انسان، یہ عظیم تخلیق، جسے خالقِ کائنات نے اپنے دستِ قدرت سے تخلیق کیا۔ وہ آنکھیں عطا کیں جو کائنات کے رنگ دیکھ سکتی ہیں، وہ کان دیے جو حق و باطل کی تمیز سن سکتے ہیں، اور وہ دل و دماغ بخشے جو فکر کی گہرائیوں میں اتر سکتے ہیں۔ مگر کیا افسوس کا مقام نہیں کہ یہی آنکھیں، اگر حق کی نشانیاں دیکھنے سے قاصر رہیں؟ یہی کان اگر سچ کی آواز کو نہ پہچان پائیں؟ اور یہی عقل اگر یہ سوال نہ کر سکے کہ میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں اور کہاں جانا ہے؟ تو کیا ہم واقعی انسان کہلانے کے لائق ہیں؟
ہم نے اپنی زندگی کو محض مشینی حرکات و سکنات کا سلسلہ بنا دیا ہے۔ صبح جاگنا، دوڑنا، کمانا، کھانا، سونا — بس۔ نہ کبھی لمحہ بھر کے لیے رُک کر یہ سوچا کہ جس وجود کو ہم نے صرف دنیاوی فائدے کے لیے استعمال کرنا سیکھ لیا ہے، وہ آخر ہمیں عطا کیوں کیا گیا؟ وہ روح جو ہمارے جسم میں رکھی گئی، وہ محض ایک سانس لینے کی مشین ہے یا کسی بلند تر مقصد کی امین ہے؟
جب آنکھ حقیقت کی روشنی سے محروم ہو جائے، تو وہ صرف منظر دیکھتی ہے، معنی نہیں۔ جب کان صداقت کی صدا سننے سے انکار کر دیں، تو وہ صرف شور سن کر خاموش ہو جاتے ہیں، سبق نہیں لیتے۔ اور جب دل و دماغ محض دنیا کی چالاکیوں، خواہشات اور مفادات میں الجھ جائیں، تو پھر وہ کسی جانور سے بھی کمتر ہو جاتے ہیں، کیونکہ ایک جانور تو اپنے وجود کے مقصد سے واقف ہوتا ہے — وہ اپنی جبلت کے تحت چلتا ہے — مگر انسان؟ وہ اپنے خالق کی طرف سے دی گئی فطرت کو بھی دفن کر دیتا ہے، اور خود کو خودی میں گم کر کے بھول جاتا ہے کہ وہ "عبد" ہے، مالک نہیں۔
حیرت ہے کہ ہم جدید علوم سیکھ کر چاند پر جا پہنچے، سمندروں کی تہہ ناپ لی، پہاڑوں کے سینے چیر دیے، مگر اپنے دل کے اندر جھانکنے کی فرصت نہ ملی۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دنیا کے عجائبات دیکھے، مگر کبھی قبر کی تاریکی کا تصور نہ کیا۔ ہم نے کانوں سے ہر فالتو بات سن لی، مگر کبھی قرآن کا پیغام نہ سنا۔ ہم نے ذہن کو ہر مسئلے کی گرہیں کھولنے میں لگا دیا، مگر یہ نہ سوچا کہ ہماری زندگی کا اصل سوال کیا ہے؟
اے انسان! تُو صرف گوشت پوست کا مجسمہ نہیں۔ تُو ایک روح ہے، ایک امانت ہے، ایک مقصد کا حامل ہے۔ تیری تخلیق محض کھانے پینے، کمانے یا دنیا کی رنگینیوں میں کھو جانے کے لیے نہیں ہوئی۔ تُو اُس ذات کا مظہر ہے جس نے تجھے اشرف المخلوقات بنایا۔ تو پھر خود کو جانوروں کی سطح پر کیوں گرا رہا ہے؟ ایک بیل بھی صبح سے شام تک مشقت کرتا ہے، اور رات کو سو جاتا ہے — اگر تیرا طرزِ زندگی بھی وہی ہو، تو فرق کیا رہ گیا؟
خدارا! رک جا، سوچ! ایک لمحہ سہی، اپنی ذات کا جائزہ لے۔ یہ آنکھیں، یہ کان، یہ دل و دماغ — سب ایک مقصد کے تحت دیے گئے ہیں۔ اگر ان سے حق کی طرف رہنمائی نہ ہو، تو یہ نعمتیں نہیں، بوجھ بن جاتی ہیں۔ اور وہ بوجھ روزِ محشر ہمیں لے ڈوبے گا۔
زندگی کی غایت یہی ہے کہ ہم اپنے وجود کو پہچانیں، اپنے رب کو یاد کریں، اپنی فطرت کو جگائیں، اور اس کائنات میں اپنا اصل مقام حاصل کریں۔ یہی شعور، انسانیت کی اصل پہچان ہے۔ اور اگر یہ شعور نہ ہو، تو پھر انسان صرف ایک بولتی ہوئی مخلوق ہے — بےروح، بےمقصد، اور بےخبر۔
تبصرہ لکھیے