کسی بھی واقعے کا الزام پاکستان پر ڈال دینا ہندوستان کی پرانی روایت ہے۔ پہلگام میں سیاحوں کا قتل ہو یا سمجھوتہ ایکسپریس جیسے دل دہلا دینے والے سانحات، بھارت نے ہمیشہ بغیر کسی ثبوت کے انگلی پاکستان پر اٹھائی۔
یہ وہی طریقۂ کار ہے جسے دنیا "فالس فلیگ آپریشن" کے نام سے جانتی ہے — ایسا ڈرامہ جس میں خود حملہ کیا جائے اور الزام دشمن پر ڈال دیا جائے تاکہ عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں موڑا جا سکے۔ سمجھوتہ ایکسپریس میں درجنوں معصوم پاکستانیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس میں بھارتی فوج کے کرنل پروہت اور ہندوتوا دہشت گرد ملوث تھے۔ اسی طرح سانحہ جعفر ایکسپریس ہو یا سیالکوٹ جیسے واقعات، ہمیں ہر بار بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کا سایہ دکھائی دیتا ہے۔ بھارتی میڈیا ہر بار بغیر تحقیق اور بغیر ثبوت کے پاکستان کو قصوروار ٹھہرا دیتا ہے۔
آج مجھے اس فلپائنی دوست کی بات یاد آ رہی ہے جو نائن الیون کے دن بولا تھا: "چوہدری صاحب، یاد رکھیں، یہ مسلمانوں پر بڑا عذاب آنے والا ہے۔" حافظ سعید نے بھی ایک بار کہا تھا: "دو ناکام عمارتوں کو گرا کر اگر پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کر لیا جائے، تو یہ سودا مہنگا نہیں!" سارے مکاروں کا ایک ہی طریقہ ہے — پہلے خود پر حملہ کراؤ، اور پھر دشمن پر ٹوٹ پڑو۔
آپ کو یاد ہوگا، امریکی صدر نے کہا تھا: "یا تو ہمارے ساتھ ہو جاؤ، یا تباہی کے لیے تیار ہو جاؤ۔"
آج بھی وہی منظرنامہ ہے۔ اسرائیل نے حالیہ حملہ خود کیا، الزام حماس پر لگا دیا، اور پورے غزہ کو تباہی میں جھونک دیا۔ امریکی نائب صدر کی موجودگی میں جو تماشا ہوا، اس کی جھلک ہمیں جنوبی ایشیا میں بھارت کے رویے میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ بھارت بھی اسی سکرپٹ پر عمل کرتے ہوئے آزاد کشمیر پر کوئی نیا حملہ نہ کر دے، خاص طور پر جب دنیا کی توجہ کسی اور طرف ہو۔پاکستان کو موجودہ صورتحال میں چائنہ کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر روابط بڑھانے چاہیے۔سپہ سالار کو اندرون ملک کی سب سے بڑی پارٹی سے اب اپنا ہاتھ ہلا رکھنا چاہیے اور جس طرح عمران خان نے کہا کہ فوج ہمارے اور ہم فوج کے ہیں اس کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہیے.
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت پہلے ہی پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے — چاہے وہ کینیڈا میں سکھ رہنماؤں کے قتل کی خبریں ہوں یا بلوچ علیحدگی پسندوں کی ٹارگٹ کلنگ۔ یہ سب وہ حربے ہیں جن کے ذریعے بھارت عالمی سطح پر پاکستان کو دباؤ میں لانا چاہتا ہے، اور خود کو ایک مظلوم ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے۔ بھارت کی "نام نہاد ترقی" کا پردہ چاک ہو رہا ہے۔ ہندوتوا نظریے کے تحت وہ اپنی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کو دبانے میں لگا ہوا ہے۔ داخلی طور پر ان کی حالت نازک ہے، اس لیے وہ خارجی دشمن تراش کر اپنے عوام کو متحد رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ہمیں اس وقت نہایت سنجیدگی اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔ یہ وقت سیاست، ضد اور انا کا نہیں، بلکہ حکمت، وحدت اور عمل کا ہے۔ ہم اپنے محبوب لیڈروں اور سپہ سالاروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایک قدم پیچھے ہٹ کر پاکستان کو دس قدم آگے لے جانے میں کردار ادا کریں۔ اگر ممکن ہو تو وہ حرمین شریفین جا کر شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ بیٹھیں، اور ویسا ہی حوصلہ مندانہ فیصلہ کریں جیسے کبھی مجاہدین نے حرم میں بیٹھ کر کیا تھا۔ پاکستان اُمتِ مسلمہ کا قلعہ تھا، ہے اور رہے گا۔ لیکن اس قلعے کی دیواروں میں دراڑیں ڈالنے والوں کو پہچاننا ہوگا۔ فلسطینی آج ہم سے پوچھتے ہیں: ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے اقبال کی تعلیمات کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ قائداعظم کے اصولوں کو کیوں تڑپایا؟ یہ سب سوال ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔
ظالمو! کیا تمہیں مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی نظر نہیں آتی؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہودی وہاں دندناتے پھرتے ہیں، اور ہم اپنے ہی ملک میں ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں؟ خدا کے لیے ہوش کے ناخن لو، ان چھوٹے چھوٹے زلزلوں کو خدا کا انتباہ سمجھو۔ کیونکہ کل کو اگر بڑا زلزلہ آیا، تو اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں، ہم خود ہوں گے۔ یہی وقت ہے کہ ہم ضد کو موقف کی نرمی میں بدلیں، ایک دوسرے کو برداشت کریں، اور اپنی ذات کو پیچھے رکھ کر پاکستان کو مقدم سمجھیں۔ کیونکہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا، تو دشمن کی یہ چالیں ہمیں اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیں گی۔
تبصرہ لکھیے