ہوم << الطاف حسین، ایک ہی حل ہے - آصف محمود

الطاف حسین، ایک ہی حل ہے - آصف محمود

آصف محمود الطاف حسین کے نامعقول اور مجہول خطاب کے بعداب میرے پیش نظر ایک ہی سوال ہے : ’’ ہماری ترجیح کیا ہے؟ اپنی انا کی تسکین یا ریاست کی سالمیت؟ ‘‘
ملک کو دی گئی گالی قلب و ذہن میں ایسے ہی ترازو ہوتی ہے جیسے ماں کو دی گئی گالی۔ جذبات کا سلگ اٹھنا بالکل فطری امر ہے۔ تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ جب کسی فرد کو معاشرے میں سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے تو اس کے ساتھ عام مجرم کا سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ انصاف کا تقاضا بھلے یہی ہو کہ قانون کسی امتیاز کے بغیر کامل قوت کے ساتھ بروئے کار آئے لیکن کار ریاست کے تقاضے بسا اوقات کچھ اورہوتے ہیں۔ یہ تقاضے نبھانا، ظاہر ہے کہ کوئی معمولی کام نہیں۔ حسیات کا خون کرنا پڑتا ہے، جذبات کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے اور خون کے گھونٹ پی کر خاموش رہنا پڑ سکتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ یہ وہ کوہ کنی ہے، ابوالاعلی مودودی کے الفاظ مستعار لوں تو فرہاد کا زہرہ جس کے تصور سے آب ہو جائے ۔
الطاف حسین کا معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ وہ جذبات کے زیر اثر غلط بات کہہ جاتے ہیں اور انہیں خود بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کہہ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک کائیاں آدمی ہیں جسے خوب معلوم ہے کہ وہ کیا کہنے جا رہا ہے۔ کل کا خطاب بھی محض جوش کلام نہ تھا۔ اس میں ایک جہان معنی پوشیدہ ہے۔
الطاف حسین کیا چاہتے ہیں، یہ بالکل واضح ہے۔ ریاست کے بارے میں یاوہ گوئی اور ساتھ ہی رینجرز اور آرمی چیف کے بارے میں اخلاق و شائستگی سے گری ہوئی گفتگو۔ یہ شدت جذبات نہیں تھی۔ یہ کوئی اور ہی کہانی ہے۔ اس کہانی میں الطاف کا کردار فی الوقت ریاست کو اشتعال دلانا ہے تاکہ وہ قوت استعمال کرے۔ ہدایت کار کوئی اور ہے۔الطاف سے وہ یہ کام لینا چاہتا ہے۔ ایک بار یہ کام ہو جائے، اس کے بعد دیگر کردار بروئے کار آئیں گے اور کہانی کا انجام خدا نخواستہ کسے معلوم کیا ہو؟ چنانچہ آپ دیکھیں کہ کل خواتین کو آگے کیا گیا۔ اس وقت رینجرز یا پولیس طاقت استعمال کرتی تو الطاف حسین کے تیار کردہ ڈرامے کا پہلا ایکٹ کامیاب ہو جاتا۔ کہا جاتا کہ پنجاب کی رینجرز اور فوج مہاجر ماؤں بہنوں پر طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ مثالیں دے کر کہا جاتا کہ یہی بات اچکزئی کریں تو کچھ نہیں ہوتا، ہم کریں تو ہماری ماؤں بہنوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔
چنانچہ اس وقت ریاست کو ٹھنڈے دل سے بروئے کار آنا چاہیے۔ حسیات کا خون کر کے، جذبات کا گلا گھونٹ کر اور خون کے گھونٹ پی کر۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھی بھی الطاف کی سیاسی عصبیت موجود ہے۔ اس عصبیت کو بتدریج کمزور کرنا ہوگا۔ کوئی ایسا اقدام بھلے آئین اور قانون کی رو سے جائز ہی نہیں ناگزیر ہی کیوں نہ ہو، اگر اس عصبیت کو طاقتور کرنے کا باعث بنتا ہو تو اس سے اجتناب کرنا ہوگا۔
دو مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایک شیخ مجیب الرحمن کی اور دوسری جی ایم سید کی۔ ریاست نے دونوں سے مختلف طریقوں سے نبٹا۔ ایک سے نبٹتے نبٹتے حادثہ ہو گیا اور دوسرے کا آج سندھ میں نام لیوا ہی کوئی نہیں۔ ضیاء الحق نے جب جی ایم سید کو انگیج کیا تھا تو انہیں دشنام اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑا کہ ایک غدار کو پھولوں کے ٹوکرے بھیجتا ہے لیکن اس پالیسی کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔
اس وقت الطاف حسین کی طاقت اس کو حاصل عصبیت ہے۔ مشتعل ہوئے بغیر اور کوئی ایسی کارروائی کیے بغیر کہ جس کی آڑ میں مودی کشمیر کے مطلع کے جواب میں کراچی کا مقطع کہنا شروع کر دے، ریاست کو ایک واضح وژن کے ساتھ بروئے کار آنا ہوگا۔ ایک دوٹوک فیصلہ کر کے اسے معمول کی کاروائی سے نبٹانا ہوگا۔ الطاف کو حاصل عصبیت کا خاتمہ بہت ضروری ہے اور لازم ہے یہ کام فطری طریقے سے ہو۔ کبھی الطاف، کبھی آفاق، کبھی عامر اور کبھی مصطفی کمال، یہ فطری نہیں، سب کے سب غیر فطری طریقے ہیں۔ متبادل طریقہ یہی ہے کہ موجود سیاسی عصبیت ( یعنی جماعت اسلامی، ن لیگ، پی پی پی، تحریک انصاف وغیرہ ) الطاف کی عصبیت کی جگہ لیتی جائے۔ آہستہ آہستہ دھیرے دھیرے۔ اور ایک وقت آئے کہ کراچی کو اس عذاب سے نجات مل جائے۔ رستہ کٹھن سہی مگر رستہ یہی ہے۔

Comments

Click here to post a comment