پورے عالم میں اس وقت اھل ایمان کا طبقہ کسی جگہ مشق ستم بنا ہوا ہے تو کسی جگہ اس کے عقائد و افکار پر تیشہ چلایا جارہا ہے. کہیں آقا مدنی علیہ السلام پر فقرے بازی، اور توہین آمیز خاکوں کا اجراء ، تو کہیں اہل ایمان کی دل شکنی کے لئے کائنات کے اس داعی اعظم ﷺ کے کردار و افکار پر طنز کئے جاتے ہیں.
بس ایسا سمجھیں کہ پورے عالم میں اسلام و ایمان کے خلاف مختلف فتنے آگ کے شعلوں کی مانند بھڑک اٹھے ہیں. سمندر میں اٹھتی لہروں کی طرح پوری قوت سے ٹھاٹھیں مار رہے ہیں. اس میں ہر آئے دن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور حال یہ کہ ہر دن اک نیا پیام غم لے کر مؤمنین کے قلوب کو نئی آفتوں کی آمد کا بتا کر چھلنی کر رہا ہے. ان فتنوں کا شکار امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ ہوتا جارہا ہے جس میں مرد و خواتین پیر و جوان بچے بچیاں سب مختلف انداز سے ان ابھرتے اور لہراتے فتنوں کی نذر ہوتے جارہے ہیں. دوسری طرف بدقسمتی یہ کہ امت کا ذی شعور طبقہ مختلف افکار و نظریات کو لیکر یا تو بوال اٹھائے ہوئے ہے. اور مخالف کے لئے برسر پیکار ہے یا پھر گر اقتدار و مقتداء ہے تو وہ چاکری پر آمادہ ہوکر اسلامی شعائر سے بے گانہ ہے. صورت حال دن بہ دن ابتر سے ابتر ہوتی جارہی ہے.
قرآن کریم نے صاف صاف یہ بات ارشاد فرمائی :
فَاَمَّا مَنْ طَغٰی وَاٰثَرَالْحَیٰوۃَ الدُّنْیَافَاِنَّ الْجَحِیْمَ ھِیَ الْماْوٰی وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ
الْمَاْوٰی(سورہ نازعات)
جو لوگ سرکشی کریں اوردنیاکی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دیں ان کا ٹھکانہ دوزخ کی آ گ ہے اور جوانسان قیامت کے دن اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے گااس کے دل میں یہ خوف ہوگاکہ اﷲ مجھے دیکھ رہاہے اور مجھے اﷲ کے دربار میں پیش ہو کر اپنی زندگی کے اعمال کاحساب دینا ہے،اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔زندگی گذارنے کے یہی دوطریقے ہیں ایک نفس پرستی کاطریقہ ،اس کا انجام جہنم ہے اوردوسراخدا پرستی اور اﷲ تعالیٰ کے ڈر اورخوف کے ساتھ زندگی گذارنے کا طریقہ ، اس کا انعام جنت ہے۔
قرآن کریم نے پوری قوت کے ساتھ اس حقیقت کو بھی بیان کر دیا کہ اِنَّا ھَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا اﷲ تعالیٰ انسان کو آزمارہا ہے۔انسان یا تواﷲ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ زندگی گذارے گا یا ناشکری کے راستے پر چلے گا،وہ خداپرستی کے ساتھ زندگی گذارے گا یا نفس پرستی کے راستے پرچلے گا۔دونوں راستے انسان کے لیے کھلے ہوئے ہیں ،جس نے اپنے نفس کو کچل دیا وہ کامیاب ہوگیا، اور جس نے نفس کی غلامی اختیار کی وہ ناکامیاب ہوگیا. اسی طرح جناب رسالت مآب ﷺ نے اھل ایمان کو موجودہ فتنوں کے بارے میں پہلے ہی بتایا ہوا ہے، صورت حال کس قدر پرخطر ہوگئی نعمت ایمانی کے بچاؤ کے لئے .
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم لوگ نیک اعمال کی طرف جلدی کرو، ان فتنوں کے خوف سے جو سخت تاریک رات کی طرح ہیں جس میں آدمی صبح کے وقت مومن اور شام کے وقت کافر ہو گا، شام کے وقت مومن اور صبح کے وقت کافر ہو گا، دنیاوی ساز و سامان کے بدلے آدمی اپنا دین بیچ دے گا“ .
صحیح مسلم/الإیمان 51 (118) (تحفة الأشراف: 14075)
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”قیامت سے پہلے سخت تاریک رات کی طرح فتنے (ظاہر) ہوں گے، جن میں آدمی صبح کو مومن ہو گا اور شام میں کافر ہو جائے گا، شام میں مومن ہو گا اور صبح کو کافر ہو جائے گا، دنیاوی ساز و سامان کے بدلے کچھ لوگ اپنا دین بیچ دیں گے“۔
یہ دور ظلمت اپنی تمام تر ظلمت کے ساتھ پوری دنیا میں ایستادہ ہوچکا ہے اس ظلمات کے اندھیرے کا حال کیسا ہے اور کس قدر اذیت ناک ہے یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے. اسلامی شعائر اسلامی افکار۔ اسلامی علوم ، اسلامی تہذیب، اسلامی ثقافت، سے جس طرح مسلمان بیگانگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں سوچ کر یا تن آسانی کے لئے اسے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور اصحاب فکر و داعیان حق کا حال کچھ ایسا ہوجاتا ہے کہ وہ بزبان حال کہتے ہیں. اک غم کا لاوا جب قلوب کو مضطرب کردیتا ہے تو کہتا ہے وہ امت کے غم میں ڈوب کر.
اس حیات مستعار کے مجھ سے منسوب کچھ لمحات کے کرب و الم ہیں جو صرف میرے ہی نہیں ہیں. لیکن پھر بھی اکثر مجھے خون کے آنسو رونے پر مجبور کرتے ہیں. قدموں کے کچھ زخم ہیں جو اوروں کے قدموں میں ہیں. لیکن ان کی سوزش مجھے بے چین رکھتی ہے,کسی اور کی دین سے بیزاری اور حیاء و پاکدامنی سے عاری زندگی مجھے اپنے گریبان میں منہ چھپاکر شرمانے پر مجبور کرتی ہے. عزت و ناموس کے اٹھتے ہوئے جنازوں پر میں بے آواز بین کرنا چاہتا ہوں لیکن کوئی میرا پرسان حال نہیں ہی نہیں .نہ اس راہ میں ساتھی و ہمدرد بن کر ساتھ چلنا چاہتا ہے ۔ میرے وجود پر ایک دو زخم نہیں بلکہ پورا بدن ہے چھلنی کچھ لوگ روشن خیال کہتے ہیں کہ شمع روشن ہورہی ہے.
میں کہتا ہوں وہ تو پگھل رہی ہے، اور اس کے ختم ہونے سے لمحہ لمحہ میرا وجود بھی بکھر رہا ہے غم و الم سے میرا جگر پھٹ رہا ہے لیکن میری آواز میرے وجود میں کہیں دفن ہوتی جارہی ہے میں تماشہ بین نہیں ہوں کہ بس دیکھ کر گزر جاؤں نہیں میں ایک ایک بات کو سمجھ رہا ہوں سوچ رہا ہوں. اس کے مضمرات اس کے نقصانات کو سمجھ رہا ہوں یہ جو تہذیب نو کی یلغار سے میرے وجود کو لرزہ ہوتا ہے. یہ میری روح کو بھی زخمی کئے جاتا ہے میں دکھ اور المیہ کا اک نشان بنتا جارہا ہوں لیکن بے حسی و بے کسی نے مبہوت کر رکھا ہے حیاء و پاکدامنی کے اٹھتے جنازے مجھے رلاتے ہیں.
وہیں مساجد سے لاتعلقی بھی مجھے افسردہ کردیتی ہے. دین بیزاری کی وبا تو میری روح کو بھی زخمی کئے جارہی ہے. اسلام سے نسل نو کی بیگانگی پر مرثیہ کرنے کو جی چاہتا ہے پر نگاہیں ہیں کہ خشک لبوں سے سسکیاں بلند تو ہورہی ہیں. لیکن بے آواز جن کا کوئی مول ہی نہیں، ایسے میں جب تہذیبی و سماجی زوال کا عروج ہو تو کون ہے جو اٹھ کر نوید سکوں سنائے، دل کرتا ہے.
کاش کوئی بتائے
اس المیہ کا مرثیہ کون کرے
کس نے اس غم پر سوچنا ہے
کب امت اس حال پر سوچنا شروع کرے گی
اور
اس غم و المیہ کی داستان سے کیسے فراغ ملے گا
اور کیسے ملے گئی اس فتنے سے نجات
ایسے میں اک تازہ ہوا کا جھونکا آیا .مکتبہ اسلامی کے خصوصی رکن جناب خاکی محمد عمر فلاحی صاحب کی طرف سے اک شہکار تخلیقی کاوش نظر نواز ہوئی .جس کے مصنف عزیز مکرم ابو یحیٰی محمد یونس ڈار ہیں مکتبہ کی طرف سے جس دیدہ زیب انداز سے کتاب کو ارسال کیا گیا تھا .میں نے نماز عشاء ادا کی اور اس کتاب کی ورق گردانی شروع کی یقین کریں کئی ایک جگہوں پر آنسو بہہ نکلے اور اوراق کا بوسہ لیتے ہوئے ان اوراق میں سما گئے.
میں نے اس کتاب کو وہ صدائے حق و صداقت جیسی صدا محسوس کیا جو کسی بھی صاحب ایمان کو آزردہ کرنے کے ساتھ ساتھ تسلی دینے کے لئے بلند ہو. مولائے کریم دونوں مصنف و مؤسس مکتب کو اپنی رحمتوں سے نوازے مکتبہ اسلامی بڑے وقت سے پورے جوش و جذبے کے ساتھ خدمت دین کا فریضہ انجام دے رہا ہے. قلیل مدت میں مکتب کی طرف سے علوم و معارف کے موتیوں سے آراستہ خوبصورت تخلیقات منظر عام پر آئیں جنہوں نے اہل علم و ادب کے طبقے کو اس سے خوب متعارف کرایا .
کوئی تحریر جلائے تو دهواں اٹهتا ہے
دل وہ بهیگا ہوا کاغذ ہے جو جلتا ہی نہیں
خیر کتاب کے بارے میں چند باتیں
نام کتاب فتنئہ ارتداد ۔ وادی کشمیر ا س کی لپیٹ میں
مصنف ابو یحیٰی محمد یونس ڈار
قیمت ۴۵۰
صفحات ۲۸۳
ارتداد اصل میں کسی چیز سے رجوع کرنا یا پھر جانے کو کہتے ہیں. عرف عام میں ارتداد کا مطلب یہ کہ اسلام کے بعد کفر کی اتباع کرنا اعتقادی طور پر یا شک کی پر قولی ہا فعلی ارتداد کے شکار لوگوں پر اسلامی حدود بیان کئی گئی ہیں. اسی طرح ان کے خسارے دنیا کے ساتھ آخرت میں عذاب کو بھی بیان کیا گیا ہے .
کتاب کا صفحہ نمبر ۳۵ فتنئہ ارتداد لفظ سے آراستہ ہے اور آگے آنے والے صفحات میں ارتداد کا حکم ارتداد کے شکار ہونے کی صورتیں، مرتد بنانے کی مختلف راہیں، ارتداد کا شکار ہونے کی مختلف جہات، نظریات، طریقہ کار،اسباب ، ان تمام امور پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے ۔ صفحہ ۱۲۹ پر عیسائیت کا ارتدادی جال کے نام سے ہے پھر ابتداء اسلام سے اس نظریہ کے بانیوں کی ریشہ دوانیوں کو بیان کیا گیا ہے. مختلف جنگیں جنہیں عرف عام میں صلیبی جنگیں کہا جاتا ہے. پر مختصر و مدلل گفتگو کی گئی ہے. پھر موجودہ دور میں ان کے کام کے بارے میں بتانے کے ساتھ ان کی وادی میں تبلیغی سرگرمیاں،، وادی میں ان کی سرگرمیوں کا مختصر خاکہ ۔
ان کی فتنہ سازیوں کی مختلف جہات جن میں حضرت عیسٰی علیہ السلام سے منسوب زیارت جسے اب بند کیا گیا ہے کا تعارف اور ایک ایک خبر جس میں بتایا گیا ہے کہ وادی میں بیس ہزار لوگ مرتد ہوچکے ہیں عیسائیت کےکام کے انداز کو بتایا گیا ہے اور طریقہ کار کو بھی جو یہ مختلف ممالک میں اختیار کرتے ہیں. ختم نبوت کے اہل ایمان کا ایک ایسا عقیدہ ہے. جس کی باپت ہر صاحب ایمان کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے، جس سے انکار یا جس میں کسی قسم کی غفلت نعمت ایمانی سے محرومی کا باعث ہے مصنف مذکور نے کتاب میں صفحہ ۱۵۹ پر بات کی ہے کہ قادیانیت کے بڑھتے ہوئے قدم اور ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سے شروع کیا ہے .
مذکورہ باب میں ختم نبوت کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو پہلے بیان کیا گیا ہے. قرآن و احادیث نبویہ کی روشنی میں اس مبارک و مقدس عقیدے کو بیان کرنے کے بعد ان نصوص شرعیہ کی ہلکی ہلکی تشریح و تخریج کو بھی بیان گیا کیا ہے. اس کے بعد قادیانیت کے موجد کی کتب سے اس کے باطل عقائد کو بھی صفحات پر جگہ دی گئی ہے. اور ان باطل عقائد و افکار پر اصل عقائد بھی بتائے گئے ہیں، پھر تحریک ختم نبوت کی کامیاب کوشش کو بیان کرنے کے ساتھ اس گروے کو غیر مسلم قرار دیے جانے کو بیان کیا گیا ہے. قادیانیت کی فتنہ سامانیوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے متبعین کی کفر و ضلالت کے لئے نرم گوشہ ہی نہیں بلکہ معاون ہونے پر مفصل گفتگو کی گئی ہے .
پھر اس فرقہ باطلہ کی وادی میں ریشہ دوانیوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ کرنے کی سبیل بتائی گئی ہے. صفحہ ۲۲۳ پر ایک اور فتنہ جسے گوہر شاہی فتنہ کہا جاتا ہے کا مختصر تعارفی خاکہ بیان کیا گیا ہے. ان کے عقائد باطلہ پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے .صفحہ ۲۳۲ پر ارتداد ہے شکار ہونے کے اسباب اور ایمان کی حفاظت کی تدابیر کے موضوع پر مصنف کی علمی و تحقیقی علوم سے آراستہ کاوش موجود ہے .جس میں جہاں ارتداد کے اسباب کو علل کو بیان کیا گیا ہے وہیں نعمت ایمانی کے تحفظ و بقاء کے لئے کوشش کو بیان کیا ہے. آخری صفحات پر نوجوانوں سے خطاب ہے اسے یوں بیان کیا گیا ہے .
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
نا امیدیوں کے اس موجودہ گرداب میں جب ایسی مہک آئے تو کیا کہنے کہ ابھی تک میری قوم کے پاکیزہ نوجوان ایسے موجود ہیں، جنہیں اپنے آج سے زیادہ امت کے کل کی فکر دامن گیر ہے. اور وہ اس فکر کو پروان چڑھانے کے طریقے تلاش کرنے کے لئے کتابوں کی مہک سے محظوظ ہورہے ہوتے ہیں. وہ ماحول میں پیدا ہونے والے ارتعاش سے بھی بیگانگی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ شاہین کی نظر رکھتے ہیں. اور اس پیدا شدہ ارتعاش کی ریشہ دوانیوں کو بیان کرنے کے لئے علمی میدان میں ڈٹ جاتے ہیں. وہ باطل نظریات و افکار کی سرکوبی کے لئے علوم و معارف سے وابستہ ہوکر علم و معارف کو خوب تقویت پہنچانے کی سعی مشکور اپنا مشغلہ بنا کر عند اللہ اجر کی امید رکھ کر کوشش کرتے ہیں.
مجھے مزکورہ کتاب سے کافی فائدہ ہوا امید ہے. اہل علم اس سے مستفید ہوں گے اور اپنی بقاء کی تدابیر کی راہ تلاش کریں گے. امت مسلمہ کی فلاح و کامرانی لئے تدابیر اور نعمت ایمان کی قدر و منزلت سمجھنے اور جاننے کے لئے ایک بہترین نسخہ ہے. جس سے نوجوان نسل استفادہ کرے گی تو یقین نور ایمان کی کرنیں ان کے قلوب کو تسکین بخشیں گئیں اور ان پر یہ بات آشکارا ہوجائے گئی کہ نعمت ایمان کتنی مبارک نعمت کے اور موجودہ زمانے کے فتنے کس قدر شدید ہیں.
تبصرہ لکھیے