ہوم << فروغ اسمِ محمدؐ ہو بستیوں میں منیر- ہارون الرشید

فروغ اسمِ محمدؐ ہو بستیوں میں منیر- ہارون الرشید

m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed
وہ گلی کوچے جن کے بارے میں نادرِوزگار شاعر نے کہا تھا ؎
فروغ اسمِ محمدؐ ہو بستیوں میں منیرؔ
قدیم یاد نئے مسکنوں سے پیدا ہو
دیر آشنا وہ ہوتا ہے غم اور خوشی کا جسے تاخیر سے احساس ہو۔ کتنا ہی بڑا واقعہ رونما ہو جائے‘ بعض اوقات اس پر طاری نہیں ہوتا۔ ماہرین نفسیات ہی مکمل توجیہہ کر سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
یہ ناچیز ان میں سے ایک ہے۔ کئی دن سے دھڑکا لگا تھا کہ کچھ رونما ہونے والا ہے۔ آخر کار پیر کی شام خبر آئی کہ بارہ سالہ ابراہیم عبدالعزیز گھر سے غائب ہے اور اس پر بارہ گھنٹے گزر چکے۔ کچھ دیر پہلے اس کی تصاویر موصول ہوئی تھیں‘ میرے بھانجے اسد نے لکھا تھا : امّی جان نے یہ تصاویر آپ کو ارسال کرنے کو کہا ہے‘ میری پیاری بہن نے۔ اتنے میں بلال الرشید کا فون آیا اور اس نے خبر دی۔
خرابی کا موسم ہے ۔ ایک کے بعد ایک بری خبر آتی ہے۔ کئی دن سے طبیعت بے چین تھی۔ سیاست کا برا ہو۔ سب سے بڑھ کر سول ‘ عسکری تعلقات میں بگاڑ کا۔ سعودی عرب میں ہزاروں پاکستانی بھوکے پیاسے پڑے ہیں۔ مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ وسطی پنجاب میں بچوں کے اغوا کا المناک سلسلہ چل نکلا ہے اور حکمرانوں کو کوئی پروا اس کی نہیں۔ دونوں موضوعات پر لکھنا چاہیے۔ محض واویلا کرنے سے مگر کیا حاصل۔ اعداد و شمار جمع کئے جائیں۔ پس منظر پہ پولیس افسروں سے بات کی جائے۔ کالم آرائی محض الفاظ اور جذبات کا انبار لگانے کا نام نہیں۔ اس درویش صفت ناول نگار ٹالسٹائی نے کہا تھا : صرف پھولوں سے ہار نہیں بنتا‘ دھاگے کی ضرورت ہوتی ہے۔
رات گئے تک دوستوں اور پولیس افسروں سے بات ہوتی رہی۔ خود کو تھامے رکھا اور اسد سے کہا : تین چیزیں ہوتی ہیں‘ دعا‘ صدقہ اور ہوش و خرد کے ساتھ بہترین تدبیر۔ گریہ زاری سے کوئی عقدہ نہیں کھلتا۔
شعیب بن عزیز سے بات کی تو کچھ دیر میں فیصل آباد کے ریجنل پولیس افسر بلال کمیانہ کا فون آیا : آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟ حافظے پر زور دینے کی کوشش کی مگر کوئی تصویر نہ ابھری۔ بھانپ گئے اور کہا کہ کبھی پروفیسر احمد رفیق اختر کے پاس آپ مجھے لے گئے تھے۔ ان سے تفصیل بیان کی۔ ہر ممکن کوشش کا انہوں نے یقین دلایا مگر اس کے بعد صرف ایک بار رابطہ ہو سکا۔ رات کے دس بجے ان سے گزارش کی : کسی افسر سے کہیے کہ مجھے آگاہ کرتا رہے۔
صبح بالآخر وہ کیفیت طاری ہو گئی۔ بار بار فون کرنے کے باوجود جب وہ نہ ملے۔ انحصار کرنے کا وقت اب بیت گیا تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ الم اور تگ و تاز کا ولولہ ایک ساتھ جاگتے ہیں۔ کچھ دیر دعائیں پڑھیں اور بے سدھ ہو کر بستر پر پڑا رہا۔ آنکھ نم ہوئی تو میر یاد آئے ؎
افسردگیِٔ سوختہ جاناں ہے قہر میرؔ
دامن کو ٹک ہلاکہ دلوں کی بجھی ہے آگ
کیا یہ بے نیازی کا شکارہو جانے والے دل کے لیے قدرت کا تازیانہ ہے؟ زندگی میں پہلی بار شدت سے ایک خواہش دل میں پھوٹی۔ داتا دربار جائوں اور دو نفل پڑھ کر اللہ سے دعا کروں۔ مُسبب الاسباب وہی ایک تو ہے۔ سفر درپیش تھا پھر ایک اور خیال ابھرا۔ بندوں کا پروردگار کیا منتقم مزاج ہے کہ کچوکے لگائے۔ ہر کہیں وہ سنتا ہے اور آزمائش اس کے بنیادی قوانین میں سے ایک ہے۔ فرمایا: ''بے شک ہم تمہیں آزمائیں گے خوف سے‘ اور بھوک سے اور مال کی تباہی سے ‘جانوں کے نقصان سے اور باغوں کی بربادی سے‘‘
بلال الرشید سے کہا کہ وہ فیصل آباد روانہ ہو جائے۔ زخم جاگیں تو رفیق یاد آتے ہیں ؎
دوست آں باشد کہ گیر د دستِ دوست
در پریشاں حالی و درماندگی
ڈاکٹر شعیب سڈل سے بات کی اور تفصیل بتائی۔ صبح چھ بجے ابراہیم گھر سے نکلا‘ غالباًمحلے کی دکان سے کچھ خریدنے کے لیے۔ نہا کر اسے تیار ہونا تھا اور امتحانی پرچے کی تیاری کرنا تھی۔ اس کے بعد کچھ خبرنہ ملی۔ عرض کیا : پولیس کا رویہ ہمدردانہ ضرور ہے لیکن رابطہ مشکل‘ان کی اپنی مجبوریاں اور مصروفیات ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ملک بھر کی پولیس کے استاد ہیں اورنباض بھی۔ پاکستان ہی کیا ترکی اور جاپان کی پولیس بھی ان سے رہنمائی طلب کرتی ہے۔ ترک پولیس کے انقلاب میں‘ جس نے اسے عالمی معیار بخشا‘ ڈاکٹر صاحب کا حصہ ہے۔ بولے:فیصل آباد کا پولیس افسر ڈھنگ کا آدمی ہے ‘اسے بتاتا ہوں ۔ ابھی وہ آپ سے رابطہ کرے گا۔
چند منٹ ہی گزرے تھے کہ افضال کوثر کا فون آیا۔ کہا: کل شام ہی سے مجھے معلوم ہے کہ وہ آپ کا نواسہ ہے‘ تب سے اس کام میں جتا ہوں۔ کہا : آپ سے ملنے کی کتنی آرزو تھی‘ افسوس کہ اس حال میں ملے۔ بے ساختہ پھر وہ بات کہی‘ جو ایک صاحبِ دل کی زبان ہی سے نکل سکتی ہے۔ بولے:اسی عمر کا میرا ایک بیٹا ہے ‘ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر میں نہیں بیٹھ سکتا۔
غورو فکر کا اب آغاز ہوا۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ پرچے کی اس نے تیاری نہ کی ہو‘ گھبراہٹ کا شکار ہو گیا ہو‘ کسی دوست کے پاس جا چھپا ہو ۔اسد سے پوچھا‘ اس نے کہا: ایسا تو وہ ہرگز نہیں‘ گھر والوں سے ناراض و ناخوش بھی نہیں‘امتحان میں کوئی دشواری نہیں کہ فرار اختیار کرتا۔ تب معظم رشید کا وہ واقعہ یاد آیا۔
بیس برس ہوتے ہیں۔ سرد سیاہ رات کے دس بجے ہوں گے کہ گھر پہنچا ۔معلوم ہوا کہ صاحبزادے سکول سے گھر نہیں آئے ۔باہمت ماں خاموش تھی مگر بہن ٹوٹ کر رورہی تھی۔ پوچھا کہ اس کا سب سے قریبی دوست کون ہے ۔قریب ہی ایک گلی۔ دستک دی تو پتا چلا کہ وہ بھی غائب ہے۔ گھبراہٹ کے عالم میں لوٹ رہا تھا کہ اس پہ نگا ہ پڑی۔ ایک ذرا سا اضطراب بھی اس میں نہ تھا ۔پوچھا :کہاں سے آ رہے ہو اور معظم رشید کہاں ہے ؟ رسان سے بولا: ہم پشاور کی باڑہ مارکیٹ گئے تھے چمڑے کی جیکٹ خریدنے۔ ''راولپنڈی سے کیوں نہ لے لی‘‘۔ ''ماہنگا (مہنگا) ہوتا ہے نہ یہاں‘‘ ۔اس نے سمجھایا۔
نک سک سے بچوں نے درست منصوبہ بنایا تھا۔ دو بجے سکول سے نکلیں گے، چار بچے پشاور، آدھ گھنٹے کے بعد واپسی، شام ساڑھے چھ بجے لوٹ آئیں گے۔ کانوں کان کسی کو خبر نہ ہو گی۔ اسی طرح بچے سوچتے ہیں۔ منطق کے بغیر۔ معصومیت کھو کر بھی کچھ لوگ عمر بھر بچے ہی رہتے ہیں اور ہمیشہ خیال و خواب کی دنیا میں۔ ان میں سے بعض یہ ادراک بھی نہیں کر سکتے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے۔ زندگی اور موت‘ عزت اور ذلت‘ تنگدستی اور فراوانی پہ جس کا اختیار ہے۔ قہر مانوں ‘ حکمرانوں کی چوکھٹ پہ پڑے رہتے ہیں۔ جانور سے ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض دانشور اور لیڈر کہلاتے ہیں‘ ریوڑ کے ریوڑ۔ چرواہے جنہیں ہانکتے رہتے ہیں۔ پھر مائوں کے وہ جگر گوشے جنگل جیسے معاشروں میں بردہ فروشوں کے جو ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ شہباز شریف کی پولیس ہو یا آصف علی زرداری کی۔ مجرم کے دل میں اس کا کوئی خوف تو ہے نہیں۔ اس پولیس سے شکایت بھی کیا ہو، جس کے کانسٹیبل کو ''ملازم‘‘ کہا جاتا ہے۔ غلاموں کی سی زندگی جو بسر کرتے ہیں۔ اپنے فرائض کی اہمیت نہیں سمجھائی جاتی اور نہ عزتِ نفس کا چراغ ان کے دلوں میں روشن کیا جاتا ہے۔ روبوٹ کے سے۔ طاقتور ہو تو ''تعمیل ہو گی جناب‘‘۔ کمزور ہو تو حیلے بہانے اور گاہے نفرت و تحقیر ؎
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوںمیں
بے حس حکمران، بے حس پولیس۔ غنیمت ہے کہ اب بھی اس میں کچھ زندہ سلامت ہیں‘ صاحبِ احساس اور دردمند ۔ پلوں، سڑکوں اور ذاتی کاروبار جمانے والے حاکم۔ خوشامدی پالتے ہیں ‘ اصول یاد کرانے والوں سے نفرت کرتے ہیں‘ بدبو اور خوشبو سے بے نیاز‘ ضمیر کے تازیانے سے آزاد۔ شاعر کے دل میں غیظ و غضب کی آگ بھڑک اٹھی تھی ؎
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
اللہ کا شکر ہے کہ خاندان کی کسی سے کوئی مخاصمت نہیں۔ کبھی کسی کو زخم نہیں لگایا۔ ابراہیم کی انشاء اللہ پروردگار حفاظت کرے گا اور عافیت کے ساتھ وہ لوٹ آئے گا۔ سینکڑوں ہاتھ دعا کے لیے اُٹھے ہیں اور اُمید ہے کہ ہزاروں اور اٹھیں گے۔ وہی ہے جو تاریکی میں راستہ دکھاتا اور تاریک راتوں میں کشتی کو ساحل سے ہمکنار کرتا ہے۔ شہر سنگ دل کو جلا دینے اور اس کی خاک اڑا دینے سے کیا حاصل؟ سوئے ہوئے دلوں کو جگانا اور بستیوں کو پھر سے تعمیر کرنا چاہیے۔
وہ گلی کوچے جن کے بارے میں نادرِوزگار شاعر نے کہا تھا ؎
فروغ اسمِ محمدؐ ہو بستیوں میں منیرؔ
قدیم یاد نئے مسکنوں سے پیدا ہو

Comments

Click here to post a comment