‘‘ وہ وہ کرتی رہی۔ مولانامحمد علی جوہر، شبلی، نعمانی، حسرت موہانی، نواب وقار الملک کی قوم میں کن کٹے، دادے، لولے لنگڑے اور پنواڑی ہونے لگے۔
پھر قتل وغارت گری شروع ہوئی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے۔ قائد نے بھی حرکت کی اور برطانیہ پہنچ گئے۔ قوم نے اسے جلا وطنی کہہ کر نعرہ لگایا:
’’وہ دور ہے تو کیا ہوا دلوں میں ہے بسا ہوا‘‘
قوم یہاں آپریشن بھگتتی رہی اور قائد وہاں لند ن میں دنیا کے مہنگے ترین علاقوں میں مزے سے قوم کا دکھ ’’محسوس‘‘ کرتے رہے۔
پھر قائد نے برطانیہ کی شہریت لی۔ ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا وہاں حلف اٹھایا۔ حلف یافتہ کارکنوں نے جشن یہاں منایا۔
قائد نے ایک قدم آگے بڑھایا۔ سندھ تقسیم کرنے کی بات کی۔ کارکنوں نے بھی کہا:
سندھ میں ہوگا کیسے گزارا۔۔۔ آدھا تمہارا آدھا ہمارا
پھر بات بڑھی اور بائیس اگست کی سہ پہر قائد کی نظر میں پاکستان ناسور اور عذاب ہوگیا۔
میرے خیال میں اب بانیان پاکستان کی اولادوں کو سوچنا ہوگا کہ اس اسکرپٹ کے سامنے فل اسٹاپ لگا دینا چاہیے، لیکن ایسا جذباتی ہوکر نہ کیا جائے، سوچا جائے، سمجھا جائے۔ 80ء کی دہائی میں مہاجر تحریک کن اسباب پر اٹھی تھی؟
محصورین وطن کی واپسی
سندھ میں کوٹا سسٹم کا خاتمہ
حکمرانی کا حق
لسانی شناخت
اب یہ سوال کس سے پوچھا جائے کہ محصورین کی واپسی کے لیے قائد نے کیا کیا؟ بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے والے محصورین پاکستان کہاں ہیں؟ ایم کیو ایم چار دہائیوں سے وفاقی اور سندھ حکومت کا حصہ رہی ہے، پیپلز پارٹی سے لے کرمسلم لیگ نون تک ،جو جماعت بھی اقتدار میں آئی، ایم کیو ایم اس کی گود میں آبیٹھی۔ اہم وزارتیں،اہم مناصب ان کے پا س رہے، بس محصورین پاکستان پاس نہ رہے۔
سندھ میں دیہی اور شہری سندھ کو تقسیم کرنے والا کوٹا سسٹم آج بھی اسی شکل میں موجود ہے، ایم کیو ایم نے اسے ختم کیوں نہ کیا؟
آج سوچا جائے کہ حکمرانی میں حصہ ملنے کے بعد مہاجر وں کو کیا ملا؟ بار بار تصادم کی راہ پر مہاجروں کو کس نے ڈالا اور مشکل وقت میں قائد صرف زبانی جمع خرچ کے کیا کرسکے؟
خود سے پوچھا جائے کہ لسانی شناخت نے مہاجروں کو کیا دیا؟ ملک کا سب سے پڑھا لکھا مہذب سمجھا جانے والے لوگ اب کیا سمجھے اور کیا کہے جاتے ہیں؟ اُردو داں طبقے کو پہلے کس نظر سے دیکھا جاتا تھا اور اب مہاجروں کو کس نظر سے دیکھاجاتا ہے؟ پہلے اُردو بولنے والوں کی شناخت شستہ لہجہ، تہذیب، شائستگی، رکھ کھاؤ ہوا کرتی تھی، اب وہ شناخت کہاں گئی؟ مہاجروں نے چار دہائیوں کی لسانی سیاست میں کیا پایا اور کیا کھویا؟ قائد تو اپنا الو سیدھا کرکے لندن سدھار گئے، قوم یہاں راستوں کی پیچیدگیوں میں بھٹک گئی اور جانے کب تک بھٹکتی رہے گی.
تبصرہ لکھیے