ہوم << چھوڑ کر شہرِ ہوس عشق کے ویرانے میں (6) - ریحان خان

چھوڑ کر شہرِ ہوس عشق کے ویرانے میں (6) - ریحان خان

ریحان خان ا جامعہ ملّیہ اسلامیہ میں عصر کی ادائیگی کے بعد برادر کاشف حسن سے ملاقات ہوئی، جو افراد مولوی اور مسٹر کے درمیان’’مذبذبین‘‘ کی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں یا مولوی اور مسٹر دونوں نہ بن سکے ہوں وہ کاشف بن جاتے ہیں. سوٹڈ بوٹڈ یہ نوجوان ندوی ہے. اس نے ہمیں بٹلہ ہاؤس چلنے کی دعوت دی لیکن اس سے قبل ہم جامعہ کے اوّلین چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین کے مزار پر فاتحہ خوانی کرنا چاہتے تھے، مزار بند ہوچکا تھا لہٰذا کاشف نے دور سے ’’زیارت‘‘ کرا دی.
DE21_BATLA_1525364e بٹلہ ہاؤس میں کبھی طلبہ کی تحریکی تنظیمیں سرگرم رہا کرتی تھیں، پھر وہ وقت بھی آیا کہ طلبہ کے فلیٹ میں گھس کر ان کا انکاؤنٹر کیا گیا، جس نے جان بچانے کی کوشش کی اسے سڑکوں پر دوڑا کر گولیاں ماری گئیں. یہ سب کرنے والے کوئی سرحد پار کے دہشت گرد نہیں تھے بلکہ دہلی پولیس کے ’’جانباز افسران‘‘ تھے. بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر لوگوں نے ناول لکھے اور نظمیں کہیں. جو قوم اپنے حادثات و واقعات کو ناولوں میں پیش کرنے لگے، ان پر اشعار کہنے لگے، اس کی عمر مختصر ہوتی جاتی ہے. بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر اگر حقیقی تھا تب بھی بہت سارے سوالات کو جنم دیتا ہے کہ اعظم گڑھ سے آنے والا سترہ سالہ نوجوان دہشت گردوں کا آلہ کار کیسے بن گیا؟ اور اگر وہ دہشت گرد نہیں تھا تو پھر اسے کس جرم میں گولیاں ماری گئیں؟
مختصر سے وقت میں کاشف نے ہلکی پھلکی ضیافت کا اہتمام کرلیا تھا. خوردونوش کے بعد وہ ہمارے ساتھ کافی دور تک آیا اور سارا راستہ وہ بولتا رہا، میں خاموش رہا. آخر ایک موڑ پر پہنچ کر مبارک بدری کو راستہ سمجھ گیا. انہوں نے کاشف سے کہا کہ اب ہم لوگ یہاں سے جاسکتے ہیں تو کاشف واپس فلیٹ کی جانب مڑ گیا. میں اسے دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ شاید اس لڑکے سے دوسری ملاقات نہ ہوسکے. وہ بہار کے مدھوبنی سے تھا اور میں مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ سے. بےفکری سے شانوں کو اچکاتے ہوئے میں نے ’’پھر ملیں گے اگر خدا لایا‘‘ کے زیرِ سایہ سگریٹ سلگا لی. کاشف کے احترام میں تین گھنٹے گزر گئے تھے. اس بار تو مبارک بدری میں دام و دخان میں خشوع و خضوع سے شریک ہوئے.
13924941_659058817604308_8946045836196937543_n شام ڈھلنے لگی تھی. یہ وقت انڈیا گیٹ پر جانے کے لیے بہترین ہوتا ہے، سو ہم انڈیا گیٹ کیلیے روانہ ہوگئے. یہ فوجی یادگار ان سپاہیوں کی یاد میں تعمیر کی گئی ہے جو پہلی جنگِ عظیم میں کام آئے تھے. اس جنگ میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا، ہنگری، ترکی اور بلغاریہ تھے تو دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس، اٹلی، رومانیہ، پرتگال، جاپان اور امریکا۔ نومبر 1918ء کو جرمنی نے جنگ بند کردی اور صلح کی درخواست کی۔ جون 1919ء میں فریقین کے مابین معاہدہ ورسائی ہوا. مسلمان دنیا پر اس کا بہت برا اثر پڑا، چونکہ ترکی جرمنی کا اتحادی رہا اس لیے اسے اس جنگ کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ انگریزوں نے عربوں کو ترکوں کے خلاف جنگ پر اکسایا اور اس طرح مسلمانوں میں قومیت کی بنیاد پر جنگ لڑی گئی۔ اسی جنگ کے بعد مصطفی کمال کی ریشہ دوانیوں کے سبب مسلمانوں کی عظیم خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔ جنگ عظیم میں دونوں فریقوں کے تقریباً ایک کروڑ آدمی کام آئے اور دو کروڑ افراد ساری عمر کے لیے معذور ہوگئے. اس جنگ عظیم میں صرف انڈیا کے بیاسی ہزار فوجی قتل ہوئے، جبکہ انڈیا اس جنگ میں محض اس لیے شریک تھے کہ انڈیا برطانیہ کی کالونی تھا. دنیا ترقی کر رہی تھی اور اس ترقی کی راہ میں آنے والی ہیرو شیما کی منزل بہت دور تھی.
پہلی جنگ عظیم کے ان بھارتی سپاہیوں کی یاد میں برطانوی حکومت نے دہلی راج پتھ کے مقام پر فرانسیسی یادگار Thr Arch of Triumph کی طرز پر ایک عمارت بنائی اور اس پر 82 ہزار فوجیوں کے نام کندہ کیے گئے. اس عمارت کو انڈیا گیٹ کا نام دیا گیا اور اس میں ایک مشعل روشن کی گئی جسے امر جوان سے جانا جاتا ہے. انڈیا گیٹ کی بنیاد 1921ء میں رکھی گئی اور اس کی تعمیر کو پایہ تکمیل تک پہنچنے میں دس سال لگے. فروری 1931ء کو اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا.
ہم انڈیا گیٹ کے سامنے کھڑے تھے. محبّت کے لیے جو احساس تاج محل کے سامنے جاگتا ہے، وطن کے لیے وہی احساس امر جوان کے سامنے جاگتا ہے. عمارت کے ذرا قریب سے نگاہ دوڑائی تو اس پر کندہ فوجیوں کے نام بھی نظر آئے. جس میں ہندو بھی تھے، مسلمان بھی تھے اور سکھ بھی تھے. یہ مختلف مذاہب کے ماننے والے تھے لیکن جنگ عظیم میں ان کا جو لہو بہا تھا، وہ سرخ رنگ کا ہی تھا. وہ لہو درحقیقت برطانوی غلامی کا خراج تھا ورنہ جنگ کی آنچ بھی برّصغیر تک نہیں پہنچی تھی، وہ سب اپنے شکستہ بازوؤں اور لڑکھڑاتے قدموں سے تاجِ برطانیہ کی حفاظت کرنے پر مجبور تھے.
میں کھویا ہوا تھا کہ ایک دوست نے جھنجھوڑ کر آس پاس کی رنگینیوں کی جانب توجّہ دلائی. سجے سنورے چہرے نظر آئے جو فطری حسن کے بجائے زیبائشِ جمال کے لوازمات کے مرہون منّت تھے. ایک نئے نویلے شادی شدہ جوڑے کو دیکھا تو آہِ بےاختیار نکل گئی. مبارک بدری بھانپ گئے اور کہنے لگے کہ دلّی کی لڑکیاں دلّی سے باہر بہت کم شادیاں کرتی ہیں. یہ جان کر افسوس ہوا تھا.
اشک تو پی گئے ہم ان کے حضور
آہِ بے اختیار ________ لے ڈوبی
Indian-Parliamentانڈیا گیٹ سے نکل کر ہم پیدل پارلیمنٹ کی جانب جارہے تھے. اس راستے پر اکثر فلموں کی شوٹنگ ہوتی رہتی ہے، اور راستے کے دونوں جانب دور تک پھیلے سبزہ زار میں ان فلموں کے’’ثمرات‘‘ لو برڈز کی شکل میں نظر آتے ہیں. میں راستے پر اپنی ڈارلنگ مبارک بدری کے ساتھ چل رہا تھا، بقیہ دوست ذرا پیچھے چل رہے تھے کہ حسبِ توفیق وہ بھی لطف اٹھا سکیں. پارلیمنٹ کے سامنے راستے کے کنارے بنی سیڑھیوں پر اس جگہ سستانے بیٹھ گئے جو لوبرڈز سے پاک تھا. دور انڈیا گیٹ لائٹس کی روشنی میں بقعہ نور بنا ہوا تھا اور پارلیمنٹ میں تاریکی چھائی تھی. شاید اس لیے کہ انڈیا گیٹ والے برسوں سے عوام کے دلوں میں براجمان ہیں اور پارلیمنٹ والے عوام کے سروں پر محض پانچ برس کے لیے سوار ہوتے ہیں. جونہی عوام کو موقع ملتا ہے وہ انہیں سروں سے اتار پھینکتی ہے.
رات کے دس بج رہے تھے اور ہمیں دوسری صبح آگرہ کے لیے ٹرین پکڑنی تھی. واپسی کے دوران جمیعت العلماء ہند کے ہیڈ کوارٹر مسجد عبدالنبی میں عشاء پڑھی. وہاں معلوم ہوا کہ جمیعت کے آل انڈیا صدر مولانا ارشد مدنی موجود ہیں. دوست مصافحہ کی سعادت حاصل کرنا چاہتے تھے. ایک طویل انتظار کے بعد حضرت کی خدمت میں رسائی ہوئی. ایک کمرے میں چند پولیس افسران کو دعوت اڑاتے دیکھ کر یہ اطمینان حاصل ہوا کہ ضرور یہ دعوت بھی قوم و ملت کے وسیع تر مفاد میں اڑائی جارہی ہوگی. بےدلی کے ساتھ حضرت سے مصافحہ کیا اور واپس بستی نظام الدین کی جانب چل دیے. مبارک بدری مصر ہوگئے کہ اب جارہے ہو تو میری دعوت قبول کی جائے چنانچہ رات بارہ بجے مولانا آزاد میڈیکل کالج کے سامنے مبارک کی مبارک دعوت اڑائی گئی. مبارک سے جدا ہوتے وقت دل بوجھل تھا. مبارک سے آگرہ تک ساتھ چلنے کا اصرار بھی کیا لیکن ان کی بھی کچھ مصروفیات تھیں اس لیے وہ ساتھ نہ آسکے.
شب کے سکوت میں ارتعاش پیدا کرتا آٹو رکشہ بستی نظام الدّین کی جانب چلا جارہا تھا اور میں سوچوں میں گم تھا. دوست حسبِ معمول ہنسی مذاق کررہے تھے. انہیں روم پر پہنچ کر گھوڑے بیچ کر سونا تھا لیکن مجھے پتہ تھا کہ دلّی کا خمار کم از کم مجھے نہیں سونے دےگا.
(جاری ہے)
سفرنامے کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی چوتھی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی پانچویں قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی ساتویں قسط یہاں ملاحظہ کریں

Comments

Click here to post a comment