ہوم << سینسر - ابو محمد مصعب

سینسر - ابو محمد مصعب

12003294_10204732813258553_3770925726005018371_nگاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ڈرائیور گاہے بہ گاہے ٹیمپریچر میٹر کی سوئی پر نظر ڈالتا رہتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ کانٹا خطرناک حد تک انجن گرم ہونے کی خبر دے رہا ہے تو فوراََ گاڑی روک کر ریڈی ایٹر کا پانی وغیرہ چیک کرتا ہے۔
فرض کریں کہ کوئی شخص گاڑی چلا رہا ہے، جب جب وہ ٹیمپریچر کے کانٹے پر نظر ڈالتا ہے، میٹر اسے بتاتا ہے کہ انجن نارمل حالت میں کام کر رہا ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہو، کچھ ہی دیر بعد گاڑی کے بانٹ سے دھوئیں نکلنا شروع ہوجائیں اور انجن بند ہوجائے تو ڈرائیور دوبارہ ٹیمپریچر کی سوئی کو آکر دیکھے جو اب تک نارمل حرارت دکھا رہی ہو تو ڈرائیور کسی مکینک کو بلاتا ہے جو گاڑی چیک کرنے کے بعد بتاتا ہے کہ جناب، گاڑی کا ٹیمپریچر دکھانے والا میٹر خراب ہوگیا ہے جو کہ انجن کی گرمی کو صحیح رپورٹ نہیں کر رہا تھا، مگر اب کیا فائدہ جب انجن انتہائی گرم ہوکر بند ہوچکا اور شاید سیز تک ہوگیا ہو۔
اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ بھی ذہن میں آیا۔ ہمارے ایک عزیز کو ہارٹ پرابلم ہوا، انہیں فوراََ دل کے اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے انہیں فوراََ ایمرجنسی وارڈ میں داخل کردیا۔ مریض کی حالت بہتر نہیں ہو رہی تھی اس لیے ڈاکٹرز نے انہیں انتہائی نگہداشت میں رکھا ہوا تھا اور بار بار آکر دل کی دھڑکن چیک کر رہے تھے۔ رات کو دیر سے مریض کی حالت بگڑنے لگی، میں دوڑٓ کر ڈاکٹر کو لے آیا، اس نے آکر ای سی جی مانیٹر پر دل کی دھڑکن دیکھی اور مجھے مطمئن کردیا کہ دل کی دھڑکن بلکل نارمل ہے، پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں مریض کا انتقال ہوگیا۔ جب ڈاکٹرز آئے اور موت کی تصدیق ہوجانے کے بعد انہوں نے ای سی جی مانیٹر کے کنیکشن مریض کے جسم سے الگ کیے تب بھی میں نے دیکھا کہ وہ ہارٹ بیٹ نارمل دکھا رہا تھا۔
یہ سب دیکھ کر ڈاکٹر نے سرد آہ بھری اور کہا کہ ای سی جی مانیٹر کی اسکرین درست رپورٹ نہیں کر رہی تھی اور لگتا ہے کہ مشین کافی دیر پہلے سے خراب ہوچکی تھی۔
خٰیر، ان دو مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر دیکھیں تو اللہ پاک نے انسان کے اندر ایک سینسر رکھا ہوا ہے جو ہر وقت ایکٹو رہتا ہے اور گناہ (خطرے) کا علم ہوتے ہی انسان کی طرف ایک میسج فلوٹ کردیتا ہے۔ وہ انسان کہ جو گناہ کے دلدل میں اتر چکا ہوتا ہے اس کے پورے وجود میں فائر الارم کی طرح گھنٹیاں بجنی شروع ہوجاتی ہیں جو اسے فوری خطری سے آگاہی دے رہی ہوتی ہیں۔ تاکہ اگر انسان کے وجود میں ایمان کی ذرا بھی رمق موجود ہے تو وہ خطرے کی جگہ سے فوری طور پر بھاک کر اپنا ایمان بچا لے۔
مگر یہ بھی ہمارا مشاہدہ ہے کہ مسلسل گناہ کرتے کرتے، انسان کے اندر کا یہ الارم سسٹم خراب ہوجاتا ہے اور اسے نہیں معلوم پڑتا کہ وہ خطرے کی زد میں ہے یا اپنا ایمان کھو سکتا ہے۔ اس کے ایمان کا انجن حدت کے انتہائی گرم زون میں داخل ہوچکا ہوتا ہے مگر چوں کہ اس کو رپورٹ کرنے والا سینسر خراب ہوچکا ہوتا ہے لہٰذا اسے معلوم ہی نہیں پڑتا کہ وہ کتنی خطرناک حالت سے دوچار ہونے والا ہے۔
دوستو! خطرے کا یہ سینسر انسان کا ضمیر ہے، اور اگر ضمیر بھی مر جائے تو پھر انسان کا وجود اس طرح سن ہوجاتا ہے جیسے کسی مریض کے جسم کے کسی حصہ کو انجیکشن لگا کر سن کردیا جائے، پھر چاہے جسم کا وہ حصہ کاٹ ہی ڈالا جائے مگر اسے احساس تک نہیں ہوتا۔
ہم میں سے بہت سے لوگ، اسی کیفیت سے دوچار ہیں۔ غلط راستوں پر چل کر بھی نہیں جانتے کہ ہم غلط جا رہے ہیں۔ اچھائی دیکھ کر کوئی خوشی نہیں ہوتی، برائی دیکھ کر کوئی رنج نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے جس راستہ پر ہم دوڑے چلے جا رہے ہیں، سمجھتے ہیں کہ ہم جیسا ہدایت یافتہ تو شاید ہی کوئی ہو۔
حضورﷺ کے ایک فرمان کا مفہوم ہے:
جب نیکی کرکے تمہیں خوشی ہو اور گناہ کرکے غم ہو، تو تم مؤمن ہو۔ (یہ ہے ایمان کا کم سے کم درجہ)۔
اس کیفیت کو قرآن نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے، کہ:
اے محمدؐ(ﷺ)، ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کہ زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا۔ اس لیے اُن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ (الکھف: ۱۰۳تا ۱۰۵)