مختصر سے وقت میں کاشف نے ہلکی پھلکی ضیافت کا اہتمام کرلیا تھا. خوردونوش کے بعد وہ ہمارے ساتھ کافی دور تک آیا اور سارا راستہ وہ بولتا رہا، میں خاموش رہا. آخر ایک موڑ پر پہنچ کر مبارک بدری کو راستہ سمجھ گیا. انہوں نے کاشف سے کہا کہ اب ہم لوگ یہاں سے جاسکتے ہیں تو کاشف واپس فلیٹ کی جانب مڑ گیا. میں اسے دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ شاید اس لڑکے سے دوسری ملاقات نہ ہوسکے. وہ بہار کے مدھوبنی سے تھا اور میں مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ سے. بےفکری سے شانوں کو اچکاتے ہوئے میں نے ’’پھر ملیں گے اگر خدا لایا‘‘ کے زیرِ سایہ سگریٹ سلگا لی. کاشف کے احترام میں تین گھنٹے گزر گئے تھے. اس بار تو مبارک بدری میں دام و دخان میں خشوع و خضوع سے شریک ہوئے.
پہلی جنگ عظیم کے ان بھارتی سپاہیوں کی یاد میں برطانوی حکومت نے دہلی راج پتھ کے مقام پر فرانسیسی یادگار Thr Arch of Triumph کی طرز پر ایک عمارت بنائی اور اس پر 82 ہزار فوجیوں کے نام کندہ کیے گئے. اس عمارت کو انڈیا گیٹ کا نام دیا گیا اور اس میں ایک مشعل روشن کی گئی جسے امر جوان سے جانا جاتا ہے. انڈیا گیٹ کی بنیاد 1921ء میں رکھی گئی اور اس کی تعمیر کو پایہ تکمیل تک پہنچنے میں دس سال لگے. فروری 1931ء کو اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا.
ہم انڈیا گیٹ کے سامنے کھڑے تھے. محبّت کے لیے جو احساس تاج محل کے سامنے جاگتا ہے، وطن کے لیے وہی احساس امر جوان کے سامنے جاگتا ہے. عمارت کے ذرا قریب سے نگاہ دوڑائی تو اس پر کندہ فوجیوں کے نام بھی نظر آئے. جس میں ہندو بھی تھے، مسلمان بھی تھے اور سکھ بھی تھے. یہ مختلف مذاہب کے ماننے والے تھے لیکن جنگ عظیم میں ان کا جو لہو بہا تھا، وہ سرخ رنگ کا ہی تھا. وہ لہو درحقیقت برطانوی غلامی کا خراج تھا ورنہ جنگ کی آنچ بھی برّصغیر تک نہیں پہنچی تھی، وہ سب اپنے شکستہ بازوؤں اور لڑکھڑاتے قدموں سے تاجِ برطانیہ کی حفاظت کرنے پر مجبور تھے.
میں کھویا ہوا تھا کہ ایک دوست نے جھنجھوڑ کر آس پاس کی رنگینیوں کی جانب توجّہ دلائی. سجے سنورے چہرے نظر آئے جو فطری حسن کے بجائے زیبائشِ جمال کے لوازمات کے مرہون منّت تھے. ایک نئے نویلے شادی شدہ جوڑے کو دیکھا تو آہِ بےاختیار نکل گئی. مبارک بدری بھانپ گئے اور کہنے لگے کہ دلّی کی لڑکیاں دلّی سے باہر بہت کم شادیاں کرتی ہیں. یہ جان کر افسوس ہوا تھا.
اشک تو پی گئے ہم ان کے حضور
آہِ بے اختیار ________ لے ڈوبی
رات کے دس بج رہے تھے اور ہمیں دوسری صبح آگرہ کے لیے ٹرین پکڑنی تھی. واپسی کے دوران جمیعت العلماء ہند کے ہیڈ کوارٹر مسجد عبدالنبی میں عشاء پڑھی. وہاں معلوم ہوا کہ جمیعت کے آل انڈیا صدر مولانا ارشد مدنی موجود ہیں. دوست مصافحہ کی سعادت حاصل کرنا چاہتے تھے. ایک طویل انتظار کے بعد حضرت کی خدمت میں رسائی ہوئی. ایک کمرے میں چند پولیس افسران کو دعوت اڑاتے دیکھ کر یہ اطمینان حاصل ہوا کہ ضرور یہ دعوت بھی قوم و ملت کے وسیع تر مفاد میں اڑائی جارہی ہوگی. بےدلی کے ساتھ حضرت سے مصافحہ کیا اور واپس بستی نظام الدین کی جانب چل دیے. مبارک بدری مصر ہوگئے کہ اب جارہے ہو تو میری دعوت قبول کی جائے چنانچہ رات بارہ بجے مولانا آزاد میڈیکل کالج کے سامنے مبارک کی مبارک دعوت اڑائی گئی. مبارک سے جدا ہوتے وقت دل بوجھل تھا. مبارک سے آگرہ تک ساتھ چلنے کا اصرار بھی کیا لیکن ان کی بھی کچھ مصروفیات تھیں اس لیے وہ ساتھ نہ آسکے.
شب کے سکوت میں ارتعاش پیدا کرتا آٹو رکشہ بستی نظام الدّین کی جانب چلا جارہا تھا اور میں سوچوں میں گم تھا. دوست حسبِ معمول ہنسی مذاق کررہے تھے. انہیں روم پر پہنچ کر گھوڑے بیچ کر سونا تھا لیکن مجھے پتہ تھا کہ دلّی کا خمار کم از کم مجھے نہیں سونے دےگا.
(جاری ہے)
سفرنامے کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی چوتھی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی پانچویں قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی ساتویں قسط یہاں ملاحظہ کریں
چھوڑ کر شہرِ ہوس عشق کے ویرانے میں (6) - ریحان خان

[…] سفرنامے کی چھٹی قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی چھٹی قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی چھٹی قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی چھٹی قسط یہاں ملاحظہ کریں […]