جب سے انسان نے سوچنا شروع کیا توسائنس نے جہالت کی تاریکی میں روشنی بکھیرنی شروع کی ،ستاروں کی راہیں متعین کیں، زندگی کے کوڈ کو سمجھا، اور ایٹم کو چیرتک ڈالا لیکن جیسے جیسے علم کی سرحدیں پھیلتی گئیں، ویسے ویسے نامعلوم کا دائرہ بھی وسیع ہوتا گیا۔ ہر حل شدہ معمہ کے بعد، مزید گہرے سوالات سامنے آتے ہیں ، ایسے سوالات جنہیں سائنس پوری طرح بیان تو کر سکتی ہے، مگر مکمل طور پر سمجھا نہیں سکتی۔ گویا جیسے جیسے جانتے گئے ویسے ویسے یہ بھی جانتے گئے کہ کتنا نہیں جانتے۔
یہاں ہمارا مقصد اْن بنیادی رازوں اور ان خاموش کناروں کو کو تلاش کرتا ہے جہاں سائنسی تحقیق رک جاتی ہے اور ایک عظیم الشّان مگر پوشیدہ حقیقت کبریٰ کی سرگوشی سنائی دینے لگتی ہے۔ آئیں اور دیکھیں:
۱۔ شعور کا معمہ
مادہ، جب دماغ میں ترتیب پاتا ہے، تو کیونکر خود آگاہی پیدا کرتا ہے؟کوئی مساوات، کوئی ماڈل، اور کوئی تجربہ اب تک یہ وضاحت نہیں کر سکا کہ خوشی، غم یا حیرت کا احساس کیسے پیدا ہوتا ہے۔شعور اب بھی ایک خاموش، ناقابلِ وضاحت معجزہ ہے ، ایک حقیقت جو براہِ راست جانی جاتی ہے، مگر سائنسی طور پر سمجھائی نہیں جا سکی۔
کیا ذہن محض نیورونز کا فعل ہے، یا کسی گہرے وجودی افق کی کھڑکی ہے؟
۲۔ وجود کا راز: آخر کچھ کیوں ہے؟
سائنس بگ بینگ کے بعد کے واقعات کی درست ماڈلنگ کر سکتی ہے، مگر اصل سوال برقرار ہے: کائنات کی ابتدا کیوں ہوئی؟کیا وقت، خلا اور توانائی کے ظہور سے پہلے کچھ تھا؟ اگر تھا تو کیا تھا؟کلی عدم سے وجود کیسے ابھرا؟ کیا یہ اتفاق تھا، مجبوری تھی یا کسی ارادے کی جھلک؟
۳۔ چھپی ہوئی کائنات: ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی Dark Matter and Dark Energy
کائنات کا تقریباً ۵۹ فیصد حصہ نظر سے پوشیدہ ہے۔ڈارک میٹر کہکشاؤں کو جوڑے رکھتی ہے، اور ڈارک انرجی انہیں ایک دوسرے سے دور دھکیلتی ہے۔ہم ان کے اثرات دیکھ سکتے ہیں، مگر ان کی حقیقت اب تک پردہ راز میں ہے۔کیا دکھائی دینے والی کائنات محض ایک چھوٹی سی پرت ہے کسی عظیم تر پوشیدہ وجود کی؟
ڈارک میٹر ایک غیر مرئی مادہ ہے جو عام مادے کی طرح کششِ ثقل کا اثر ڈالتا ہے، کہکشاؤں اور کائناتی ڈھانچوں کو تھامے رکھتا ہے۔ یہ خلا میں اکٹھا ہوتا ہے، کہکشاؤں کے گرد گھنے ہالے بناتا ہے، مگر روشنی کو جذب یا خارج نہیں کرتا۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ نامعلوم ذرات پر مشتمل ہے جو زیادہ تر کششِ ثقل کے ذریعے تعامل کرتے ہیں۔اس کے برعکس ، ڈارک انرجی ایک یونیفارم اور پراسرار قوت ہے جو پوری کائنات میں برابر پھیلی ہوئی ہے، اور کائنات کی توسیع کو تیز کر رہی ہے۔ یہ خلا کے تانے بانے میں پیوست ایک اینٹی گریویٹی دباؤ کی مانند عمل کرتی ہے، اور کائنات کے پھیلنے کے باوجود اپنی کثافت برقرار رکھتی ہے یعنی اس کی مقدار میں نامعلوم وجہ سے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جہاں ڈارک میٹر ساختوں کو ایک دوسرے کے قریب کھینچتا ہے، وہیں ڈارک انرجی انہیں ایک دوسرے سے دور دھکیلتی ہے — یوں دونوں قوتیں ظاہر کرتی ہیں کہ کائنات کی حکمرانی محض نظر آنے والے مادے سے کہیں زیادہ گہری اور نادیدہ قوتوں کے تابع ہے۔
۴۔ مادہ بمقابلہ ضدِ مادہ کا معمہmatter and antimatter mystery
بگ بینگ نے برابر مقدار میں مادہ اور ضدِ مادہ پیدا کرنا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مادہ غالب آیا — اور ہم موجود ہیں۔اس کائناتی عدم توازن کی کوئی حتمی سائنسی توجیہہ موجود نہیں۔
کائنات نے "کچھ" کو "کچھ نہ ہونے" پر کیوں ترجیح دی؟
مادہ وہ ہر چیز ہے جس کا کوئی وزن (کمیت) اور جگہ (حجم) ہوتا ہے۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں ، زمین، آسمان، پانی، انسان، جانور، حتیٰ کہ ستارے اور کہکشائیں سب مادے سے بنے ہیں۔مادہ بنیادی طور پر چھوٹے چھوٹے ذرات (particles) سے مل کر بنا ہے، جیسے:
الیکٹران (Electron) پروٹان (Proton) نیوٹران (Neutron) یہ بنیادی ذرات آپس میں جڑ کر ایٹم (Atom) بناتے ہیں، اور ایٹم مل کر چیزوں کی شکل و صورت اور خواص بناتے ہیں۔سادہ الفاظ میں:
"مادہ ہر وہ چیز ہے جسے ہم چھو سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں یا وزن کر سکتے ہیں۔"
اینٹی میٹر عام مادے کا عکس (آئینہ جیسا جڑواں) ہے۔
ہر ذرہ (جیسے الیکٹران یا پروٹان) کا ایک الٹ ساتھی ہوتا ہے — جس کا وزن تو برابر ہوتا ہے مگر برقی چارج الٹا ہوتا ہے۔
جب مادہ اور اینٹی میٹر آپس میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو فنا کر کے خالص توانائی پیدا کرتے ہیں۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ بگ بینگ کے وقت مادہ اور اینٹی میٹر برابر مقدار میں پیدا ہوئے تھے، مگر کسی وجہ سے مادہ تھوڑا زیادہ رہ گیا، اسی لیے آج ستارے، سیارے اور ہم سب موجود ہیں۔آج اینٹی میٹر کائنات میں بہت کم پایا جاتا ہے، لیکن خلاء میں اور سائنسی تجربات میں اب بھی تھوڑی مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔
اینٹی میٹر کو سمجھنا سائنسدانوں کو کائنات کے راز جاننے میں مدد دیتا ہے۔
۵۔ وقت کی سمت اور اس کا فریب
وقت ہمارے لیے ایک سمت میں بہتا ہے ماضی سے مستقبل کی طرف، مگر طبیعی قوانین عموماً وقت کی ہم آہنگی رکھتے ہیں: وہ آگے اور پیچھے یکساں کام کرتے ہیں، اینٹروپی وقت کو "ایک سمت" دیتی ہے، مگر خود وقت کی موجودگی کا راز ابھی تک حل طلب ہے۔کیا وقت کائنات کی بنیادی حقیقت ہے، یا محض شعور کا پیدا کردہ تاثر؟
۶۔ دوسرے جہانوں کا امکان: ملٹی ورس
کچھ نظریات یہ تجویز کرتے ہیں کہ ہماری کائنات لاتعداد دوسری کائناتوں میں سے ایک ہے۔
جہاں طبیعی قوانین اور بنیادی عوامل مختلف ہو سکتے ہیں۔لیکن براہِ راست کوئی ثبوت اب تک دستیاب نہیں۔
کیا مشاہداتی کائنات ایک بے کنار سمندر میں محض ایک چھوٹا سا بلبلہ ہے؟
۷۔ زندگی کی ابتدا اور اس کی حقیقت
زمین پر غیر جاندار مادے سے زندگی کا ظہور اب تک ایک راز ہے۔کیمیائی اجزاء نے خود کو زندہ، خود افزا وجود میں کیسے بدلا ، کوئی تجربہ اسے مکمل طور پر دہرا نہیں سکا۔
کیا زندگی کائناتی حادثہ ہے، یا مادے میں بسا کوئی مخفی ارادہ؟
۸۔ نامکمل تصویر: کوانٹم گریویٹی کا مسئلہ
کوانٹم میکینکس چھوٹے ذرات پر حکومت کرتی ہے، اور عمومی اضافیت بڑے اجسام پر۔
مگر دونوں نظریے انتہائی حالات میں جیسے بلیک ہولز یا بگ بینگ ایک دوسرے سے متصادم ہو جاتے ہیں۔
کیا کوئی گہرا، غیر دریافت شدہ اصول ہے جو چھوٹے اور بڑے دنیاؤں کو جوڑتا ہے؟
۹۔ طبیعی قوانین کا باریک ترتیبی نظام
کائنات کے قوانین حیران کن حد تک درست ہیں۔ذرا سا فرق ستاروں کی تخلیق کو ناممکن بنا دیتا، زندگی کو ناممکن بنا دیتا، حتیٰ کہ سوچ کو بھی۔تو سوال پیدا ہوتا ہے:یہ قوانین ایسے کیوں ہیں؟ اور کیوں یہ زندگی کے لیے اتنے موزوں ہیں؟
۱۰۔ حقیقت کی بنیادی نوعیت
کیا حقیقت کی بنیاد:
مادہ ہے؟
توانائی ہے؟
معلومات (Information) ہے؟
یا شعور بذاتِ خود ہے؟
ہر نظریہ کسی گہرے، پوشیدہ جوہر کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اب تک پیمائش کی حدود سے باہر ہے۔
کیا ہم کسی عظیم تر ضابطے، کسی لطیف تر رمز میں جی رہے ہیں؟
آگے کا دروازہ
سائنس نے ہمیں علم، حیرت، اور طاقت عطا کی ہے مگر وہ حتمی سوالات کائنات کا مقصد، معنی، اس کا اولین سبب وغیرہ کا مکمل جواب نہیں دے سکی۔
جہاں سائنس رکتی ہے، وہاں راز کی سرگوشی شروع ہوتی ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں مابعدالطبیعات، فلسفہ، اور روحانی بصیرت قدم رکھتی ہیں ، سائنس کی مخالفت میں نہیں، بلکہ اس کی تکمیل کے لیے۔یہ ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ انسانی فہم صرف اس تک محدود نہیں جو ناپا جا سکتا ہے۔نامعلوم کی سرگوشی آج بھی ہمیں بلا رہی ہے ،نقشے سے آگے، اْس بحرِ اسرار کی طرف جہاں سائنس کی حدود تحلیل ہو جاتی ہیں اور اصل تلاش شروع ہوتی ہے۔
گویا۔۔۔۔۔"جہاں سائنس رکتی ہے، وہاں حیرت کا آغاز ہوتا ہے — اور شاید یہی حیرت ہمیں آخرکار ہمارے اصل گھر کی طرف لے جائے گی۔"
۔۔
"ہم تمہیں انفس و ٓفاق میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے"
قرآن : سورۃ فصلت 53
"وہی ہے جس نے سات آسمان تہ بہ تہ پیدا کیے۔ تم رحمان کی تخلیق میں کوئی بے ربطی نہ دیکھو گے۔
تو ذرا نظر دوڑا کر دیکھو، کیا تمہیں کوئی شگاف دکھائی دیتا ہے؟ (۳)
پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو، (ہر بار) نگاہ تھک کر ناکام لوٹے گی۔ (۴)"
قرآن؛ سورۃ الملک، 3،4
تبصرہ لکھیے