حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے عافیت مانگو۔ میں کچھ دن ٹھہرا رہا اور پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااور میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: اے عباس! اے رسول اللہ کے چچا! اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت میں عافیت مانگا کرو۔(ترمذی)
”عافیت “ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں:سلامتی، تحفظ،بچاؤ، آرام، سکون۔اس کے علاوہ ”عافیت“کامعنی و مفہوم نیکی،خیریت اور بھلائی میں بھی آتاہے۔
اصل مدعا کی طرف آنے سے پہلے عافیت کے بارے میں تھوڑا سا لکھنا اس لیے مقصود تھا کہ موجودہ پاکستان بھارت بڑھتی جنگی کشیدگی میں ایک مسلمان کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا کرے ویسے تو عافیت کی دعا ہر وقت ہر لمحہ اور ہر دعا میں شامل ہونی چاہیے مگر موجودہ جنگی حالات میں تو اللہ تعالیٰ سے عافیت کا مانگنا نہایت ضروری ہے کیوں کہ جنگیں مذاق نہیں ہوتی ہیں جہاں اس میں معیشت تباہ وبرباد ہوجاتی ہے وہاں ہی بے شمار بچے یتیم، بے شمار عورتیں بیوہ اور بے شمار لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں اور جہاں پہلے ہی معاشی و معاشرتی بے شمار مسائل ہوں وہاں تو کسی قسم کی کوئی بھی جنگ ایسی تباہی کا موجب ہے جس کے اثرات سالوں برداشت کرنے پڑتے ہیں اس لیے اس موقع پربہ حیثیت ایک مسلمان کے یہ ہمارے لیے لازم و ملزوم ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت زیادہ سے زیادہ مانگیں۔
مگر یہاں میں افسوس کے ساتھ لکھوں گا کہ بہ حیثیت مسلمان ہم عافیت مانگنے کے بجائے اس ڈگر پر چلے ہوئے ہیں جو ہمار اوطیرہ ہے اور نہ ہی ہمارا طریقہ ہے۔ ایک عجیب قسم کی جگت بازی اور ایک عجیب قسم کا غیر سنجیدہ رویہ اس قوم نے اپنا یا ہوا ہے۔دو دن پہلے میں سوشل میڈیا پر ایک کلپ دیکھ رہا تھا جس میں تین چار نوجوان ان جنگی حالات پر ایسے جگت بازی کررہے تھے کہ جیسے یہ کوئی مذاق ہے یا جگت بازی او رمذاق اڑانے کی کوئی وجہ یا عنوان ہے۔ کچھ فالورز اور واچ ٹائم بڑھانے کے لیے یہ اس منڈلاتی آفت پر جگت بازی کرکے پتا نہیں کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر بات حقیقت میں یہی ہے کہ جب مقصد حیات پتا نہ ہو مقصد حیات فوت ہوچکا ہوتو پھر اسی طرح کی لا یعنی اور بے مقصدیت زندگی کی روٹین میں شامل ہوجاتی ہے، یہ بے مقصدیت اور لا معنی روٹین کچھ ایسے رگ و پے میں شامل ہوجاتی ہے کہ ایسے ایسے اقدام سرزد ہوجاتے ہیں جو ایک فرد نہیں پوری امت کے لیے نقصان کا باعث ہوتے ہیں اور جو ایسے اقدام سرزد کرتے ہیں ان کو اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہوتا ہے کہ کیا غلط ہے اور کیا درست ہے۔ایک انسان کا اور سب سے بڑھ کر ایک مسلمان کا یہ سب سے بڑا نقصان ہے کہ اس کا ذہن اتنا ماؤف ہوجائے کہ اسے یہ ادراک ہی نہ رہے کہ کیا غلط ہے اور کیا درست ہے، مقصد زندگی کا تقاضا ہی یہی ہے کہ انسان کو اس چیز کا ادراک ہو کہ کیا غلط ہے اور کیا درست ہے،اگر تو یہ ادراک ختم ہوگیا تو انسان اور حیوان میں پھر فرق کیا رہا؟ اور اس موقع پر تو مقصد حیات تو پھر فوت ہی ہوجانا ہے۔
بہرحال یہ تو میں نے صرف ایک وڈیو کلپ کی بات کی ہے وگر نہ سوشل میڈیا پورا ایسی جگت بازیوں اور ایسی فضول قسم کی وڈیوز اور پوسٹوں سے بھرا پڑا ہے کہ اللہ کی پناہ۔اس ایک عنوان کو لے کر مذاق کرنا اور وڈیوز اور پوسٹیں بنا کر شیئر کرنا کہ لوگ یہ دیکھ کر انٹرٹینمنٹ حاصل کریں، ان کے کچھ ویوز اور فالورز بڑھ جائیں مطلب فین کلب بڑھ جائے تو اس کا مالی فائدہ تو چلو کچھ نہ کچھ ان کو ہوجائے گا مگر اخلاقی فائدہ زیرو فیصد سے بھی کم ہے اور جس قوم کی اخلاقی اقدار ختم ہوجائے وہاں عزتیں محفوظ نہیں ہوا کرتی ہیں اور شرم و حیا ء سرعام بکا کرتی ہے۔یہ نقطہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اس طرح کی آفات میں مسلمانوں کا وطیرہ اور طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے ہیں نہ کہ اس طرح جگت بازی اور غیر سنجیدہ رویہ رکھ کر فین کلب بڑھانے کے چکروں میں لگے رہتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ پہلی بات کہ جن کے پاس سوشل میڈیا پر کچھ فالورز ہیں اور وہ وڈیوز اور مختلف پوسٹوں کے ذریعے اپنے فالورز کو اپنے ساتھ جوڑے رکھتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ کچھ عقل کا دامن تھامیں اور ایسی وڈیوز اور ایسی پوسٹوں سے اجتناب کریں جن سے بے مقصدیت نمایاں ہو۔ اسی طرح ایسے افراد جو نہ وڈیوز بناتے ہیں نہ ہی پوسٹیں بناتے ہیں بس پورا دن یا دن کا کچھ پہر موبائل میں سوشل میڈیا کی چھان بین کرتے ہیں ان کو بھی چاہیے کہ ایسی پوسٹوں اور ایسی وڈیوز کی حوصلہ شکنی کریں۔ اس حوصلہ شکنی کے مختلف طریقہ کار ہیں،اس طرح کی پوسٹوں اور ان وڈیوز کو نہ دیکھنا حوصلہ شکنی کا سب سے بڑا طریقہ ہے اس کے علاوہ ان پوسٹوں اور وڈیوز کو آگے شیئر نہ کرنا اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نہ لگانا دوسروں کو ہنسانے کے لیے بیان بازی نہ کرنا بھی حوصلہ شکنی میں آتا ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ ان لایعنی اور بے مقصد چیزوں سے اجتناب کرتے ہوئے مقصد حیات کو سمجھانا چاہیے اور اس مقصد حیات کو سمجھتے ہوئے اس کے مطابق اپنی زندگی کے بقایا ماہ و سال گزارنے چاہیے۔کیا پتا کب، کہاں اور کس وقت اس زندگی کا چراغ گل ہوجائے اور سانسوں کا تانہ بانہ بے وفائی کرجائے۔
تبصرہ لکھیے