ہوم << شام اور فساد کی جڑ - نجم الحسن

شام اور فساد کی جڑ - نجم الحسن

نجم الحسن ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں‘‘ (القران ؛ 2:11)
قرآن مجید فرقان حمید نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی اندیشہ ظاہر کیا تھا اور ہمیں کھول کھول کر بتلایا کہ اس زمین پر ہمیشہ سےایسے لوگ سامنے آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے جو دعوہ تو کریں گے کہ وہ اصلاح کنندگان ہیں لیکن دراصل وہی اصل فساد کی جڑ ہوں گے۔
زیر نظر تصویر کی طرح آج سے قریبا ایک سال پہلے بھی ایسے ہی ایک معصوم بچے تین سالہ ’’ایلان کردی‘‘ کی تصویر نے پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کرکے رکھ دیا تھا اور آج ایک اور بچے ’’عمران‘‘ کی تصویر انسانیت کے ضمیر کو بیدار کرنے کی ایک اور ناکام کوشش کر رہی ہے۔ لیکن یہ کیسا ضمیر ہے جو صرف چند ساعتوں کے لیے تو جاگ جاتا ہے، آنکھیں کھولتا اور خواب غفلت سے بیدار ہو جاتا ہے لیکن کچھ وقت کے بعد پھر سو جاتا ہے، آنکھیں موند لیتا ہے، اور اپنے عالم مدہوشی میں غرق ہو جاتا ہے۔ شاید اس لیے کہ ضمیر بھی اچھا خاصا سمجھدار ہو چلا ہے، کہ جہاں بس نہ چلے تو خاموش رہنے میں ہی عافیت ہے، یا شاید وہ اس سب کا عادی ہو گیا ہے۔
ایلان کی طرح عمران کی تصویر بھی جنگل میں آگ کی طرح پھیلی. اور اس نے خبر دی کہ جو قوتیں ہمارے مستقبل کو بچانے کےلیے کے نام پر دن رات ایک کر کے بڑی محنت و جانفشانی سے دن رات مسلسل شام میں بمباری کر رہے ہیں، وہی اصل میں ہمارے قاتل اور ہماری بربادی کے ذمہ دار ہیں، مستقبل بچانے کے نام پر وہ ہمارا مستقبل چھین رہے ہیں۔ ہر ذی شعور سوال کر رہا ہے کہ وہ کون سا مستقبل ہے جس کو بچایا جا رہا ہے۔ مستقبل تو یہی بچے ہیں جنہوں نے ایک جنگ زدہ ماحول میں آنکھیں کھولی ہیں اور اسی میں گھٹ گھٹ کر مر رہے ہیں، کبھی امریکہ اور کبھی روس کی بمباری سے۔ اگر شام کو بچا رہے ہو تو یہ بچے کون ہیں جو نشانہ بن رہے ہیں؟ زمین پر انسانوں کو مار کر کون سی دنیا آباد کر رہے ہو؟ چلیں مان لیں کہ روس و امریکہ تو دونوں ہی اسلام مخالف قوتیں ہیں اور کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کی تباہی کا سامان کرتی ہیں، لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب اسلام کے نام لیوا بھی اس کار خیر میں مقدور بھر حصہ لے کر ثواب دارین حاصل کرتے نظر آتےہیں۔ ابھی 16 اگست ہی کو روسی جنگی جہازوں نے ایران کے ہمدان ائیربیس سےاڑان بھر کر حلب میں بمباری کی اور ’’عمران‘‘ جیسے ’’شام اور انسانیت دشمنوں‘‘ کو زندہ درگور کرکے شام کے مستقبل کو بچایا۔
یہ تو صرف چند تصاویر ہیں جو ہماری نظروں سے گزر کر ہمارے خوابیدہ ضمیروں کو تھوڑی دیر کے لیے جگا دیتی ہیں، ورنہ تقریبا 3 لاکھ انسان جو اس جنگ میں لقمہ اجل بن گئے ہیں، اور جو تقریبا لاکھوں لوگ بےگھر اور غذائی قلت کا شکار ہیں، ان کی حالت زار دیکھنے کے لیے تو کوئی شقیق القلب انسان کا دل چاہیے جو یہ سب دیکھ کر بھی رات کو آرام سے چین کی نیند سو سکے۔ اس پانچ سالہ جنگ نے تک لاکھوں انسانوں کی جان لی ہے اور کروڑ سے زائد کو بےگھر کیا ہے مگر بڑی قوتوں نے جو جنگ انسانی مستقبل کو بچانے کے لیے جابجا شروع کی ہے، نہیں معلوم کہ وہ آخر کب کامیاب ہوں گی؟ کہیں مقتدر قوتیں انسانیت کو بچانے کے نام پر انسانوں اور انسانیت کو قتل تو نہیں کر رہیں، بقول قرآن مجید کے کہ اصل میں یہی قوتیں اور ان کی حواری زمین پر فساد کی جڑ ہیں۔