ہانگ جو - ایسا بھی کوئی کرتا ہے کیا؟
جہاز مقررہ وقت سے پندرہ منٹ پہلے ہانگ جو کے ہوائی اڈے پر اتر چکا تھا۔ چین آنے سے پہلے ہی میں نے اپنے موبائل میں وی چیٹ ڈاؤنلوڈ کر لیا تھا اور ایک پاکستانی بھائی امجد بھائی (فرضی نام) سے رابطہ تھا جو یونیورسٹی میں میرے ہی کورس میں ایک سال پہلے داخلہ لے چکے تھے۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا تھا،
"آپ بے فکر رہیں، جب آپ لینڈ کریں گے تو میں ایئرپورٹ پر موجود ہوں گا۔ اگر نہ آ سکا تو بتا دوں گا، آپ بس پکڑ کر شہر کے بس اسٹاپ پر آجائیں، میں وہاں ملوں گا۔"
جہاز سے باہر نکل کر میں نے ایئرپورٹ کے وائی فائی سے کنیکٹ ہونے کی کوشش کی، مگر چینی سم کارڈ کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ خوش قسمتی سے ایک ایئرپورٹ اسٹاف نے مدد کر کے کنیکشن کروا دیا۔ امجد بھائی کو میسج کیا کہ میں پہنچ گیا ہوں، لیکن کوئی جواب نہ ملا۔ بار بار میسجز کیے، وی چیٹ پر کال بھی کی، مگر خاموشی ہی ملی۔
پریشانی بڑھنے لگی، دل میں سوالات اٹھنے لگے کہ اگر رات ہو گئی تو کیا کروں گا؟ اللہ کا نام لے کر ٹیکسی لینے کا فیصلہ کیا۔ ایڈمیشن لیٹر پر یونیورسٹی کا پتہ دیکھایا اور ٹیکسی ڈرائیور نے سر ہلا کر سامان رکھوایا۔ راستے میں شیشے سے جھانک کر سڑکوں کی صفائی، خوبصورت عمارتیں اور چمکتی روشنیوں کو دیکھتا رہا، جو میرے تصورات سے کہیں زیادہ تھیں۔ تقریباً دو گھنٹے بعد ہم یونیورسٹی کے گیٹ پر پہنچے۔
یونیورسٹی کے گیٹ پر سنّاٹا تھا، سیکیورٹی گارڈ نے روک کر چینی زبان میں کچھ کہا جو میری سمجھ سے باہر تھا۔ ایڈمیشن لیٹر دکھایا تو اس نے بس اتنا کہا، " closed"
مایوسی اور تھکن کے عالم میں کھڑا تھا کہ ایک لمبا تڑنگا افریقی نوجوان میری طرف بڑھا اور پوچھا:
"Are you Muslim?"
میں نے فوراً کہا، "Yes!"
اس نے مسکرا کر کہا، "میرا نام خالد ہے، میں صومالیہ سے ہوں۔"
میں نے اپنی صورتحال بتائی، تو کہنے لگا، "پریشان نہ ہو بھائی، میرے ساتھ آؤ۔"
وہ مجھے ایک قریبی چھوٹے سے ہوٹل لے گیا، جہاں رات گزارنے کا انتظام کیا۔ جاتے ہوئے کہنے لگا،
"صبح سات بجے تیار رہنا، کل عید الاضحی ہے، نماز کے بعد میں تمہیں انٹرنیشنل آفس لے جاؤں گا۔"
اگلی صبح خالد بھائی مقررہ وقت سے پندرہ بیس منٹ پہلے آ گئے۔ مجھے اپنے ساتھ لے کر نماز والی جگہ پر گئے۔ وضو گھر سے کر کے آنا تھا کیونکہ وہاں کسی قسم کا وضو کا انتظام نہ تھا۔ تمام نمازی یونیورسٹی کے طلبہ تھے اور امام صاحب یمن سے تھے۔
نماز عید ادا کرنے کے بعد طلبہ ایک دوسرے سے مل رہے تھے کہ اچانک شور مچ گیا۔ پتہ چلا کہ پولیس کی گاڑیاں آ گئی ہیں۔ سب طلبہ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ اصل وجہ یہ تھی کہ چین میں کسی بھی عوامی مقام پر عبادت کی اجازت نہیں ہے۔ کسی مقامی شخص نے پولیس کو اطلاع دی کہ یہاں کچھ مشکوک سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔
یونیورسٹی سے عید کے لیے چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے طلبہ نے فیصلہ کیا تھا کہ یونیورسٹی کے گیٹ کے پار کھلی جگہ پر نماز عید ادا کریں گے۔ کلاسز مس کرنے پر یونیورسٹی سخت ایکشن لیتی تھی، اس لیے طلبہ مسجد نہیں جا سکتے تھے جو یونیورسٹی سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تھی۔ اکثر طلبہ جمعے کی نماز بھی نہیں پڑھ پاتے تھے، اور نماز کے لیے صرف اپنے کمروں تک محدود تھے۔
میں حیرت میں ڈوبا سوچ رہا تھا، "یا للعجب، کیسا ملک ہے اور کیسے مزے مزے کے واقعات ہو رہے ہیں!"
انٹرنیشنل آفس پہنچا، جہاں ایک ٹیچر، مس سوزی (Ms. Suzy)، نے میرا پاسپورٹ لیا اور رجسٹریشن کے بعد کہا:
"جاؤ، میڈیکل کروا کے آؤ۔"
پوچھنے پر بتایا کہ 193 نمبر بس پکڑنی ہے، آخری اسٹاپ پر اتر کر کسی بھی ٹیکسی کو یہ ایڈریس دکھانا ہے جو میڈیکل سینٹر پہنچا دے گا۔
خوشی خوشی وہ پرچی پکڑی اور بس اسٹاپ پر جا کھڑا ہوا۔ بس آتے ہی دوسروں کی دیکھا دیکھی سوار ہو گیا، دروازے کے ساتھ موجود ڈبے میں دو یوان کے سکے ڈالے اور ایک سیٹ پر بیٹھ گیا۔ باہر کے خوبصورت مناظر دیکھتے ہوئے ابھی دو ہی اسٹاپ گزرے تھے کہ بس رک گئی اور سب لوگ اترنے لگے۔
حیرت ہوئی کہ اتنی جلدی کیسے پہنچ گئے؟ دل میں سوچا، "اگر اتنا ہی قریب تھا تو پیدل ہی آ جاتا!" (نیا نیا چین آیا تھا، تو ایک یوان خرچ کرتے وقت دل میں پاکستانی سولہ روپے کا خیال آتا تھا۔)
وہاں کچھ افریقی طلبہ کھڑے تھے۔ ان کے پاس جا کر پرچی دکھائی اور پوچھا کہ میڈیکل سینٹر کہاں ہے۔ وہ مسکرا کر کہنے لگے،
"کیا تم نئے آئے ہو؟"
"جی ہاں!"
ہنستے ہوئے بولے،
"تم الٹی بس میں چڑھ گئے ہو۔ شہر کی طرف جانے والی 193 نمبر بس پکڑنی تھی، یہ تو شہر سے واپس آنے والی ہے!"
لو بھلا، یہ تو مس سوزی نے بتایا ہی نہیں تھا!
خیر، سڑک پار کر کے واپس شہر جانے والی 193 نمبر بس پکڑی، میڈیکل سینٹر پہنچا اور میڈیکل مکمل کروایا۔
دل میں سوچ رہا تھا، "بھلا بتاؤ، ایسا بھی کوئی کرتا ہے کیا؟"
تبصرہ لکھیے