یہودیوں کی اسلام دشمنی اور اہل اسلام کے خلاف ان کی سازشوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ سلطان سلیمان قانونی کے زمانے میں یہودی انتہائی کسمپرسی کی حالت میں تھے۔ یہودی سردار ڈون جوزف لَسنے عثمانی ترک شہزادے سلیم اور سلطان سلیمان کے ساتھ اس کے گہرے تعلقات تھے ۔ 1541ء میں اس نے ترک شاہی خاندان سے طبریہ سمیت سات دیہات کی عملداری حاصل کر لی۔ اس نے وہاں سینکڑوں ہسپانوی یہودی لا کر بسائے اور پوری آبادی کے گرد ایک فصیل بنائی ( در اصل اس دور میں پورے مغربی یورپ میں یہودیوں پر بدترین مظالم ڈھائے جارہے تھے اور وہ پناہ کے لیے در بدر مارے پھرتے تھے۔ ڈون جوزف لَسنے نے ترکستان میں یہ بستی اپنے یہودی بھائیوں کی پناہ کے لیے بسائی تھی)۔ اسے دنیا کی پہلی چھوٹی یہودی ریاست کہا جا سکتا ہے۔
اٹھارہویں صدی میں عثمانی خلافت کا زوال شروع ہوا۔ جب ترک حکومت کمزور ہوئی، تو بیرونی سفارت کاروں نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا اور خصوصی سفارتی مراعات کی آڑ میں ترکوں کی دولت خوب لوٹی۔ اس لوٹ مار میں عیسائی اور یہودی برابر کے شریک تھے۔ اس دور میں ترک خلیفہ سلطان عبد الحمید کو خطرے کا احساس ہوا۔
جون 1882ء میں اس نے ایک حکم کے ذریعے ترکی میں یہودیوں کی مزید آباد کاری پر پابندی لگا دی۔ تاہم اس اقدام پر روسی سفیر متعینہ قسطنطنیہ نے یہودیوں کو یقین دلایا کہ روسی حکومت انھیں تنہا نہیں چھوڑے گی ۔ فروری 1884ء میں یہودیوں کی دو بڑی تنظیموں کے سربراہوں نے عثمانی وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ اس دوران پابندی کے باوجود فلسطین میں یہودیوں کی آمد جاری رہی جو اس وقت ترک خلافت کا حصہ تھا۔ فائدہ اٹھاتے ہوئے عثمانی عہدیداروں نے ملک و قوم سے بے وفائی کر کے دولت سے خوب ہاتھ رنگے ۔اس کے کارندے بحری جہازوں پر یہودیوں کے ہاتھوں جعلی پاسپورٹ بیچنے کا دھندا اعلامیہ کرتے تھے۔
مشہور صیہونی رہنما اور تحریک اسرائیل کے بانی تھیوڈور ہرزل نے 1895ء میں ترک سلطان عبد الحمید کو بالواسطہ طور پر پیشکش کی کہ یونین بینک آف ویانا کے توسط سے جیوش (یہودی) کانگرس اسے دو کروڑ عثمانی پونڈ دینے کو تیار ہے بشرطیکہ فلسطین اس کے حوالے کر دیا جائے۔ اس کثیر رقم سے ترکی اپنے قرضے اتار سکتا تھا مگر اس جسارت پر سلطان نے اسے یہ جرات بھرا مومنانہ جواب دیا " یہودی اپنی دولت اپنے پاس رکھیں۔ وہ میری لاش سے گزر کر ہی فلسطین حاصل کر سکتے ہیں۔“ اس دوٹوک جواب پر یہودی بوکھلا اٹھے۔لیکن تھیوڈور ہرزل کے ذہن پر بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی بھی طرح عثمانیوں سے فلسطین حاصل کر لیا جائے ۔ 1901ء کو وہ سلطان سے بذات خود ملا اور جس سے دو گھنٹے تک ملاقات کی۔ ہرزل نے اس بار بھی اپنی پیشکش دہرائی لیکن سلطان نے دوبارہ اسے منہ توڑ جواب دیا۔ کچھ عرصے بعد ہرزل نے سلطان سے آخری ملاقات کی اور بیت المقدس میں ایک یونیورسٹی کھولنے کی اجازت چاہی۔ سلطان عبد الحمید نے یہ پیشکش بھی مستر د کر دی۔ ترکوں کی طرف سے مایوس ہونے کے بعد تھیوڈور ہرزل نے بین الاقوامی طور پر اپنی جدو جہد کا آغاز کیا۔
1902ء میں وہ برطانوی اور 1903ء میں روسی حکام سے ملا۔ پھر اس نے آسٹریا اور جرمنی کے حکام سے بھی ملاقاتیں کیں ۔ خوش قسمتی سے اس دور کے آنے تک عیسائیوں کی یہود دشمنی ان کے ساتھ دوستی میں تبدیل ہونے لگی تھی۔ ستمبر1903 ء کو روسی وزیر اعظم نے ہرزل کو لکھا کہ سرکاری طور پر سلطان عبد الحمید کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ روسی حکومت یہودیوں کے فلسطینی منصوبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے لہذا دونوں ملکوں ( روس اور ترکی ) کے درمیان کا رشتہ اس وقت مضبوط ہو سکتا ہے جب سلطان پر ہمدردانہ غور کرے ( بیرونی قوتیں یہودیوں کی درخواست پر دوستی کا کسی طرح مسلم حکومتوں کے اندرونی معاملات میں دخل انداز ہوتی ہیں۔ یہ اعلان اس کا واضح ثبوت ہے۔ حکمران لاکھ انکار کریں لیکن سفارتی سطح پر یہ مداخلت آج بھی جاری ہے )۔ اس وقت تک عثمانی سلطنت میں ہر طرف بے چینی کے آثار پیدا ہو چکے تھے اور فوج میں بددلی پھیل رہی تھی ۔ 1906ء میں ترکی کے چند فوجی افسروں نے دمشق (شام) میں ایک خفیہ انجمن بنام وطن کی بنیاد ڈالی جس میں مصطفیٰ کمال پاشا بھی شامل تھا۔ انجمن کا رکن بننے کی شرائط بہت سخت تھیں اور ارکان سے خنجر کی نوک پر حلف لیا جاتا تھا کہ وہ اپنی اصلیت کسی پر ظاہر نہیں کریں گے۔ بعد میں یہ تنظیم ترک فوجیوں کی ایک اور خفیہ تنظیم انجمن اتحاد و ترقی میں ضم ہوگئی۔
یہودی اس تحریک کو خاصی دلچسپی کی نظر سے دیکھنے لگے کیونکہ انھیں احساس ہو گیا کہ وہ حکومت کے باغیوں سے مل کر اپنے منصوبے پر عمل درآمد کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس چھوٹے سے ترک گروہ نے انجمن اتحاد و ترقی کی بنیاد رکھی اس میں یہودی بھی شامل تھے۔ یہودی اس نقطہ نظر سے کام کر رہے تھے کہ وہ نو جوان ترکوں کی اس تنظیم پر چھا جائیں۔ انجمن اتحاد و ترقی نے اپنی کارروائیوں ۔ یہودی تنظیم فری میسن کے دفاتر آزادانہ طور پر استعمال کیے تھے۔ سلطان عبد الحمید کے مخالفین بیرون ممالک سے کئی اخبار نکال رہے تھے لیکن اس کے باوجود وہ سمجھتے تھے کہ محض مغربی پرو پیگنڈے سے سلطان کا اقتدار سے ہٹنا مکن نہیں۔ انہیں یقین تھا کہ داخلی بغاوت ہی اس کا بہترین حل ہے۔ آخر 1908ء میں انجمن اتحاد و ترقی نے بغاوت کردی .اور اس کے فوجی دستوں نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا حتی کہ کے وفادار ملازم بھی اپنی وفاداریاں تبدیل کر کے شاہی محل ساتھ مل گئے ۔ سلطان اب بالکل تنہا ہو گیا تھا انقلابیوں کے ساتھ مل گئے ۔ چنانچہ اس نے چند اصلاحات رائج کیں اور انتخابات کا اعلان کر دیا۔ انجمن نے اس انتخاب میں دھونس دھاندلی اور دباؤ سے اپنے آدمی کامیاب کروالیے اور یوں حکومت پر اس کی گرفت مضبوط ہو گئی ۲۶ ر اپریل ۱۹۰۸ ء کو پارلیمان کا اجلاس ہوا اور اس میں اس مسئلے پر بحث ہوئی کہ سلطان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے۔ چونکہ انجمن اتحاد و ترقی کے ارکان اسمبلی پر حاوی ہو چکے تھے لہذا انھوں نے ترکی کے شیخ الاسلام پر اس قدر دباؤ ڈالا کہ اس نے سلطان کی معزولی کا فتوی صادر کر دیا۔
معزولی کا پروانہ پہنچانے کے لیے خلیفہ کے پاس پارلیمان کی جانب سے جو وفد بھیجا گیا، اس میں وہ یہودی : بھی شامل تھے جنھیں ۱۹۰۰ میں سلطان عبدال عبد الحمید نے اپنے قصر سے نکلوا دیا تھا۔ اس طرح یہودیوں نے سلطان سے ذلت آمیز طریقے سے اپنا انتقام لیا۔ وہ سلطان عبد الحمید کی معزولی پر بے حد مسرور ہوئے ۔ اسی زمانے میں پیرس میں یہودی رہنماؤں کا خفیہ اجلاس ہوا جس میں ایک یہودی مندوب نے کہا " آج اگر ہر زل زندہ ہوتا تو ( سلطان کی معزولی پر ) خوشی سے پھولے نہیں سماتا۔ وہ کہتا تھا کہ اسے معزول کرنا ہی اس کی زندگی کا نصب العین تھا۔'' بعد ازاں عثمانی خلافت کے آخری خلیفہ عبدالحمید کو دانستہ ایسے گھر میں نظر بند کیا گیا جو یہودی بینکار اور قری میسری کے رکن شفیق رمزی کا تھا۔ دوسری جانب وہ انجمن اتحاد و ترقی کا بھی سرگرم رکن تھا۔ وہیں اس کا انتقال ہو گیا ۔ اس کے بعد سے اقتدار فری میسنری اور انجمن اتحاد و ترقی کے نوجوان رکن، کیپٹن مصطفی کمال کے ہاتھوں میں منتقل ہو گیا جس نے آتے ہی عربی زبان پر پابندی لگائی۔ترکی کو مملکت کی سرکاری زبان قرار دیا اور عربی اذانیں بند کروادیں ۔ جرنیلوں نے ایسا عسکری ڈھانچہ بنایا جس کے نتیجے میں فوج کے اندر عیسائیوں کو مؤثر قوت مل گئی۔ اس کے بعد ترکی بالکل سکڑ گیا۔
وہ ترک عثمانی خلافت جس کا اقتدار تین براعظموں اور دو بحروں پر پھیلا ہوا تھا محدود ہو کر مختصر سے جغرافیے میں سمٹ گئی۔ خلافت کا خلافت کا خاتمہ ہو گیا اور ترکی کی معیشت زوال پذیر ہوتی چلی گئی۔ مصطفی کمال پاشا 2اکتوبر 1919ء کوترکی کا صدر منتخب ہوا۔ 20 جنوری 1921ء کو ملک میں نئے سرے سے بنیادی آئینی قوانین وضع کیے گئے جن میں سر فہرست یہ شق تھی کہ اقتدار اعلیٰ کے مالک ملک کے عوام ہیں۔ یہ شِق اسلام کے تصور حکمرانی کے بالکل برعکس تھی جس میں کہا گیا ہے اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔“ یوں کمال پاشا نے ترکوں کا رخ اسلام سے لادینیت کی طرف موڑ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مصطفی کمال پاشا کو عربوں سے جان چھڑانے کے لیے اسلام پر تیشہ زنی کی ضرورت تھی، دراصل وہ یہودی ایجنڈے کو بروئے کار لانے میں مصروف تھا۔
تبصرہ لکھیے