ہوم << دیارغیر میں پردیسی نواب - بلال ایوب بٹ

دیارغیر میں پردیسی نواب - بلال ایوب بٹ

بلال بٹ جب بھی کسی ملک کا کوئی باشندہ کسی دوسرے ملک جائے، مقصد چاہے روزگار ہو، تعلیم ہو یا کوئی بھی غرض ہو تو وہ وہاں اپنے ملک کا سفیر ہوتا ہے کیونکہ وہاں اس کی ہر حرکت اپنے ملک کی نمائندگی تصور کی جاتی ہے.
عموما عرب دنیا بالخصوص سعودی عرب میں مقیم تارکین وطن کا وہاں کے رہائشیوں کے متعلق تین طرح کا مزاج دیکھنے کو ملتا ہے.
پہلا طبقہ پردیسی خودکار نوابوں کا ہے. وہ جو متعلقہ ملک کے رہائشیوں کے سامنے اکثر سینہ سپر نظر آتے ہیں. ان کی عزت نفس اپنی حدود سے لامحدود تک تجاوز کرتی نظر آتی ہے. بات بات پر مزاحمتی ردعمل دیکھنے کو ملتا ہے. خود کو ان کے برابر یا ان سے بہتر ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں. ایسے پردیسی مقامی لوگوں سے اور مقامی ان سے اکثر شکوہ کرتے نظر آتے ہیں. ایسے لوگوں کی اکثریت پاکستان، یمن، سوڈان اور مصر سے تعلق رکھتی ہے. بدقسمتی سے ایسے لوگ پیسے کے بےانتہا لالچ اور ذاتی مفاد میں بعض اوقات منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو کر دیار غیر میں ملکی عزت کا جنازہ نکالنے سے نہیں کتراتے.
دوسرا طبقہ ایسا ہے جو خود کو اجیر (مزدور) اور مقامی لوگوں کو آجر (مالک) تصور کرتے ہیں. اور ان کی ہر آواز پر لبیک کہتے نظر آتے ہیں. (بقول پاکستانیوں کے ایسے لوگ خود کو مقامی لوگوں کا غلام سمجھتے ہیں) کسی بات پہ مزاحمت نہیں کریں گے، عزت نفس کا سوال ہی ذہن میں نہیں لائیں گے. ایسے لوگوں کی اکثریت میں بھارتی ریاست کیرالہ کے باشندے اور بعض دوسرے خطوں کے لوگ شامل ہیں. یہی وجہ ہے کہ عرب لوگ کام کے لیے ثانی الذکر لوگوں کو اول الذکر باشندوں (جن میں پاکستانی اہم ہیں) پر ترجیح دیتے ہیں. اور اول الذکر لوگوں سے خائف اور متنفر نظر آتے ہیں.
ان دونوں کے برعکس ایک تیسرا طبقہ معتدل مزاج لوگوں کا ہے، جو نہ تو خود کو غلام تصور کرتے ہیں اور نہ پھنے خاں(نواب) بنتے ہیں. ان میں عاجزی اور خودی کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے. ایسے لوگ تقریبا تمام لوگوں کی نظر میں معزز گردانے جانتے ہیں. ایسے لوگ اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے. قوانین کی پاسداری کو فرض عین سمجھتے ہیں. اپنے سے ادنی لوگوں کی عزت کرنا ان کی اخلاقیات کی اہم علامت ہے. ایسے لوگوں میں بشمول پاکستان تقریبا تمام شہریتوں کے کچھ نہ کچھ لوگ شامل ہیں.
نتیجہ:
اول الذکر قسم کے لوگ اپنے سخت رویے کی وجہ سے مقامی لوگوں کی نظر میں ہمیشہ ناپسندیدہ تصور کیے جاتے ہیں. اس وجہ سے یہاں کی جاب مارکیٹ اور کاروبار میں ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے. دوسرے لوگوں کی نسبت بہت کم زرمبادلہ کما پاتے ہیں. ایسے لوگ ایک طرف تو کئی دہائیاں پردیس میں گزارنے کے باوجود کوئی خاطر خواہ مالی مفاد حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں. یہ لوگ عاجزی اختیار کرنا اپنی اور ملک کی توہین سمجھتے ہیں اور اپنے انتہاپسندانہ رویے کو ملکی عزت سمجھتے ہیں حالانکہ اس ناپسندیدہ رویے کی بناہ پر ملکی وقار کو مجروح کرتے ہیں.
ثانی الذکر قسم کے لوگ اپنی محنت اور ضرورت سے زیادہ عاجزی کی وجہ سے مقامی لوگوں کی نظر میں بڑے با اعتماد ہوتے ہیں. اسی لیے ایک طرف تو پورے عرب کی بڑی بڑی کمپنیوں میں یہاں کے ملازمین کی ایک بہت بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے. اس کے علاوہ پورے عرب چھوٹے پیمانے کے کاروبار (کریانہ سٹورز) پر ان کا قبضہ ہے. اس طرح دوسری تمام اقسام کے لوگوں سے زیادہ زرمبادلہ کما کر ملک کی بہت بہتر طریقے سے خدمت سرانجام دے رہے ہیں، اور پردیس میں ملکی عزت و وقار کی حفاظت کرتے ہیں.
ثالث الذکر قسم کے لوگ بھی اپنی معتدل مزاجی کی بناہ پر ملازمتوں اور کاروباری معاملات میں کسی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں. گو کہ یہ لوگ ثانی الذکر سے کم ہی کما پاتے ہیں لیکن اپنی خودی اور عاجزی پر قائم رہتے ہوئے بھی اول الذکر لوگوں سے بہت بہتر حد تک مقامی لوگوں کی نظر میں معزز ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر زرمبادلہ کما کر ملک کی خدمت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں. اور ملک کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے پیش کر کے اول الذکر (پردیسی نوابوں) کے ملکی وقار پر لگائے ہوئے داغ دھوتے نظر آتے ہیں.
میرے خیال سے بہترین طبقہ یہی ہے جو خودی میں رہتے ہوئے نہ تو عزت نفس پہ آنچ آنے دیتا ہے اور ایک حد تک عاجزی اختیار کرتے ہوئے ملکی عزت و وقار بھی داغدار نہیں ہونے دیتا. اس لیے ہمارے پردیسیوں کو چاہیے کہ حالات جیسے بھی ہوں معتدل مزاجی کا دامن نہ چھوڑیں. صرف پردیسی ہی نہیں بلکہ ملک میں رہتے ہوئے بھی عاجزی اور خودی بیک وقت اختیار کرنی چاہیے. یہی کامیابی کی ضمانت ہے.

Comments

Click here to post a comment