ہوم << محنت: خاموش عظمت کی آواز - نعیم اللہ باجوہ

محنت: خاموش عظمت کی آواز - نعیم اللہ باجوہ

یکم مئی۔ ایک تاریخ نہیں، ایک آہ ہے۔ ایک دن نہیں، ایک صدیاں پرانی چیخ ہے جو وقت کے کان میں سرگوشی کرتی ہے: "میں ہوں، مگر کوئی نہیں دیکھتا۔"

یہ دن صرف مزدور کا دن نہیں، یہ انسان کی ابتدا کا دن ہے — وہ لمحہ جب پہلی سانس نے زمین پر اترتے ہی آسمان کی وسعتوں کو چھونے کا خواب دیکھا، مگر راستہ محنت کے کانٹوں سے بھرا ہوا تھا۔

انسان جب آنکھ کھولتا ہے تو اسے ماں کی گود سے زیادہ بھوک کی آنکھ دیکھتی ہے۔ ہر ضرورت، ایک بے نام مطالبہ بن کر اس کے جسم پر برسنے لگتی ہے۔ وہ ہنستا ہے، تو کہیں کوئی مزدور پسینہ بہا رہا ہوتا ہے۔ وہ سوتا ہے، تو کہیں کوئی ماں سلائی مشین پر جھکی نیند سی رہی ہوتی ہے۔

محنت — یہ وہ بیڑی ہے جسے پہن کر انسان آزادی کے خواب دیکھتا ہے، اور وہ زنجیر ہے جو جکڑ کر بھی پرواز کا حوصلہ دیتی ہے۔

کبھی سوچا ہے؟
یکم مئی دراصل ایک آنکھ ہے — جس میں صدیوں کی نمی جمع ہے۔ ایک ہتھیلی ہے — جو آسمان کی طرف اٹھی ہے، مگر دعا کے لیے نہیں؛ بس اس امید کے ساتھ کہ شاید کوئی آسمان بھی اس درد کو سمجھے جو زمین روز سہتی ہے۔

یہ دن کسی قرارداد کا عنوان نہیں؛ یہ مزدور کی روح کا ماتم ہے — ایک ایسی روح جو صدیوں سے مصلوب ہو رہی ہے، مگر آج بھی ہنستی ہے کہ کل کے لیے بچوں کا دودھ لینا ہے۔

محنت صرف وہ نہیں جو بھٹے پر اینٹ رکھتی ہے، یا فیکٹری میں مشین چلاتی ہے۔
محنت وہ ہے جو بیمار ماں کی آنکھوں میں چپکے سے آنسو بن کر ٹھہرتی ہے،
وہ ہے جو استاد کی زبان سے نکل کر بچوں کے دل میں خواب بن کر اترتی ہے،
وہ ہے جو کسان کے ہاتھ میں بیج کی صورت دفن ہوتی ہے، تاکہ کل کسی کے چولہے میں روشنی ہو۔

یکم مئی ایک لمحہ ہے — جو ہر اس دل میں دھڑکتا ہے جو خاموشی سے سب کچھ سہتا ہے، مگر شکوہ نہیں کرتا۔
ایک خاکروب کی بیٹی، جو روز اسکول کے باہر جھاڑو دیتی ہے، مگر اندر بیٹھنے کا خواب اس کی آنکھ میں ہی مٹ جاتا ہے — جیسے علم صرف اُن کے لیے ہو جن کے ہاتھ نرم اور لباس صاف ہوں۔
ایک نرس کی مسکراہٹ، جو ہر روز موت کے سائے میں زندگی کا چراغ جلاتی ہے، مگر اپنی ماں کی تیمارداری کو ترس جاتی ہے۔

محنت کش وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنی اصل صورت دیکھنے سے ڈرتے ہیں۔
ہم نے محنت کو سلوگن، پوسٹر، اور مارچ کا پہناوا تو دیا،
مگر اسے اپنے احساس کی لباس میں شامل نہ کیا۔
ہم نے اسے منایا، پر نہ اپنایا۔
ہم نے تالیاں بجائیں، مگر اس کی خاموشی کی چیخیں نہ سن سکیں۔

یاد رکھو —
محنت صرف ایک جسم کی حرکت نہیں، یہ روح کی عبادت ہے۔
یہ وہ سجدہ ہے جو وقت کی پیشانی پر رقم ہوتا ہے،
اور جو مزدور ہے، وہ فقط قوتِ بازو نہیں،
وہ ضمیر کا مجاور ہے۔
وہ اس دنیا کا ولی ہے — جو روز اپنی خواہشوں کو قربان کر کے دنیا کو زندہ رکھتا ہے۔
آج، جب ہم یہ دن منائیں،
تو بس ایک لمحہ خاموش ہو کر سوچیں —
کہ ہمارے آرام کی نیند، کسی اور کی جاگی ہوئی آنکھوں کا تحفہ ہے۔
ہمارے گرم کپڑے، کسی سرد ہاتھ کی سلگتی انگلیوں کا کرب ہیں۔
ہمارے مسکراتے بچے، کسی ماں کے کٹے ہوئے خوابوں کی قیمت پر پلتے ہیں۔

یکم مئی، ایک دن نہیں —
ایک آئینہ ہے،
ایک اذان ہے،
ایک بین ہے — جو محنت کی گمنام قبروں پر ہر لمحہ بج رہا ہے۔

اور اگر تم سن سکتے ہو —
تو جان لو،
محنت… خاموش عظمت کی وہ آواز ہے،
جسے صرف دل کی گہرائی میں اتر کر سنا جا سکتا ہے۔